دو گلیاں چھوڑ کر، تیسری گلی میں ایک صاحب رہتے ہیں۔ آپ ان سے کبھی نہیں ملے۔ ان کے بچے نے کوئی امتحان دیا ہے جس میں وہ کامیاب ہو گیا ہے۔ کل سے ان صاحب کو بخار ہے۔ گزشتہ ماہ وہ عمرے پر گئے تھے۔ پرسوں ان کی والدہ کی برسی ہے۔ ایک اور صاحب شکار پور میں رہتے ہیں۔آپ انہیں نہیں جانتے نہ ملنے کا امکان ہے۔ ان کا بزنس ڈاؤن جا رہا ہے۔ ان کے پیر صاحب نے انہیں کچھ وظائف بتائے ہیں۔ عام زندگی میں یہ حضرات اپنے ذاتی مسائل کے بارے میں آپ کی سمع خراشی نہیں کر سکتے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کے گھر کے اندر آ جائیں اور آپ کو سامنے بٹھا کر اپنے تفصیلی معاملات پر لیکچر دیں؟
مگر افسوس! فیس بک پر یہ سب کچھ ممکن ہے۔ یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ! موبائل فون کی پیدائش سے پہلے کی بات ہے‘ ہمارے ایک مرحوم دوست گھر میں ٹیلی فون نہیں لگواتے تھے کہ اس کا مطلب ہے گھر میں غیر مرد کو داخل کر لیں‘ مگر اب آپ کے گھر میں درجنوں نہیں، سینکڑوں کے حساب سے اجنبی لوگ گھس چکے ہیں۔ آپ کے ہر کام میں مداخلت کرتے ہیں۔ آپ کو اپنے ہر معاملے میں گھسیٹتے ہیں۔
ایک کالم نگار کے لیے مشکل کئی گنا زیادہ ہے۔ جسے بھی آپ کی تحریر اچھی لگتی ہے۔ آپ کو دوستوں کی فہرست میں اَیڈ کرنا چاہتا ہے۔ نہ کریں تو انباکس پر خصوصی درخواست کرے گا۔ یوں ایک کالم نگار کے ''دوستوں‘‘ کی تعداد پانچ ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ جو فیس بک کے ''دوستوں‘‘ کی، تعداد کے لحاظ سے، آخری حد ہے۔ سینکڑوں خواہش مندوں کی Requests پڑی رہ جاتی ہیں۔ یہ ''دوستی‘‘ دنیا کی عجیب و غریب دوستی ہے۔ دیکھا نہ ملے‘ مگر ہر روز کا نامہ و پیام۔ یہ لطیفہ ہے یا واقعہ، بھیک دیتے ہوئے عورت گداگر سے پوچھتی ہے کہ تمہیں کہیں دیکھا ہے، کہاں دیکھا ہے؟ وہ فخر سے جواب دیتا ہے ''جی! میڈیم! میں آپ کا فیس بک فرینڈ ہوں‘‘ پھر ایسی ایسی پوسٹیں آپ کے سامنے آتی ہیں کہ آپ دل مسوس کر رہ جانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ کوئی پوچھ رہا ہے کہ میٹرک کے بعد اس کا بچہ کیا پڑھے؟ کوئی عقل مند مشورے کا طالب ہے کہ دس ہزار سے بزنس کون سا شروع کرے۔ کوئی آپ کو اپنے مسلک کی طرف کھینچتا ہے۔ کوئی دھمکی دے رہا ہے کہ لائک نہیں کرو گے تو شیطان کے ساتھی قرار دیے جاؤ گے۔ یقینا کچھ احباب تعمیری، معلومات افزا اور دل چسپ پوسٹیں بھی لگاتے ہیں۔ ہمارے دوست زمان ملک صرف شاعری پوسٹ کرتے ہیں اور بہت اچھی شاعری! خاص طور پر ان کی نظمیں۔ شاہد مسعود ملک فارسی کے اعلیٰ معیار کے اشعار لگاتے ہیں اور اپنے مفردات بھی۔ پروفیسر ڈاکٹر ساجد علی کے اشارات بہت معلومات افزا ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی خود نوشت لکھنی چاہیے۔ اسلم ملک صاحب کی پوسٹیں جاذب نظر ہوتی ہیں۔ آصف محمود سیاسی معاملات پر بصیرت افروز خیالات شیئر کرتے ہیں۔ ہمایوں تارڑ بہت کارآمد باتیں لکھتے ہیں۔ عماد بزدار بھی اپنے مؤقف کا دفاع مثبت انداز میں کرتے ہیں‘ مگر اس کالم نگار کی رائے میں مفید ترین پوسٹیں، فیس بک پر، پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی کی ہوتی ہیں۔ ان میں علم بھی ہوتا ہے، دانش بھی، ثقافت بھی اور تاریخ بھی۔ ان کے موضوعات پر ایک نظر ڈالیے۔
''اساتذہ۔ مذاہب اور فرقے۔ خواب نامہ۔ حقہ سازی اور حقہ بازی۔ شعرا اور روحانی تربیت۔ آغا سازی۔ ملھپ (کینچوے)۔ گُم شدہ آوازیں (بھانڈے قلعی کرا لو)۔ دیہاتی جوتے۔ نادر گردی۔ پنجابی بولیاں۔ ما وڈی (بڑی اماں)۔ بھنڈی۔ پھلاہی اور کیکر۔ کال کڑچھی (کوئل)۔ اردو کا دعائیہ ادب۔ عید کارڈ کا زوال۔ علمی اداروں کی معلومات۔ جامن آباد۔ ٹلہ جوگیاں‘‘۔
