پھر یوں ہوا کہ جو بھی ضروری کام ہوتا‘ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچتا۔
لڑکی والوں سے بات چیت کر کے تاریخ طے کی۔ شادی ہال بُک کرا لیا۔ رقم کی ادائیگی کرنے لگا تو شادی ہال کا منیجر کہنے لگا کہ ابھی رقم نہیں لے سکتے۔ یہ کچھ دن بعد‘ او کے ہو گا۔ ہم آپ کو بلا کر معاملات فائنل کر لیں گے۔ مینیو دیا تو اس کے بارے میں بھی یہی کہا گیا کہ بعد میں منظوری دیں گے۔
مکان تعمیر کرنا تھا۔ نقشہ بنوایا۔ بورڈ کے دفتر میں منظوری کے لیے جمع کرایا تو بتایا گیا کہ چھ ماہ لگیں گے۔ پوچھا: چھ ماہ کیوں ؟ چیف انجینئر‘ جس نے حتمی منظور ی دینی ہے‘ ساتھ والے کمرے میں بیٹھتا ہے۔ کلرک کے چہرے پر ایک عجیب اداسی سی چھا گئی۔ میں باہر نکل آیا۔
گاڑی خریدنی تھی۔ شو روم گیا۔ ایک اوسط درجے کی گاڑی اچھی لگی۔ استطاعت کے اندر بھی تھی۔ ساری رقم اسی وقت کیش میں ادا کی۔ چابی مانگی تو سیلزمین کہنے لگا ''صاحب! ابھی تشریف لے جائیے۔ منظوری آنے پر گاڑی آپ کے گھر پہنچا دیں گے‘‘۔ میں حیران ہوا۔ پھر خیال آیا کہ کمپنی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہے۔یہ ہر فروخت کی اطلاع کراچی دیتے ہوں گے۔ اسی میں کچھ وقت لگتا ہو گا۔
نواسی کو گیارہویں جماعت میں داخل کرانے کالج لے کر گیا۔ مضامین کچھ لازمی تھے تو کچھ اختیاری! بچی نے اپنی سوچ کے مطابق چُنے۔ داخلہ فیس پوچھی تو کالج کا ہیڈ کلرک بولا کہ فیس اس مرحلے پر نہیں لے سکتے۔ بچی نے جو مضامین چُنے ہیں ان کی منظوری لینا ہو گی۔ مجھے عجیب لگا۔ یہ وزیر تعلیم عجیب ہیں کہ گیارہویں جماعت کی طالبہ کے مضامین کی منظوری پرنسپل صاحب کے بجائے خود دیں گے۔
یہ تینوں واقعات تین دن میں رونما ہوئے۔میں سمجھا اتفاق ہے مگر اس کے بعد جو ہونے لگا‘ ناقابلِ یقین تھا۔ہماری آبادی کے پاس جو بڑی شاہراہ تھی‘ اس کی تعمیرِ نو اور توسیع کے لیے حکومت نے فنڈز دے دیے تھے۔ ٹینڈ ر وغیرہ کے مراحل طے ہو گئے تھے مگر کام تھا کہ شروع ہی نہیں ہو رہا تھا۔ایک دن ہم چند شرفا ترقیاتی ادارے گئے اور افسرِ اعلیٰ سے ملے۔ بہت خوش اخلاقی سے پیش آیا۔پوچھا‘ جب تمام مراحل طے ہو چکے تو کام شروع کرنے میں کیا اور کیسی تاخیر ہے ؟ اس کے چہرے پر ایک کرب پھیل گیا۔ کہنے لگا: تاخیر کی وجہ اس وقت نہیں بتا سکتے۔ آپ حضرات پریشان نہ ہوں۔ چھ ماہ لگیں گے! زیادہ سے زیادہ! اس کے بعد امید ہے کہ کام کا آغاز ہو جائے گا۔
سی ایس ایس کے امتحان کا فائنل نتیجہ نکلا۔ بچوں اور بچیوں کی محنت رنگ لائی۔ سول سروس کے گروپ الاٹ کر دیے گئے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ سول سروس اکیڈیمی میں فوراً تربیت شروع ہو جاتی تھی مگر اب کے ایسا نہ ہوا۔ نوخیز افسر انتظار کرتے رہے۔سی ایس ایس کا اگلا امتحان شروع ہو گیا۔کسی کو اس غیر معمولی تاخیر کی وجہ بھی نہیں معلوم ہو رہی تھی۔ خدا خدا کر کے ٹریننگ شروع ہوئی مگر کچھ نامعلوم اور پُراسرار وجوہ کی بنا پر چند نئے افسروں کے نام فائنل فہرست سے غائب تھے۔ کیوں ؟ کوئی کچھ نہیں بتا رہا تھا۔
ہر معاملے میں ایک پُر اسرار تاخیر ہوتی گئی۔ وفاقی بجٹ کئی ماہ کی تاخیر سے پیش ہوا۔ صوبائی بجٹ دیر سے آئے۔ پھر احکام موصول ہوئے کہ لڑکے یا لڑکی کی شادی طے ہو تو دونوں کے نام اور خاندانوں کے کوائف اوپر بھیجے جائیں۔ منظوری آنے تک شادی نہیں ہو سکے گی۔ پھر نوبت محلوں تک آگئی۔ گلیوں کی مرمت‘ چھوٹی چھوٹی مارکیٹوں کی تعمیر‘ پانی کے نلوں کی تنصیب‘ بجلی اور گیس کے کنکشن‘ ایک ایک معاملہ اوپر بھیجا جانے لگا۔
