گائوں میں قتل ہوتا تھا تو تھانیدار وہاں ڈیرہ ڈال لیتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ انگریز ایس پی اس کی کڑی نگرانی کر رہا ہے۔ ہم نے یہ ''انگریزی‘‘ روایت ختم کر دی۔ پاکستان میں سینکڑوں نہیں ہزاروں قتل پولیس کی کتابوں میں ''نامعلوم‘‘ قاتلوں کے ساتھ درج ہیں۔
ریلوے کو دیکھیے‘ کس حالت میں سفید چمڑی والا سامراج چھوڑ کر گیا تھا۔ ہم سے پٹریوں کا لوہا تک بیچ کھایا۔حویلیاں تک انگریز ریلوے دے گئے تھے۔ ایبٹ آباد وہاں سے صرف دس بارہ میل ہے۔ جہاں تھی ریلوے لائن اب بھی وہیں تک ہے۔ ان دعووں پرنہ جائیے کہ ریلوے خنجراب تک یا چترال تک جائے گی! پنڈی سے مری تک بھی چلی جائے تو مٹھائی بانٹیے گا اور بکرا ذبح کیجیے گا!
قانون کی عملداری پر غور فرمائیے۔ پاکستان بنا تو اس وقت... اور اس کے بعد بھی کئی عشروں تک‘ قانون کی حرمت قائم تھی۔ ملازمت کے لیے اگر عمر کی حد معین تھی تو بس معین تھی۔ اسے کوئی ہٹا نہیں سکتا تھا۔ مگر پھرہم نے اس میں پاکستانیت داخل کی۔ اب سائل''اوپر‘‘ پہنچتا ہے اور خصوصی حکم لا کر افسر کے منہ پر مارتا ہے!
مگر افسوس انگریزوں کی چھوڑی ہوئی جو شے تبدیل کرنی چاہیے تھے‘ وہ وہیں کی وہیں رہی۔ گویا پطرس کے بقول‘ سائیکل کا ہر پرزہ بجنے لگا سوائے گھنٹی کے! قبائلی علاقوں کو مٹھی میں پکڑ کر بھینچنے کے لیے انگریز سرکار نے 1901ء میں ایف سی آر(فرنٹیر کرائمز ریگولیشن) نافذ کیا تھا۔ افسوس ! صد افسوس! یہ جوں کا توں موجود ہے!
یہ قانون نافذ کرکے انگریز سامراج نے قبائلی علاقوں کو اپیل وکیل اور دلیل سے محروم کر دیا تھا۔ جرگہ سزا دے تواس کے خلاف کوئی اپیل نہیں۔ پورا خاندان سزا پائے گا۔ مکانوں کو مسمار کر دیا جائے گا۔ بغیر کچھ بتائے پکڑا جا سکے گا۔
آپ پڑھے لکھے ہیں۔ پاکستان کا آئین اٹھائیے‘ شق247پڑھیے اور سر پیٹیے۔ لکھا ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ کا کوئی قانون قبائلی علاقوں پر نافذ نہیں ہو سکے گا۔ کوئی پوچھے کہ پھر قبائلی علاقوں کے منتخب نمائندے اس پارلیمنٹ میں کیوں بیٹھے ہیں؟
قبائلی علاقے اس ظلم کا شکارکیوں ہوئے؟ اس کی وجہ وہ ''گریٹ گیم تھی جو روس اور برطانوی ہند کے درمیان ڈیڑھ دو سال تک کھیلی جاتی رہی۔ روس آہستہ آہستہ جنوب کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس نے خیوا‘ پھر تاشقند‘ سمر قند‘ بخارا اور قوقند پر قبضہ کیا۔ ہندوستان پر حکومت کرنے والے انگریز دیکھ رہے تھے کہ اب اس کے بعد افغانستان کی باری ہے۔ انگریزوں نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے لیے کئی جنگیں لڑیں مگر کامیابی نہ ہوئی۔ پھرروس ترمذ کے کنارے دریائے آمو پررک گیا۔ افغانستان دونوں سلطنتوں کے درمیان بفر زون بن گیا۔ مگر انگریز پھر بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ رہے تھے۔ اپنی حفاظت کو آخری درجے تک پہنچانے کے لیے انہوں نے ہندوستان اور افغانستان کے درمیان ایک اور بفر زون قائم کیا۔ یہ بفر زون قبائلی علاقوں(فاٹا) پر مشتمل تھا۔طے یہ ہوا کہ ہندوستانی سرکار کا کوئی قانون قبائلی علاقوں پر نافذ نہ ہو گا۔ قبائلی کیا کرتے ہیں‘ کیا نہیں کرتے اس سے انگریز سرکار کا کوئی سروکارنہ ہو گا۔ ان کا طرز زندگی‘ معاشرت‘ ثقافت سب کچھ ان کے ہاتھ میں رہے گا۔ بدلے میں جنگ کی صورت میں وہ انگریز کا ساتھ دیں گے اور جو سڑکیں افغانستان تک پہنچنے کے لیے بنائی جائیں گی‘ ان کی حفاظت کریں گے۔
کوتاہ نظری بلکہ اندھا پن ملاحظہ ہو کہ یہ ایف سی آر‘ یہ قبائلی علاقوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا‘ انہیں جدید دنیا کی ہوا نہ لگنے دینا۔ یہ سب کچھ پاکستان کے بعد بھی اسی طرح رہا۔ چنانچہ ستر سالوں میں وہاں کالج بنا نہ یونیورسٹی‘ زراعت جدید ہوئی نہ کارخانے لگے۔ پولیٹیکل ایجنٹ... جو ایک سو ایک فی صد انگریز سامراج کا تسلسل ہے... اب بھی وہاں حکومت کرتا ہے۔ وہ مَلکوں اور خانوں کو بھاری رقوم دیتا ہے۔ یہ رقوم عام قبائلی تک نہیں پہنچتیں۔ سمگلنگ خوب ہوتی ہے‘ چوری شدہ کاریں‘ اغوا شدہ افراد‘ سب ان علاقوں میں رکھتے جاتے ہیں‘ اس لیے کہ قانون وہاں موجود ہی نہیں۔ اس کالم نگار نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ستر سالوں میں جو رقوم سرکاری خزانے سے لے کر پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعے ان سرداروں اور مَلکوں کو دی گئی ہیں‘ قوم کو ان کی تفصیل بتائی جائے!
پھر ان علاقوں پر ایک اور افتاد آ پڑی۔ یہ افغان ''جہاد‘‘ کے لیے قربانی کے بکرے بنائے گئے۔ ان علاقوں میں دنیا بھر کے خونخوار جنگ جُو آ کر بس گئے۔ ان خونخوار جنگ جُوئوں کی سرپرستی صدر ضیاء الحق کی حکومت نے کی اور ان مذہبی جماعتوں نے بھی جو صدر ضیاء الحق کی حکومت سے کسی نہ کسی صورت میں فائدے حاصل کر رہی تھیں۔ جن مفاد پرستوں نے اپنے بچوں کو امریکہ میں تعلیم دلوائی اور ان کے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ اور قلم دیے‘ انہوں نے قبائلی بچوں کے ہاتھوں میں بندوقیں پکڑائیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ شہادت کے عظیم مرتبے پر یہ طالع آزما خود نہ فائز ہوئے۔ قبائلیوں کو ایندھن بنایا گیا۔ آج قبائلی علاقے میں شاہراہیں ناپید ہیں۔ بے گھروں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جدید دنیا سے کوسوں دور! ایک اور ہی دنیا ہے جس میں تعلیم کا گزر ہے نہ طبی سہولتوں کا!
