یہ ایک اور ہی دنیا تھی۔ بالکل الگ۔بالکل مختلف!
سرِشام سرگرمیاں شروع ہو جاتیں۔ادھر ہانڈی کے لیے مسالا الگ کُوٹا جا رہا ہوتا۔پیکٹوں میں بند مسالے بازار سے لانے کا تب کوئی تصور تھانہ بازار میں ہوتے تھے۔آج تو اچاری چکن سے لے کر نہاری تک ہر سالن کے مسالے الگ الگ بِک رہے ہیں۔ تب ہلدی‘ سرخ مرچ‘ نمک‘کا ملغوبہ روز کا روز تیار کیا جاتا۔ نمک اُن دنوں چٹانوں کی صورت گھر وں میں لایا جاتا تھا۔توڑ کر‘ پیسا جاتا۔ دوسری طرف‘ صحن میں‘ لالٹینوں کے شیشے صاف ہو رہے ہوتے۔ ہر لالٹین میں تیل چیک کیا جاتا۔ صحن میں پانی چھڑکا جاتا۔ کمروں کے اندر سے چارپائیاں لاکر رکھی جاتیں۔ ان پر دریاں یا چادریں بچھائی جاتیں۔ تکیے رکھے جاتے۔ چھت پر سونا ہوتا تو وہاں چارپائیاں بچھتیں۔ ان پر مچھر دانیاں تانی جاتیں۔ مچھروں کو بھگانے کے لیے صحن کے ایک کونے میں گوبر سلگایا جاتا جس کا دھواں آنکھوں میں بھی پڑتا۔ رات کو آسمان پر تارے نظر آتے۔ کہکشاں دکھائی دیتی۔ دُبِّ اکبر ( سات ستاروں کے جھرمٹ ) کا نظارہ کیا جاتا۔ ٹھنڈی ہوا چل پڑتی تو وارے نیارے ہو جاتے۔
آج کے بچوں کی قسمت دیکھیے۔ آسمان‘ رات کو تو کیا‘ دن کو بھی کبھی نہیں دیکھا۔ کمروں میں پیدا ہوتے ہیں۔ کمروں ہی میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ پنکھے اور ایئر کنڈیشنر کے ساتھ گرمیاں اور ہیٹر کے ساتھ سردیاں گزرتی ہیں۔ گرمیوں میں پیڑوں کی چھاؤں نصیب میں ہے نہ سردیوں میں سنہری میٹھی دھوپ ! وٹامین ڈی کی کمی مصنوعی گولیوں اور ٹیکوں سے پوری کی جاتی ہے۔ طرزِ تعمیر ایسا آیا کہ صحن غائب ہو گئے۔ جن کے مکان بڑے ہیں‘ انہوں نے صحن کو گھر سے باہر نکال کر اس کا نام لان رکھ دیا۔ کتنے ہی ہیں جن کو ہفتوں اس لان میں بیٹھنا تک نہیں نصیب ہوتا‘ سونا تو دور کی بات ہے۔ جن کے گھر چھوٹے ہیں وہ اس نام نہاد لان سے بھی محروم ہیں۔ پانچ یا سات مرلے کے مکان میں لان کہاں سے آئے گا۔ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے کی کیا۔جس تیزی سے دیہاتی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی (urbanisation) ہو رہی ہے‘ اس میں ہر کسی کو بڑا گھر مل بھی نہیں سکتا۔ گاؤں میں جن کے بڑے بڑے مکان تھے‘ اور کنال کنال کے صحن تھے‘ وہ شہر میں آکر گنجان گلیوں محلوں میں چھوٹا سا گھر بنا پاتے ہیں۔ جُوع الارض(land- hunger)نئی نئی صورتوں میں سامنے آرہی ہے۔ ایک زمانہ تھا وفاقی دارالحکومت میں سخت پابندی تھی کہ مکان کا کَوَرڈ ایریا ( یعنی جس پر چھت ہو) مکان کے کُل رقبے کا صرف ستر فیصد ہو گا۔ باقی لان ہو گا۔ اُس زمانے میں جو مکان بنے وہ اگر بارہ مرلے( 40x80)کے بھی تھے تو لان اچھا خاصا نکل آتا تھا۔ پھر قانون بدل گیا۔ اب نوّے فیصد ایریا پر چھت ڈالی جا رہی ہے۔ یوں پانچ سو گز والے گھر میں بھی نام نہاد لان سکڑ کر ماچس کی ڈبیا سے کچھ ہی بڑا رہ گیا ہے۔ اوپر سے معاشی دباؤ! تہہ خانے میں کرایہ دار‘ اوپر کی منزل پر بھی کرایہ دار۔ درمیان میں صاحبِ خانہ خود۔ گلیاں کوچے پارکنگ کی نذر ہو جاتے ہیں۔ گزرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے‘ مستقبل میں شاید شہروں میں چار چار منزلیں اور دو دو تہہ خانے بنانے پڑیں۔ ملک کے کچھ حصے ایسے ہیں جہاں اب بھی ایک کنبے میں اوسطاً دس دس‘ بارہ بارہ بچے پیدا ہو رہے ہیں۔کہتے تو ہم یہ ہیں کہ آبادی بائیس کروڑ ہے مگر پچیس سے کم کسی صورت نہیں۔ ہماری مردم شماری نقائص اور کمزوریوں سے اٹی ہوئی ہے۔ بہت سے علاقے ناقابلِ رسائی ہیں۔ رسم و رواج کے گنجلک مسائل الگ ہیں۔ خواتین کی تعداد بتانا پسند نہیں کیا جاتا۔ تعداد بتائی جائے تو غلط بتائی جاتی ہے۔ کچھ تو مرنے مارنے پر آجاتے ہیں۔ جو نکتہ ہم سمجھ نہیں پا رہے‘ یہ ہے کہ درست مردم شماری کا تعلق تعلیم سے ہے۔ ناخواندہ گھرانوں کی درست مردم شماری ناممکن نہیں تو ازحد مشکل ضرور ہے۔ مردم شماری کی ٹیموں کا کام آسان نہیں۔ بہت کم معاوضہ! اور دھکے بے شمار !