پھر نوبت تقرریوں‘ تعیناتیوں‘ ترقیوں اور تبادلوں تک آگئی۔ اے سی اور ڈی سی کے تبادلوں میں غیر معمولی تاخیر ہونے لگی۔ تحصیلدار‘ سیکشن افسر‘ مجسٹریٹ‘ ڈپٹی سیکرٹری‘ ڈائریکٹر‘ لیکچرر‘ پروفیسر‘ سب کی ترقیوں کے معاملات فائنل ہو کر بھی تاخیر کا شکار ہونے لگے۔ پھر ایک ایک گاؤں میں ایک ایک کسان کو ہدایات دی جانے لگیں کہ اب کے تم نے فلاں اناج بونا ہے اور فلاں نہیں بونا۔اتنے رقبے میں فلاں نسل کی گندم اور اتنے رقبے میں فلاں قسم کی کپاس اگانی ہے۔ اب کے گنا نہیں اگانا۔گنا اور گندم خاص طور پر نشانہ بنے۔سراسیمگی‘ پریشانی اور پُراسراریت نے اضطراب پیدا کیا۔ بے چینی بڑھنے لگی۔ عوام سڑکوں پر آگئے۔ کسی کو معلوم نہیں ہورہا تھا کہ ہر معاملے میں یہ فائنل منظوری کہاں سے آتی ہے؟ کون دے رہا ہے ؟ شہر شہر جلوس نکلنے لگے۔راستے بند ہونے لگے۔ لوگوں نے سینہ کوبی شروع کر دی۔ عورتوں نے بال کھول لیے۔ مردوں نے کمر کے ساتھ پٹکے باندھ لیے۔ کیا عام لوگ‘ کیا سرکاری اہلکار سب آکر شاہراہوں پر بیٹھ گئے۔جب کئی ہفتے ملک کا نظام تعطل کا شکار رہا‘ معیشت کو اربوں کھربوں کی ٹھوکر لگ چکی تو ٹیلی وژن پر اعلان ہوا کہ سرکاری ترجمان عوام کو اعتماد میں لے گا۔ پوری قوم ٹی وی سکرینوں سے چپک کر بیٹھ گئی۔ ترجمان نے بات یوں شروع کی کہ حوصلے سے سنو اور حکومت اور حکمرانوں کی مجبوریاں سمجھنے کی کوشش کرو۔ پھر ترجمان نے بتا یا کہ قرضے بہت زیادہ ہو گئے تھے۔ دیوالیہ ہونے کی نوبت آگئی تھی۔ اس صورتحال سے بچنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط من و عن مان لیں؛ چنانچہ ماننا پڑیں۔ اب وہی سپریم اتھارٹی ہے۔ جس کام کی بھی منظوری حکومت دیتی ہے‘ اسے آئی ایم ایف کے پاس بھیجنا ہوتا ہے۔ اگر وہ منظور کر لے تو ٹھیک‘ ورنہ حکومت کی منظوری کالعدم ہو جاتی ہے۔ سارے معاملات‘ جیسے سی ایس ایس کی تعیناتیاں‘ سرکاری ملازموں کی ترقیاں اور تبادلے‘ شاہراہوں اور پلوں کی تعمیر‘ لڑکوں لڑکیوں کے رشتے‘ شادی ہالوں کی بکنگ‘ مینیو کا انتخاب‘ کالجوں یونیورسٹیوں میں طلبہ و طالبات کے مضامین‘ کون سا شہری کون سی گاڑی خریدے گا‘ یہ اور دیگر تمام معاملات اب آئی ایم ایف طے کرے گا؛ چنانچہ تاخیر‘ ہر معاملے میں لازماً ہو گی۔
عوام نے یہ وضاحت سنی۔ دل مسوس کر رہ گئے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ قہرِ درویش بر جانِ درویش! مگر لوگوں نے یہ تجویز حکومت کو دی کہ اگر کنٹرول اس عالمی ادارے ہی نے کرنا ہے تو پھر ہر فائل سمندر پار اس کے ہیڈ آفس میں بھیجنے کے بجائے‘ اس کے با اختیار نمائندوں کو یہیں ملک کے اندر بلا لیجیے۔ یہ تجویز منظور ہو گئی۔ اب اس استعماری ادارے کے نمائندے وفاق اور صوبوں کی وزارتوں میں بیٹھ گئے۔ اس سے بھی کام نہ چلا تو ہر شہر‘ ہر قصبے ہر گاؤں اور ہر محلے میں تعینات ہو گئے۔ یوں لوگوں کے کام ہونے لگے۔ بیٹے یا بیٹی کا رشتہ طے کرتے تو محلے میں تعینات اس ادارے کا نمائندہ اسی دن منظوری دے دیتا۔ کسی نے اپنے گھر میں ایک کمرہ اضافی تعمیر کرنا ہے تو اس کی اجازت بھی لی جاتی۔ پھر آئی ایم ایف کے نمائندے قبرستانوں میں بھی بیٹھ گئے۔ جنازہ کون پڑھائے گا‘ قبر کہاں بنے گی‘ دعائیں کون کون سی کی جائیں گی‘ پھول کون کون سے چڑھائے جائیں گے‘ کون کتنا روئے گا؟ یہ سب پہلے سے طے ہوتا۔ اب عوام مطمئن تھے کہ خود مختاری کو گولی مارو‘ کام تو ہو رہے تھے!