خدا خدا کر کے معاملہ یہاں تک پہنچا کہ ان علاقوں کو خیبر پختون خوا کے صوبے میں ضم کرنے کی بات شروع ہوئی۔ مگر افسوس! طالع آزما پھر جیت گئے۔ تازہ ترین بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے درمیان مک مکا ہو گیا ہے۔ مولانا نے پریس کانفرنس میں کل بتایا ہے کہ ''فاٹا میں پانچ سال تک اصلاحات اور تعمیر و بحالی کے کام ہوں گے۔ اس کے بعد خیبر پختون خوا میں انضمام یا الگ صوبہ کے بارے میں قبائلی عوام کی رائے لی جائے گی‘‘
اس سے چند روز پہلے‘ انضمام کا مسئلہ ایک وفاقی وزیر کے کہنے پر‘ کابینہ کے ایجنڈے سے نکال دیا گیا!
یعنی قبائلی عوام کو اسی حال میں رکھا جائے گا۔ انضمام کی صورت میں صوبے کے ہسپتال ‘ تعلیمی ادارے اور دیگر سہولیات ان کی دسترس میں ہوتیں۔ اب وہ ان سے محروم ہی رہیں گے۔ حیرت اس امر پر ہے کہ قبائلی خاندان آدھے آدھے اب بھی خیبر پختون خوا کے شہروں میں ہیں۔ گویا خاندان تقسیم ہی رہیں گے!
جو سیاسی قوتیں قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی مخالفت کر رہی ہیں‘ ان کا تعلق قبائلی علاقوں سے نہیں ہے۔ ہر شخص ان کی شہرت اور کردار سے بخوبی آگاہ ہے۔ پاکستانی عوام کی بھاری اکثریت ان سیاسی قوتوں کو کس نظر سے دیکھتی ہے اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں! غالب نے کہا تھا ؎
بھرم کھل جائے ظالم ! تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرّۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
ان سیاسی قوتوں کی شہرت سودا کرنے کے حوالے سے خوب ہے۔ سیاست کو کاروباراس ملک میں انہی قوتوں نے بنایا ہے۔ خیبر پختونخوا میں قبائلی علاقے ضم نہ ہونے کی صورت میں کس کو کیا فائدہ ہو گا؟ یہ بھی عوام خوب سمجھتے ہیں۔ ان قوتوں نے آج تک ایف سی آر ختم کرنے کے لیے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ قبائلی علاقوں میں تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں یا صنعت و حرفت کے دروازے کھولے جائیں یا زراعت کو مستثنیٰ کیا جائے۔
افق پر جو ایک ستارہ دکھائی دیتا تھا‘ چُھپ چکا ہے۔ روشنی کی کرنوں کو اندھیرے نے ڈھانپ لیا ہے۔ قبائلی بچوں کی قسمت میں غلیلیں اور بندوقیں ہی رہیں گی۔ ان کے شہر پشاور‘ اسلام آباد‘ کراچی اور لاہور جیسے نہیں بن سکیں گے۔ بنجر خوفناک پہاڑوں میں سمگلنگ ہوتی رہے گی۔ پولیٹیکل ایجنٹ‘ چند مخصوص سرداروں‘ مَلکوں اور خانوں کو نوازتے رہیں گے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے فاٹا کے نمائندے اپنے علاقوں کے حوالے سے بے بس تماشائی بنے رہیں گے۔
مفادات جیت رہے ہیں قومی تقاضے شکست کھا رہے ہیں۔ طالع آزما‘ حکمرانوں کی پشت پناہی میں‘ چہروں پر فاتحانہ مسکراہٹ سجا چکے ہیں۔
تو پھر تعجب ہی کیا ہے اگر عام قبائلی بندوق اٹھا کر کبھی منگل باغ کی پناہ میں آ جاتا ہے اورکبھی کسی بیت اللہ محسود کے پاس جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ آخر اس کے پاس کون سا متبادل ہے؟ دوسرا راستہ تو کُھلنے سے پہلے ہی مسدود کیا جا رہا ہے!!