ہمارا زرعی فارم

بہت خواہش تھی کہ ہمارا بھی ایک زرعی فارم ہو۔
جب دیکھتے تھے کہ ہمی جیسے کئی افراد بڑے بڑے فارموں کے مالک ہیں‘ پھل اور اناج اگاتے ہیں‘ پھر فروخت کر کے روپیہ کماتے ہیں‘ جانور پالتے ہیں‘ پرندے رکھتے ہیں‘اور فارم کے اندر ہی بڑی بڑی رہائشگاہیں بنا کر مزے سے رہتے ہیں تو سچی بات ہے‘ رشک آتا تھا؛ چنانچہ ہم نے ایک بڑا سا قطعۂ زمین حاصل کیا۔یہ بنجر تھا۔ اس میں ہل چلایا۔ پتھر اور چٹانیں ہٹائیں۔ زمین کے نیچے سے پانی نکالا۔ نہریں کھودیں۔ پودے اور گھاس لگائی۔ ثمر دار درخت لگائے۔ اناج کی فصل اگائی۔ مویشی لا کر رکھے۔ ان مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھے۔ پھر خوبصورت پرندے اور دلکش جانور منگوائے۔مور‘ تیتر‘ آسٹریلین طوطے‘ ہرن اور نہ جانے کیا کیا! دور و نزدیک سے بچے آتے۔ پرندوں اور جانوروں کو دیکھ کر خوش ہوتے۔ ہم نے ملازموں کو ہدایت دے رکھی تھی کہ بچوں سے پیار کیا جائے اور ان کے خور و نوش کا بندو بست کیا جائے۔ چند ہی برسوں میں ہمارے فارم نے خوب ترقی کی۔ گندم کی پیداوار ہر سال بڑھنے لگی۔ کھا کر اور احباب کو پیش کرنے کے بعد بھی منڈی میں فروخت کرنے کے لیے پھل وافر بچتے۔
اڑوس پڑوس کے زرعی فارموں کے مالکان سے ہمارے بہت اچھے روابط تھے۔ سوشل لائف خوب تھی۔ ہم لوگ ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے۔ ایک دوسرے کی تقاریب میں شرکت کرتے۔ ایک دوسرے کے کام آتے۔ تمام خاندان باہم محبت سے رہ رہے تھے۔ یہ ایک پُر امن کمیونٹی تھی۔ اس میں کسی قسم کی تلخی یا بدمزگی کا گزر نہ تھا۔ اعتماد کی فضا تھی۔ امن و امان تھا۔ چوری ڈاکے کا نام و نشان نہ تھا۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ کسی فارم کی پیداوار بہت زیادہ ہوئی تو کسی نے حسد کیا ہو۔ حسد تو دور کی بات ہے یہا ں تو پیداوار بڑھانے کی ترکیبیں اور نسخے آپس میں شیئر کیے جاتے۔ افسوس کا موقع ہو یا مسرت کا‘ سب اکٹھے ہوتے۔ دُکھ بھی سانجھے تھے اور سکھ بھی۔
ایک دن ایک صاحب تشریف لائے۔ ہمارے ایک دوست نے ان کے بارے میں فون کر کے بتایا کہ بہت اچھے انسان ہیں۔ جہاندیدہ اور تجربہ کار! ہمارا فارم دیکھنا چاہتے تھے۔ دوست کی فرمائش تھی کہ انہیں اپنے فارم کی سیر کرا دیجیے۔ چونکہ ہمارے دوست کا حوالہ تھا‘ ہم نے صاحب کی پذیرائی کی۔ چائے پلائی‘کھانا کھلایا۔ سادہ سے انسان لگتے تھے۔ سوتی تہمد۔ کھدر کا کرتا‘ سر پر صافہ‘ پاؤں میں پرانی وضع کی دیسی جوتی! ایک ہاتھ میں عصا‘ دوسرے میں تسبیح۔ بات چیت ہوئی تو واقعی جہاندیدہ اور گرم و سرد چشیدہ نکلے۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا تھا۔ دلچسپ گفتگو کرتے۔ایسے ایسے واقعات سناتے کہ سننے والا ہمہ تن گوش رہتا۔ رخصت ہونے لگے تو ہم نے ایک بوری گندم اور کچھ پھل پیش کیے مگر انہوں نے شکریہ ادا کرنے کے بعد قبول کرنے سے معذرت کر لی۔ کہنے لگے: بیٹا کچھ نہیں چاہیے‘ بس تم برا نہ مانو تو کبھی کبھی چکر لگا لیا کروں! ہم نے کہا: جناب ضرور! جب بھی تشریف لائیں گے ہمیں خوشی ہو گی۔ صاحب مہینے میں ایک دوبار آتے۔ خوب مجلس آرائی ہوتی۔ ہمارے گھر والے بھی ان کی باتوں سے لطف اندوز ہوتے۔ منیجر اور ملازمین بھی ان سے کافی مانوس ہو گئے تھے۔ بچوں سے بھی بے تکلفی ہو چکی تھی۔
