دارالحکومت کی جس بستی میں کالم نگار رہ رہا ہے اُس بستی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اردو شاعری کے حوالے سے دو بڑی شخصیتیں یہیں قیام فرما ہیں۔ افتخار عارف اور انور مسعود!
فارسی زبان و ادب کے توسط سے والد گرامی مرحوم کی بھی علیک سلیک جناب انور مسعود سے تھی۔ دونوں فارسی کے استاد تھے۔ اس حقیر سے بھی انور مسعود شفقت سے پیش آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ نہ بھی متعارف ہوتے تو کالم نگار کے لیے یہی کافی تھا کہ اس نے انور مسعود کو دیکھا ہے، انہیں سنا ہے، ان کے پاس بیٹھا ہے اور ان کے عہد میں جی رہا ہے۔ المیہ یہ ہوا کہ مشاعروں کے حوالے سے انور مسعود کی عالمگیر شہرت اور بے پناہ مقبولیت ان کی علمی حیثیت کو پس منظر میں لے گئی؛ تاہم ان کی شاعری میں بھی علم ہے۔ ان کے بکھیرے ہوئے قہقہوں کے پیچھے آنسو تو ہیں ہی، مگر‘ جس طرح وہ زبان کو برتتے ہیں اور جس طرح الفاظ کی پرتیں کھولتے جاتے ہیں، اس سے ایک ایک مصرعے میں علم کا دروازہ کھلتا جاتا ہے اور ایک ایک شعر میں لغت کے عقدے وا ہوتے جاتے ہیں۔
ضمیر جعفری کے بعد، وہ اردو مزاح کے سب سے بڑے شاعر ہیں؛ تاہم الفاظ سے کھیلنے کا فن جو انور مسعود جانتے ہیں، ضمیر صاحب کی شاعری میں بھی نہیں ملتا۔ غزل کے بارے میں جب وہ کہتے ہیں کہ 'یوں بحر سے خارج ہے کہ خشکی پہ پڑی ہے، تو شعر کے بحر سے خشکی کا پہلو نکالنا انہی کا کمال ہے۔ ایک اور قطعے میں لغت کا کھیل دیکھیے:
اگر ہیں تیغ میں جوہر، جواہر میں خمیرے ہیں
ادھر زور آزمائی ہے ادھر طاقت کے نسخے ہیں
مطب میں اور میدان دغا میں فرق اتنا ہے
وہاں کُشتوں کے پُشتے ہیں یہاں پُشتوں کے کُشتے ہیں
تیغ میں انور مسعود نے جوہر دیکھا۔ جوہر سے جواہر اور جواہر سے خمیرہ گاؤ زبان عنبری جواہر والے تک پہنچے‘ مگر اصل گتکا جو وہ کھیلے ہیں آگے ہے‘ میدان جنگ میں کشتوں کے پشتے لگتے ہیں‘ مگر حکیم صاحب کے مطب میں جو خاندانی کشتے ہیں وہ تو پشتوں کے کشتے ہیں! اپنی شہرۂ آفاق نظم ''تو کی جانیں بھولیے مَجھے انار کلی دیاں شاناں‘‘ میں جب وہ بھینس کو ہدایت کرتے ہیں کہ اب گُڑ کا شربت نہیں تو نے کولا پینا ہے تو نلکی (سٹرا) کے لیے جس طرح ''کانا‘‘ کا لفظ فِٹ کیا ہے، کمال کی زباندانی دکھائی ہے۔ع
بوتل دے نال منہ نہ لائیں، منہ وچ پا لے کانا
انور مسعود ایران میں تھے کہ کسی کھانے کی محفل میں ان پر دہی الٹ گیا۔ فوراً بولے: از ماست کہ بر ماست۔ ماست فارسی میں دہی کو کہتے ہیں، بر ماست کا مطلب ہے ''ہم پر ہے‘‘۔ جدہ میں مشاعرہ تھا۔ انور صاحب کی باری آئی تو کہا: یہ ایک اَن فراموش ایبل (Un-framoshable) مشاعرہ ہے۔ انور مسعود کی یہ نکتہ آفرینی دیکھیے کہ وہ کہتے ہیں: پانی کے حوالے سے جتنے الفاظ ہیں‘ ان میں سے اکثر ''نون‘‘ سے شروع ہوتے ہیں جیسے نل، نہر، نہانا، نم، ندی، ناؤ، نوکا، نالہ، نلکا، نیاگرا، نِیل، نچڑنا‘ نوش، نوشابہ۔
انور مسعود کو جو غیر معمولی پذیرائی پوری دنیا میں ملی ہے، شہرت کے جس آسمان پر وہ ہیں اور جو عالم ان کی مقبولیت کا ہے‘ اس میں سارا عمل دخل، صرف نظر آنے والے عوامل کا نہیں، نظر نہ آنے والے اسباب کا بھی ہے۔ وہ پکے اور کٹر مسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہیں۔ ذکر، اذکار، اوراد و وظائف باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ ایک ان کا معمول تو اس بے بضاعت کو بھی معلوم ہے۔ سورہ مُلک کی ہر روز تلاوت کرتے ہیں۔ اعلیٰ درجے کے خطاط ہیں۔ ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی سورہ مُلک دیکھی ہے۔ اپنے خیالات کے اظہار میں کبھی کوئی احساس کمتری آڑے آیا نہ کوئی مصلحت! نہ وہ کبھی زمانے کی رَو میں بہے۔ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے بارے میں جو بات انور مسعود نے کہی، شاید ہی کسی نے کہی ہو:
عبرت کی اک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی
کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے
سقوط ڈھاکہ کا نوحہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ملک آدھا گیا ہاتھ سے اور چُپ سی لگی ہے
اک لونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے
سچ یہ ہے کہ ان کی جن نظموں کو مزاح سمجھ کر سامعین اور قارئین حظ اٹھاتے ہیں اور ہنستے ہیں، وہ دراصل نوحے ہیں۔ ہماری پسماندگی کا اس سے زیادہ درد ناک نوحہ کیا ہو گا کہ:
باندھی ہوئی ہے کَس کر تانگے سے چارپائی
اکیسویں صدی میں ہم جا رہے ہیں بھائی
ان کی نظم "''ہُن کی کرئیے‘‘ سیاسی بازی گروں کی ناکامی کا نوحہ ہے اور رلا دینے والا نوحہ ہے مگر خون جگر سے لکھے ہوئے ان نوحوں کو پڑھتے ہوئے انور مسعود خود بھی ہنستے ہیں اور دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں۔ یہی ان کے فن کا کمال ہے۔ پھر پڑھنے کا اور ادائیگی کا اسلوب بھی قسّام ازل نے بطور خاص بخشا ہے۔ میں جب بھی ان کی نظم ''گل کسے کیتی سی‘‘ پڑھتا یا سنتا ہوں تو رونا آتا ہے مگر کمالِ فن یہ ہے کہ اسے بھی انہوں نے مزاح میں ''شوگر کوٹ‘‘ کیا ہے۔ پنجابی سے نا واقف حضرات کے لیے کاش کوئی ماہر فن اس نظم کا اردو اور انگریزی میں ترجمہ کر دے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس مضمون کی اور اس پائے کی نظم شاید دنیا کی کسی زبان میں نہیں ہو گی تو اس میں مبالغہ نہ ہو گا۔ یوں لگتا ہے لغت انور مسعود کے آگے دست بستہ کھڑی ہے، لفظ ان کے غلام ہیں۔ عام سے لفظ کو استعمال کرتے ہیں تو وہی عام سا لفظ ہیرے کی طرح چمک اٹھتا ہے۔
اس کالم نگار نے تاریخ کے مطالعہ سے، تین تین مشاہیر کا کلاس فیلو ہونا نوٹ کیا ہے۔ عمر خیام، نظام الملک طوسی اور حسن بن صباح تینوں کلاس فیلو تھے۔ تینوں مشہور ہوئے۔ وجۂ شہرت ہر ایک کی الگ تھی۔ پھر مغل دور میں ملاّ عبدالحکیم سیالکوٹی، شیخ احمد سرہندی اور نواب سعداللہ خان کلاس فیلو تھے۔ تینوں مشہور ہوئے۔ ملا عبدالحکیم سیالکوٹی بہت بڑے عالم اور سکالر تھے۔ شاہجہان نے دو بار چاندی میں تُلوایا۔ لاہور، آگرہ اور سیالکوٹ میں بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے سربراہ رہے۔ فاضل لاہوری اور آفتابِ پنجاب کے خطابات پائے۔ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق، مجدد الف ثانی کا لقب انہیں مُلّا صاحب ہی نے دیا تھا۔ رہے، نواب سعداللہ خان، تو وہ شاہجہان کے عہد میں وزیر اعظم بنے۔ اسی تسلسل میں ہمارے عہد کے تین بڑے شاعر بھی کلاس فیلو ہیں۔ انور مسعود، خورشید رضوی اور اسلم انصاری۔ کلاس فیلو اس معنی میں کہ ایک ہی سیشن میں یہ تینوں اورینٹل کالج کے طالب علم تھے۔ انور مسعود نے فارسی میں ایم اے کیا، خورشید رضوی نے عربی میں اور اسلم انصاری نے اردو میں۔ خورشید رضوی شاعر ہونے کے علاوہ عربی ادب کے بلند پایہ ماہر اور محقق ہیں۔ اسلم انصاری کمال کے شاعر اور مقرر ہیں۔ ہمارا دوست آفتاب احمد شاہ جب ڈی جی خان کا ڈپٹی کمشنر تھا تو اس کے دور میں ڈی جی خان مشاعروں اور ادبی تقاریب کا مرکز تھا۔ وہیں ایک فنکشن میں اسلم انصاری کی تقریر سنی۔
انور مسعود قدیم اور جدید فارسی ادب، بالخصوص شاعری پر ماہرانہ دسترس رکھتے ہیں۔ اس موضوع پر ان کی کتاب بھی آ چکی ہے۔ کاش! ہم جیسے فارسی کے عشاق باقاعدگی سے استفادہ کر سکتے! یہ طالب علم جب انہیں ملتا ہے تو ان کے گھٹنے چُھوتا ہے۔ لوگ ہی کتنے رہ گئے ہیں جن کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے!