اودھ اور حیدر آباد کی خود مختار ریاستوں کے درمیان کشمکش چل رہی تھی۔
آپ کا کیا خیال ہے یہ کشمکش کیوں تھی؟ پالیسیاں اور اہم انتظامی امور تو انگریز آقائوں کے ہاتھ میں تھے۔ ہر ریاست میں ایک انگریز نمائندہ موجود رہتا جو جملہ امور کی کڑی نگرانی کرتا اور ایک ایک بات سے کلکتہ کو باخبر رکھتا۔ تو پھر یہ کشمکش کیوں تھی؟ جب کہ بارڈر بھی مشترک نہ تھا۔ ترجیحات کا اندازہ لگائیے کہ یہ کشمکش ایک باورچی کے لیے تھی۔ یہ نظام حیدر آباد کے پاس تھا۔ شہرت اس کی ماش کی دال پکانے کے لئے تھی۔ گویا یہ ماش کی دال کا سپیشلسٹ تھا۔ بالآخر لکھنؤ کو فتح نصیب ہوئی اور باورچی حیدر آباد سے آ گیا۔
پست ذوق اور عامیانہ مزاج کی یہ صرف ایک مثال ہے‘ ورنہ ان غلام نوابوں کے دن رات اسی نوع کی کارگزاریوں میں گزرتے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی منصوبہ بندیاں کرتے رہتے۔ یہ بھی ہوا کہ ایک نواب نے دوسرے کی دعوت کی۔ مہمان نے کوفتہ لیا تو اصل میں وہ مٹھائی تھی۔ یہی حال باقی ڈشوں کا تھا۔ قورمہ تھا یا بریانی‘ سبزی تھی یا دال، سب مٹھائیاں تھیں۔ یوں مہمان کو شکست دی گئی۔ اس مہمان حکمران نے بھی بدلہ لیا۔ سائنس یا علم کے میدان میں نہیں، بلکہ دستر خوان پر! اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ گڈے گڑیا کی شادی پر سپیشل ٹرینیں چلی تھیں اور وائسرائے بھی بلایا گیا تھا۔ عوام بھی اسی رنگ میں رنگے گئے۔ کتوں، مرغوں اور بٹیروں کی لڑائیاں دیکھنے کے لئے ہجوم امڈ امڈ آتے۔
ذوق آج بھی وہی ہے۔ صرف وقت کے ساتھ اس کے مظاہر بدل گئے۔ پست ذوق اور عامیانہ پن ہر طرف چھایا ہوا ہے۔ سوچیے کہ 'یہ ہماری کار ہے‘ یہ ہم ہیں اور یہ ہماری پارٹی ہو رہی ہے‘ والی وڈیو کیسے جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔ بچوں سے لے کر بڑوں تک سب اس تھرڈ کلاس تلفظ اور مبتذل لہجے کے کس طرح اسیر ہوئے۔ ہر طرف کہرام برپا ہو گیا جیسے ہم سب سے پہلے مریخ پر پہنچ گئے ہیں اور باقی دنیا پیچھے رہ گئی ہے۔ اس سے پہلے پوری قوم حریم شاہ کے سِحر میں گرفتار ہوتی دیکھی گئی۔ جس لڑکی کا باپ، خون کے آنسو رو رہا تھا اور اپنے روایتی خاندان کی عزت کے پرخچے اڑنے پر ماتم کناں تھا، ( باپ کی وڈیو بھی تو سب نے دیکھی تھی) اس لڑکی کو اتنی غیر معمولی کوریج دی گئی‘ جس کی مثال نہیں ملتی۔ پھر اسی لڑکی کے حوالے سے صوبائی و وفاقی وزیروں اور بڑے بڑے مشہور اینکروں کے نام اُچھلے۔ یہاں تک کہ اُس دفتر میں بھی دیکھی گئی جو حکمرانی کی اعلیٰ ترین عمارت ہے اور جسے ہمارے ملکی وقار اور قومی متانت کی علامت ہونا چاہیے تھا۔ مگر کہاں کا وقار! اور کیسی متانت! گویا یہ سب کچھ کافی نہ تھا کہ ایک اور بطل جلیل، مفتی قوی نامی، سوشل میڈیا پر چھا گیا۔ دین کے نام پر بھی دھبہ اور دنیا کے لیے بھی باعث ندامت! ہر حد اس نے کراس کی مگر سوشل میڈیا کو خیال نہ آیا کہ اسے در خور اعتنا نہ سمجھے۔ اس کا بھی خاندان ہی آخر کار سامنے آیا۔ اپنی بے حرمتی کا ماتم کیا، مفتی کے خاندانی لقب سے اسے محروم کیا اور مبینہ طور پر، موبائل فون اس سے لے کر، گھر میں محبوس کر دیا۔ پست ذوق عوام اور بھوکا وحشی سوشل میڈیا اگر ان اوباشوں کو ان اسقط الناس Scums of the earth کو نظر انداز کر دیتا اور انہیں شہرت کے ناقابل رشک آسمان تک نہ لے جاتا تو ان خاندانوں کی عزت بچ سکتی تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ ماں باپ اپنے بچوں کے سائنسی، علمی، عسکری اور معاشرتی کارناموں پر فخر کرتے تھے، افسوس! صد افسوس! آج والدین اس کامیابی پر پھولے نہیں سماتے کہ ہماری بچی کی وڈیو وائرل ہوئی ہے، اتنے لائکس ملے ہیں اور اتنے لاکھ افراد نے دیکھی ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہیں احساس دلانے کے لیے کوئی بتائے کہ تمہاری پُشت پر درخت اُگ آیا ہے تو فخر سے جواب دیں گے کہ چھاؤں میں بیٹھیں گے! تمہیں کیا؟ حالی نے ہمارے جس تنزّل پر ڈیڑھ سو سال پہلے سینہ کوبی کی تھی آج ہمارا ذوق اس سے بھی بد تر ہے، اتنا بد تر کہ پاتال سے بھی نیچے ہیں؎