ایندھن اکٹھا کرنا ایک اور سرگرمی تھی۔ خاص طور پر سردیاں آنے سے پہلے۔ مغربی پنجاب کی سطح مرتفع کا رہن سہن وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب سے مختلف ہے۔ پہاڑیوں اور ٹیلوں سے اَٹا ہوا یہ علاقہ آج بھی ایک مشکل اور بامشقت طرزِ زندگی سے گزر رہا ہے۔ جب ملازم اور گاؤں کے دوسرے لوگ ایندھن اکٹھا کرنے ان پہاڑیوں اور ٹیلوں کا رُخ کرتے تو ہم بچے بھی ساتھ ہو لیتے۔ ہمارے لیے یہ ایک تفریح تھی۔ درخت کاٹے جاتے۔ خود رو جنگلی جھاڑیاں اکٹھی کی جاتیں۔ ساتھ ساتھ شکار بھی کھیلا جاتا۔ آج کل شکار بالائی طبقے کی عیاشی بن کر رہ گیا ہے مگر ہماری نسل جب بچپن اور لڑکپن سے گزر رہی تھی تو مغربی پنجاب میں شکار عام تھا۔ پھر کچھ خاص افراد نے ان علاقوں کو شکار کے نام پر خوب تاخت و تاراج کیا۔ ہرن تو ختم ہی کر ڈالے۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔
سردیوں کا اپنا رنگ تھا۔ آج کل تو شاید گاؤں کے بچے بھی اُس رنگ سے پوری طرح آشنا نہ ہوں۔ اب تو گلیاں بھی پکی ہو گئی ہیں اور صحن بھی۔ پانی کی ٹونٹیاں بھی ہیں‘ برقی روشنی بھی اور ٹیلی فون بھی۔ گاؤں میں بیٹھے ہوئے لڑکے لڑکیاں انٹرنیٹ تک بھی دسترس رکھتے ہیں۔ ہمارا تو یہ حال تھا کہ چھٹیاں گاؤں میں گزارتے تھے تو دنیا سے کٹے ہوئے۔ جو بھی شہر جا رہا ہوتا‘یا نزدیکی قصبے میں‘ تو ایک ہی فرمائش ہوتی تھی کہ انگریزی کا اخبار لیتے آئیں۔ اُس وقت ( کراچی کو چھوڑ کر ) ایک ہی انگریزی اخبار تھا‘پاکستان ٹائمز۔
سردیاں آتیں تو رسوئی سب کی پسندیدہ جگہ قرار پاتی۔ دھویں کے باوجود وہاں کی حرارت اچھی لگتی۔ وہیں چٹائی یا دری بچھا کر کھانا کھایا جاتا۔خوابگاہ میں دہکتے کوئلوں سے بھری انگیٹھی رکھی جاتی۔جب سب بستروں اور رضائیوں میں مقیم ہو جاتے تو لالٹین بجھا دی جاتی یا بہت مدہم کر دی جاتی۔ جن راتوں کو چاند عروج پر ہوتا‘ وہ راتیں غضب کی ہوتیں۔ آدھی رات کو اندھیرے کمرے سے باہر نکلتے تو صحن بقعۂ نور بنا ہوتا۔ دم بخود رہ جاتے۔ ہر طرف چاندنی رقص کر رہی ہوتی۔ ساتھ‘ زمین سے آسمان تک‘ ایک بسیط خامشی ہوتی۔درخت ساکن ہوتے۔میری چارپائی‘ عام طور پر‘ کھڑکی کے ساتھ ہوتی۔ جب بھی باہر نکلتا‘ شکیب جلالی کا یہ شعر ضرور یاد آتا ؎
خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں
کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں
تب حویلیاں آباد تھیں۔کمرے سامان سے بھرے ہوئے تھے۔ گندم سے بھری بوریاں فرش سے چھت تک تھیں۔مال مویشی تھے۔ گھوڑے تھے۔ کھیت کھلیان تھے۔ نئی فصل اترتی تو بھنگڑے ڈالے جاتے۔ پکوان پکتے۔شادیوں پر رقص ہوتے۔لڈیاں ڈالی جاتیں۔ اونٹوں پر سرخ کجاوے ہوتے جن میں مستورات کو بٹھایا جاتا۔ پھر دادا گئے۔ دادی رخصت ہوئیں۔ ننھیال والے گاؤں سے نانی نے رختِ سفر باندھا۔ پھر نانا اپنی عزیز ترین گھوڑی کو چھوڑ کر چل دیے۔ کچھ عرصہ بعد زمانے نے ایک اور صفحہ پلٹا۔ ماموں بھی گئے۔ والدین بھی داغِ مفارقت دے گئے۔زمانہ گیا اور زمانے والے بھی ! پنکھوں‘ ایئر کنڈیشنروں‘ ڈرائنگ روموں والے قید خانے رہ گئے۔ یا وہ زینیں جن پر بزرگ سواری کرتے تھے اور لڑکپن میں ہم بھی !