ایک تو یہ موضوعات سیاست کی آلودگی سے پاک ہیں، دوسرے نظامی صاحب کی اعلیٰ پائے کی نثر! سبحان اللہ! ذکراُس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا۔ کلاسیکی اور ہمعصر فارسی ادب کے کئی نکات باتوں باتوں میں پڑھا اور سلجھا دیتے ہیں۔ کبھی کبھی، جان بوجھ کر، اساتذہ کے اُس رنگ میں لکھتے ہیں جو خواب و خیال ہو چکا ہے۔ ایک ٹکڑا ملاحظہ فرمائیے:
''یہ احقرالانام اپنی تمام تحریری و تقریری آرائِ سقیمۂ سابقہ بابت احوال و آثار و اخبار و افکار حضرت مرزا صاحب بیدل مرحوم و مغفور اور بابت ان کے مفسّرین و شارحینِ ماضی سے بہ صد خشوع و خضوع رجوع کرتا ہے۔ ناچیز کا اب ان آرائِ قدیمہ سے کوئی تعلّقِ علمی و نقلی وغیرہ باقی نہ ہے۔ ہاں نسبت قولی یا تصنیفی میرے نوشتہ ہائے خام کی اور میری یاوہ گوئی و ژاژخائی کی علیٰ ایِّ حال اسی خادم العلما و عاجز الفضلا ہی کی طرف عائد ہووے گی‘‘۔
معین نظامی نے رومی کی غزلیات کے اردو تراجم جس لطافت اور جس نزاکت کے ساتھ کیے ہیں، جو ان کی وال پر میسر ہیں، وہ اردو ادب میں ایک گرانقدر اضافہ ہیں۔ اگر یہ کتاب کی صورت چھپ جائیں تو کیا ہی کہنا۔ شائقین ادب اور دلدادگانِ تصوف کے لیے یہ مجموعہ ارمغانِ خاص ہو گا۔
واپس چلتے ہیں اس موضوع کی طرف کہ کالم نگار کو فیس بک میں کیا کیا انہونیاں پیش آتی ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ کالم نگاری میں سیاست سے چھٹکارا نہیں اور سیاست اور مذہب دو میدان ایسے ہیں جن میں، ہمارے ہاں، شمشیر زنی اور تیر اندازی مسلسل ہوتی ہے۔ آپ جس رائے کا بھی کالم میں اظہار کریں گے اس کی موافقت اور مخالفت میں آرا آئیں گی اور آنی بھی چاہئیں۔ اگر بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھی مگر بدقسمتی سے قارئین کی کثیر تعداد، فیس بک پر، صرف مخالفت پر نہیں رکتی۔ دشنام طرازی اور ناقابل برداشت طعن و تشنیع پر اتر آتی ہے۔ کوئی پوچھتا ہے ''بتائیے اب تک اس ملک کے لیے آپ نے کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے؟‘‘ ایک صاحب نے پوچھا: آپ کے بچے باہر کس طرح گئے‘ حساب دیجیے۔ بہت سے آتش خور لفافے کا طعنہ دیتے ہیں۔ ایک صاحب نے بہت سی گالیاں دینے کے بعد لکھا کہ آپ کی عمر کا لحاظ نہ ہوتا تو آپ کی ایسی تیسی کر دیتا۔ یوں تو کم و بیش سبھی کالم نگاروں کے ساتھ یہی کچھ ہورہا ہے مگر برداشت اپنی اپنی ہے۔ کچھ دوست تجویز کرتے ہیں کہ دشنام طرازوں، نیزہ بازوں اور طپنچہ اندازوں کو بلاک کرتے جائیے۔ مگر ذرا سوچیے! یہ بھی کیا کوئی کام ہے جو آدمی کرے اور کرتا پھرے؟ بلاک کرتے ہوئے ہمیشہ یوں لگا جیسے دروازے پر کھڑا کوئی گالیاں دے رہا ہے اور ہم اسے دھکے دے کر باہر نکال رہے ہیں۔ ایک انتہائی ناشائستہ عمل۔ کسی کا نامناسب کمنٹ ڈیلیٹ کرنا بھی ایک ایسا کام ہے جسے کرنے کے بعد دل بوجھل ہو جاتا ہے۔
کمنٹ اخبار کے ویب سائٹ پر بھی آتے ہیں۔ ان میں کچھ ناشائستہ بھی ہوتے ہیں مگر خوش قسمتی سے ہمارے اخبار کی ''آئی ٹی‘‘ ٹیم اور ٹیم لیڈر اس معاملے میں اتنے الرٹ ہیں کہ ایسے کمنٹس جتنا جلد ممکن ہو ڈیلیٹ کر دئیے جاتے ہیں۔ فیس بک پر یہ کام کرنا گناہِ بے لذت کے سوا کچھ نہیں۔ سوشل میڈیا کی جتنی صورتیں ہیں ان میں فیس بک سب سے زیادہ فسادی ہے۔ ای میل، ٹویٹر، وٹس ایپ، ایس ایم ایس وغیرہ سب کی کوئی نہ کوئی حد ہے۔ آپ آسانی سے انہیں کنٹرول کر سکتے ہیں۔ فون نمبر بدل سکتے ہیں مگر فیس بک ایک ہجوم ہے۔ ایک بے قابو ہجوم! اندازہ لگائیے جہاں لوگ خود ساختہ، مضحکہ خیز اور خارج از وزن اشعار غالب، اقبال، فیض اور فراز کے نام منسوب کرتے ہیں اور پھر ظلم کی انتہا کہ بے تحاشا داد بھی پاتے ہیں۔ وہاں سے چُپ کرکے نکل ہی آنا چاہیے کہ بقول ظفرؔ اقبال:
جس آب رود کی اوقات چند قطرے ہوں
پھر اس میں تیرنا کیا اس میں پاؤں دھرنا کیا