ہماری ہر اک بات میں سفلہ پن ہے
کمینوں سے بد تر ہمارا چلن ہے
لگا نامِ آبا کو ہم سے گہن ہے
ہمارا قدم ننگِ اہلِ وطن ہے
کھائی میں لڑھکنے کے اس بے برکت سفر میں الیکٹرانک میڈیا کے ایک حصے نے بھی اپنا پورا حصہ ڈالا ہے۔ جو چینل صرف ڈراموں کے لیے مخصوص ہیں یا ان کے کچھ حصے، انہوں نے عوام کو بے حس کر دیا ہے۔ اب ڈراموں کی اکثریت ایسی کہانیوں پر مشتمل ہے جن میں مقدس رشتوں کو تار تار کیا جا رہا ہے اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ ان با غیرت لکھاریوں، ڈائریکٹروں، پروڈیوسروں اور اداکاروں و اداکاراؤں نے سسر کے باعزت رشتے کو چھوڑا نہ بہنوئی کے اور نہ ہی بھابی (بھرجائی) کے مقام کو۔ یہ تو وہ معاشرہ تھا جس میں بڑا بہنوئی باپ اور چھوٹا بہنوئی بھائی کی طرح ہوتا تھا۔ جہاں بھابی ماں کے قائم مقام تھی۔ مگر شرم و حیا جس طرح منہ چھپائے کونوں کھدروں میں چھپے ہیں، ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ محبت کے قیمتی لفظ کو جس طرح رگیدا جا رہا ہے ہماری ہزاروں سال کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ ڈرامے کے ہر تیسرے ڈائیلاگ میں محبت! اٹھتے بیٹھتے محبت کا ذکر! محبت۔ محبت۔ محبت۔ ہر ڈرامے میں وہی کہانی ہے۔ معاشقہ، شادی، شادی کے بعد کسی مقدس رشتے پر بے حیا شب خون! پھر طلاق۔ طلاق کے بعد پھر میل جول، یہاں تک کہ کچھ ڈراموں میں ایک ہی چھت کے نیچے رہنا دکھایا جا رہا ہے۔ ان ڈراموں میں کوئی معلوماتی کہانی ہے نہ کوئی ایڈونچر! کسی کہانی میں کوئی بے آسرا لڑکا محنت سے ترقی کرتے نہیں دکھایا جاتا۔ کسی ادیب، کسی سائنس دان، کسی قومی لیڈر کی زندگی پر کوئی ڈرامہ نہیں۔ ارطغرل بنانے والوں کے بھی دو ہی ہاتھ ہیں اور ایک ہی دماغ ہے۔ کیا ہم نے سلاطین دہلی یا کسی اور حکمران پر ڈرامہ بنایا ہے؟ شیر شاہ سوری جیسا حکمران ہمیں دوبارہ نہیں ملا اور دنیا اس پر رشک کرتی ہے مگر کسی نوجوان سے پوچھ کر دیکھ لیجیے اس کا زمانہ تک نہ معلوم ہو گا۔ اور تو اور ہم قائد اعظم، اقبال، لیاقت علی خان‘ سر سید احمد خان، علی برادران، یہاں تک کہ کسی ہیرو پر بھی ڈرامہ نہ بنا سکے۔ غالب پر جو ڈرامہ بنا اور جو مقبولیت کی حدیں کراس کر گیا وہ بھی بھارت میں بنا اور اس کا سکرپٹ گلزار صاحب کا لکھا ہوا ہے۔ عبداللہ حسین کا ناول اداس نسلیں، قرۃ العین کا آگ کا دریا۔ ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ہمارے ادب کے شہکار ہیں مگر ان پر کوئی ڈرامہ ہے نہ فلم!
پھر یہ جو کروڑ پتی بنانے والے پروگرام ہیں جن میں ایک جوسر یا ایک موٹر سائیکل کی خاطر اچھے بھلے با عزت مرد اور عورتیں تضحیک کا سامان بنتی ہیں، اور اوچھے اور نا قابل بیان مقابلوں میں حصہ لیتی ہیں‘ اس سے سر شرم سے جُھک جاتا ہے۔ انعامات تو طارق عزیز کے نیلام گھر میں بھی بانٹے جاتے تھے مگر ان پروگراموں میں ادب، تاریخ، تربیت بہت کچھ تھا۔ بیت بازی کے مقابلے ہوتے تھے، خود طارق عزیز کو ہزاروں معیاری اشعار ازبر تھے۔ ان کی زبان ادبی تھی۔ اب جو نوجوان اس قسم کے پروگرام کر رہے ہیں، ادب و علم سے مکمل بے بہرہ ہیں۔ ماہانہ لاکھوں کما رہے ہیں، اور اپنے آپ کو نام نہاد شہرت کے آسمان پر پاتے ہیں مگر بیچاروں کو یہ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ آسمان نہیں، اسفل السافلین کا گڑھا ہے۔