''سات اکتوبر کی شام چند مرکزی وزیر قصر صدارت میں جمع تھے اور وہسکی کے ساتھ شغل فرما رہے تھے۔ صدر سکندر مرزا ان کا ساتھ بھی دے رہے تھے اور بار بار گھڑی کی جانب بھی دیکھ رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ تھوڑی دیر میں فوجی دستے اپنے اپنے مقام سنبھالنے کے لیے روانہ ہونے والے ہیں۔ خدا خدا کر کے مہمان آٹھ بجے کے قریب رخصت ہوئے۔ ساڑھے آٹھ بجے کے قریب فوجی دستوں کا مارچ شروع ہوا اور ایک گھنٹے کے اندر انہوں نے اپنے اپنے مقررہ مقام سنبھال لیے۔ بارہ بجے شب سے تھوڑی دیر بعد صدر سکندر مرزا کی جانب سے آئین کی منسوخی‘ مارشل لا کے نفاذ اور مارشل لا کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے جنرل ایوب خان کے تقرر کا اعلان ہو گیا اور وزارتیں اور اسمبلیاں حرف غلط کی طرح مٹ گئیں‘‘ ( کتاب: مارشل لا سے مارشل تک‘ مرتبہ: سید نور احمد)
میر جعفر نے پلاسی کے میدان میں غداری کی اور بر صغیر پر انگریزوں کو مسلط کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اسی کی ذریت سے یہ سکندر مرزا تھا جس نے 1857 کی ناکام جنگ آزادی کے سو سال بعد 1956-57-58 میں اس ملک کو ایک نئے عذاب سے دوچار کیا اور جمہوریت کے عدم استحکام اور پہلے مارشل لا کے نفاذ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ میر جعفر کو بنگال کا حکمران بننے کا لالچ تھا۔ اسی لالچ میں اس نے ہندوستان پلیٹ میں رکھ کر انگریزوں کو پیش کر دیا۔ یہ لالچ اس خاندان کے اندر سے کبھی نہ نکلا۔
سکندر مرزا 1899 میں بنگال میں پیدا ہوا۔ خاندان استعماری حکومت کا پسندیدہ تھا اور مراعات یافتہ! انگریز اپنے محسنوں کا خوب خیال رکھتے تھے۔ اپنے وفادار خانوادوں کی اولاد کے لیے انہوں نے مخصوص تعلیمی ادارے بنائے تھے‘ جیسے میو کالج اجمیراور راج کوٹ کالج کاٹھیاواڑ ۔ بر صغیر کے دیگر علاقوں میں بھی ایسے ہی ادارے بنائے گئے۔ کچھ میں تو ہوسٹل کے بجائے نوابوں اور مہاراجوں کے صاحب زادوں کے لیے کوٹھیاں بنائی گئیں جہاں ان کے خدام‘ گھوڑے اور ہاتھی بھی رہ سکتے تھے۔ لاہور کے ایچی سن کالج کا اصل نام چیفس کالج تھا یعنی پنجاب کے حکمران خانوادوں کے لیے! ان اداروں کا مقصد عوام کی فلاح تھی نہ تعلیم کا پھیلاؤ۔ مقصد تھا اپنے وفادار خاندانوں کی دیکھ بھال اور ان کی ذریت کو خوئے غلامی میں پختہ تر کرنا! سکندر مرزا نے بھی بمبئی کے ایک ایسے ہی کالج میں تعلیم پائی۔ پھر اسے انڈین برطانوی فوج میں کمیشن دیا گیا۔ (آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ کمیشن میرٹ پر دیا گیا تھا؟) سکندر مرزا اپنے آقاؤں کی گُڈ بُکس میں رہنے کی بدولت ترقی کے مدارج طے کرتا رہا یہاں تک کہ وزارت دفاع دہلی میں جوائنٹ سیکرٹری تعینات ہو گیا۔
ہندوستان تقسیم ہوا تو مرزا پاکستان کے حصے میں آیا۔ اسے وزارت دفاع کا سیکرٹری لگایا گیا جہاں اس نے پاکستانی فوج میں اپنی پی آر کا ڈول ڈالا۔ بیوروکریسی کے گھنے جنگل میں یہ شاطر راستہ بناتا‘ 1954 میں مشرقی پاکستان کا گورنر لگ گیا۔ جاتے ہی مولانا بھاشانی کو گولی مارنے کی دھمکی دی۔ صوبائی اسمبلی برطرف کر کے مارشل لا لگا دیا۔ سیاسی ورکروں اور سیاست دانوں کر گرفتار کرانا شروع کر دیا یہاں تک کہ گرفتار شدگان کی تعداد ایک ہزار سے بھی بڑھ گئی‘ جن میں شیخ مجیب‘ اسمبلی کے ارکان اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر بھی شامل تھے۔ میر جعفر کے اس سپوت نے نفرت کے بیج بونے کی وہاں پوری پوری کوشش کی۔ پھر واپس بلا لیا گیا۔ اس ملک کی بد بختی دیکھیے کہ وزیر داخلہ بنا دیا گیا اور پھر پاکستان کا صدر! آئین کی رُو سے صدر صرف رسمی (ceremonial) سربراہِ ریاست تھا اور ایگزیکٹو طاقت وزیر اعظم کے پاس تھی‘ مگر مرزا نے حکومت میں مداخلت شروع کر دی اور ریشہ دوانیاں‘ سازشیں اور غیر آئینی اقدامات! ناکام جنگ آزادی کے پورے سو سال بعد 1957 میں صدر سکندر مرزا نے وزیر اعظم سہروردی کو اتنا زچ کیا اور آئے دن کی مداخلت سے کارِ سرکار میں اس قدر رخنے ڈالے کہ سہروردی نے اکتوبر میں استعفا دے دیا۔
اب وزارت عظمیٰ کا ہما آئی آئی چندریگر کے سر پر بیٹھا‘ مگر صدر مرزا نے دو ماہ کے بعد ان سے بھی استعفا لے لیا۔ پھر فیروز خان نون وزیر اعظم بنے۔ انہوں نے گوادر کو سلطنت عمان سے خریدا اور پاکستان میں شامل کیا۔ سکندر مرزا پارلیمانی جمہوریت کی قدروں سے عاری تھا‘ جب ایک اور ٹرم صدارت کی نا ممکن نظر آئی تو آئین منسوخ کر کے اسمبلیاں برطرف کر دیں اور مارشل لگا کر جنرل ایوب خان کو اپنے ساتھ شریک اقتدار کر لیا۔ مرزا کا یہ اقدام سو فی صد ذاتی غرض کے لیے تھا کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں اور پارلیمانی گروپوں میں مکمل ہم آہنگی تھی اور وہ سکندر مرزا کی صدارت جاری رکھنے کے حق میں نہیں تھے۔ ایوب خان نے مرزا کے ساتھ کیا سلوک کیا اور مرزا کا انجام کیا ہوا‘ یہ اس کالم کے سکوپ سے باہر ہے۔
سکندر مرزا نے پہلا مارشل لا لگا کر اس ملک کو جو زخم دیا وہ آج تک رِس رہا ہے۔ اس مکروہ اور ظالمانہ اقدام نے پاکستان کو قوموں کی قطار میں سب سے پیچھے لا کھڑا کیا۔ عسکری حوالے سے اس نے ایک ایسی روایت قائم کی جس نے آگے چل کر ملک کے لیے بہت مسائل پیدا کیے۔ اس کے بعد ہماری تاریخ نے کم از کم تین مزید مارشل لا دیکھے۔ جن میں سے دو ایک ایک دہائی تک جاری رہے۔ ایوب خان کے دور اقتدار کے اقدامات کا سب سے بڑا اور سب سے بُرا نتیجہ جو ہم نے بھگتا وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی تھی۔
یہ کالم نگار جب ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا اس وقت ایوب خان کی ڈکٹیٹرشپ کو پورا عشرہ گزر چکا تھا۔ بنگالی دوستوں کے اس سوال کا کوئی جواب ممکن نہ تھا کہ اگر دس دس سال تک ایک آمر حکومت کرے گا تو کسی مشرقی پاکستانی کی باری کب آئے گی جب کہ کوئی بنگالی اس رینک تک پہنچ بھی نہیں رہا تھا؟ ایوب خان نے عبدالمنعم جیسے اوسط سے کم ذہانت والے خوشامدی کو وہاں کا گورنر بنایا تاکہ وہ 'جی ہاں جی ہاں‘ کہتا رہے۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو غدار کہا گیا۔ الیکشن میں وہ ایوب خان کے مقابلے میں مشرقی پاکستان اور کراچی میں جیت گئی تھیں۔ اس کی پاداش میں کراچی میں لسانی فسادات کا آغاز کیا گیا۔ یہ بیج تھا جو بویا گیا اور پھر جب یہ درخت بنا تو اس کا کڑوا پھل پورے ملک کو کھانا پڑا۔
جمہوریت اور جدید نظام حکومت کے حوالے سے ہم بدستور قطار میں سب سے پیچھے ہیں اور معاشی طور پر عالمی اداروں کی بد ترین غلامی میں گرفتار! ہم آج بھی پلاسی کے‘ ناکام جنگ آزادی کے اور سکندر مرزا کے مسلط کردہ پہلے مارشل لا کے نتائج بھگت رہے ہیں اور نہ جانے کب تک بھگتتے رہیں گے۔کون جانے 2057 میں کیا ہو گا؟ ہم میں سے بہت سے لوگ اس وقت نہیں ہوں گے۔ کیا عجب اس بار کوئی مصیبت نہ ٹوٹے!
ہمارے دور میں ڈالیں خرد نے الجھنیں لاکھوں
جنوں کی مشکلیں جب ہوں گی آساں‘ ہم نہیں ہوں گے