ایک دن تشریف لائے تو خلاف معمول زیادہ دیر ٹھہرے۔ عام طور پر دواڑھائی گھنٹے فارم میں رہتے مگر جس دن کی ہم بات کر رہے ہیں اُس دن صبح سے شام تک رہے۔ہماری ایک عرصہ سے عادت ہے کہ دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کرتے ہیں۔پھر اُٹھ کر چائے پیتے ہیں۔ ہم پسند کرتے ہیں کہ چائے کا یہ کپ اکیلے میں نوش کریں مگر اس دن صاحب کو بھی شریک کرنا پڑا کیونکہ ابھی تک وہ گئے نہیں تھے۔ یہی وقت تھا جب ہمارے اور ان کے علاوہ کوئی اور موجود نہ تھا۔ کہنے لگے : ایک بات کرنی ہے آپ سے! ہم نے کہا: فرمائیے! کہنے لگے کہ آپ کے فارم کے عقب میں کن صاحب کا فارم ہے؟ ہم نے بتایا کہ ہمارے دوست ہیں خانزادہ صاحب ! بہت اچھے انسان ہیں۔ ان کی بیگم کا ہمارے گھر والوں سے بہت ملنا جلنا ہے! سن کر صاحب خاموش رہے مگر بدن بولی بتا رہی تھی کہ ان کی بات ختم نہیں ہوئی۔ہم نے پوچھا کہ آپ نے یہ استفسار کس سبب سے کیا ؟ قدرے تامّل سے گویا ہوئے کہ خان زادہ صاحب کے فارم میں مرغیوں کے ڈربے پیلے زعفرانی رنگ کے ہیں۔ یہ رنگ بہت خطرناک ہے۔ جہاں اس رنگ کی کوئی عمارت یا ڈربہ یا کوئی اور چیز ہو وہ ارد گر د کے ماحول کے لیے سخت مضر ہوتی ہے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے۔ صاحب سے اب اتنا گہرا تعلق تھا کہ ان کی بات پر شک کرنے کا کوئی امکان ہی نہ تھا۔ اُسی وقت یاد آیا کہ کچھ دن پہلے خانزادہ صاحب ہمیں بہت عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں ہمیں یقین ہو چکا تھا کہ خانزادہ اچھا آدمی نہیں۔ اس کا یہاں رہنا سب کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم نے صاحب سے اس مسئلے کا حل پوچھا۔ کہنے لگے: براہِ راست بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس تم اپنے فارم میں کچھ سانپ پال لو۔انہیں خوب دودھ وغیرہ پلاؤ۔ جب موٹے تازے ہو جائیں تو رات کی تاریکی میں ان کے فارم میں چھوڑ دو۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ سانپوں نے خانزادہ کے فارم پر خوب تباہی مچائی۔ بچے بھی دیے۔ کچھ ہی عرصہ میں خانزادہ صاحب فارم چھوڑ کر چلے گئے۔ پتا نہیں کہاں گئے۔ فارم سانپوں کی وجہ سے بدنام ہو چکا تھا۔ وہاں جنگل بن گیا۔ پھر صاحب نے ہمیں دائیں طرف والے فارم کے بارے میں بتایا کہ ان لوگوں کے مویشیوں والے بڑے کمرے کا دروازہ مشرق کے رخ کھلتا ہے اور یہ بات سخت بے برکتی اور متعدد خطرات کا باعث بن سکتی ہے۔ ان کو بھگانے کے لیے صاحب نے مشورہ دیا کہ بھیڑیے کے بچے پالے جائیں۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ جب بچے بڑے ہو کر باقاعد خونخوار بن چکے تو ایک رات دائیں طرف والے فارم میں پہنچا دیے۔ صبح تک بھیڑیے ان کی مرغیوں اور بکریوں کو ہڑپ کر چکے تھے۔ چونکہ سانپوں اور بھیڑیوں کی پرورش ہمارے فارم میں ہوئی تھی اس لیے یہ اسے اپنا گھر سمجھتے تھے۔ اور آکر کئی کئی دن یہیں رہتے تھے۔
آہستہ آہستہ تمام فارموں والے فارم چھوڑ کر چلے گئے۔ ارد گرد کی جگہ ایک بے آباد خرابے میں تبدیل ہو گئی۔ ایک دن ملازم نے بتایا کہ بھیڑیے ر ات کو ہمارے ہی بچھڑے کھا گئے۔ کچھ دن بعد رپورٹ ملی کہ سانپوں نے ہمارے ہی دو ملازموں کو ڈس لیا ہے۔ دونوں جانبر نہ ہو سکے۔ یہ بیچارے وہی تھے جو ہمارے حکم سے ان سانپوں کو دودھ پلاتے رہے تھے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ فارم پر سانپوں اور بھیڑیوں کا قبضہ ہے۔ اس اثنا میں ناگنوں نے بیشمار انڈے دیے ہیں جن سے بچے نکلے ہیں۔ بھیڑیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ ہمارا فارم مکمل طور پر ان کی ملکیت میں آچکا ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی جانور غائب ہوتا ہے۔ ہرن اور مور ہڑپ کیے جا چکے ہیں۔ فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ خوبصورت رنگین پرندے ہجرت کر گئے ہیں‘ کاش! ہم دوسروں کے لیے یہ سانپ اور بھیڑیے نہ پالتے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں