دھمکیاں یا نرم گفتاری؟

1‘عجلت سے کسی حال میں کام نہیں لینا چاہیے۔ اگر حکمران کوئی خبر سنے یا اسے کوئی دشواری پیش آئے تو تدبر اور نرمی اور سوجھ بوجھ سے کام لینا ضروری ہے۔ حکمران کو ایسا رویہ اختیار کرنا چاہیے کہ کسی فریق کو یہ معلوم نہ ہونے پائے کہ بادشاہ کا میلان اور رجحان کدھر کا ہے یعنی کس فریق کی طرف ہے۔ بُرا حکمران وہ ہوتا ہے جو معاملات میں عجلت برتتا ہے اور معاملات کی کوئی خاص پروا نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی شکایت لے کر آئے تو جب تک تمہیں اصل حقیقت کا علم نہ ہو جائے، کچھ مت کہو یعنی کسی نتیجے پر نہ پہنچو۔ مشورہ ہمیشہ ایسے اشخاص سے کرنا چاہیے جو مدبّر، ذی عقل، دور اندیش ہوں۔ دانا لوگوں میں مراتب کا فرق ہوتا ہے۔ بعض زیادہ جانتے ہیں بعض کم۔ تدبیر اور مشورہ کے لیے عقلمند اور دانا اور جہاندیدہ اشخاص کو منتخب کرنا چاہیے۔ عقلا کا قول ہے کہ ایک آدمی کی قوت اس کی عقل ہے۔ تمام دنیا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بنی نوع انسان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر عاقل اور خرد مند کوئی نہ تھا۔ آپ وہ تھے کہ اپنی دانشِ نورانی کے فیض سے ابد اور ازل کے رازوں سے باخبر تھے لیکن کیا اس مرتبے‘ عظمت اور جلال و کمال اور معجزات نے پیغمبر اعظم کو مشورہ سے بے نیاز کر دیا تھا؟ ہرگز نہیں! پیغمبر اعظم کو بھی حکم دیا گیا کہ کسی اہم مسئلے کا سامنا ہو تو اپنے رفقا اور اصحاب سے مشورہ فرمائیں۔ یہ مشورہ لینے کا مشورہ اسے دیا جا رہا ہے جس سے زیادہ مشورہ سے بے نیاز بھلا کون ہو سکتا ہے؟ اس سے لازمی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر حکمران کو کوئی مہم درپیش ہو تو اسے سن رسیدہ اور مخلص اشخاص سے مشورہ کرنا چاہیے۔
2 ‘ اپنے دشمن کی زیادہ مذمت نہ کر۔ اس سے غافل بھی نہ رہ۔ بالخصوص ایسے دشمن سے جو گھر کا بھیدی ہو کیونکہ تیرے ذاتی معاملات میں جو علم اس کو حاصل ہے وہ بیگانے کو نہیں۔ کوشش کر کہ تیرے دشمنوں کی نسبت تیرے دوستوں کی تعداد ہمیشہ دگنی تگنی ہو۔ انسان کے کثیر دوست اور کم دشمن ہونے چاہئیں۔ غصہ دبانا واجب سمجھ۔ دوست ہو کہ دشمن، بات آہستہ اور مٹھاس کے ساتھ کر کیونکہ شیریں گفتاری جادو کا دوسرا نام ہے۔ گھٹیا بات سن کر کسی کو دھمکی نہ دے۔ ایسے نہ کہہ اس طرح کر دوں گا‘ اپنے سے کمتر شخص کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہ کر۔ ہر بات کو گرہ دے کر نہ بیٹھ جا اور ہر سچ جھوٹ پر لوگوں کو سزا نہ دے ڈال!
3‘ سکندر سے کسی نے پوچھا کہ تو نے شرق و غرب کی سلطنتوں کو کیسے فتح کر لیا کہ تم سے پہلے جو بادشاہ تھے ان کے پاس خزانے، عمریں، ملک اور افواج تم سے زیادہ تھیں مگر ایسی فتوحات انہیں میسّر نہ آئیں! سکندر نے جواب دیا کہ جو ملک بھی میں نے فتح کیا اس کے عوام کو تکلیف نہ پہنچائی اور ماضی کے حکمرانوں کے اچھے کاموں کو نہ مٹایا اور ان کے نام ہمیشہ اچھے طریقے سے لیے۔
اوپر دیا گیا پہلا پیرا گراف سیاست نامہ طوسی سے ہے جو نظام الملک طوسی کی مشہور عالم تصنیف ہے۔ نظام الملک گیارھویں صدی عیسوی میں سلجوق حکمرانوں کے وزیر اعظم تھے۔ یہ کتاب انہوں نے حکمرانوں کو حکومت کا فن سکھانے کے لیے لکھی تھی۔ ہمارے پاس اس کا جو نسخہ موجود ہے اس میں لکھا ہے کہ یہ کتاب برطانوی عہد کے دوران سول سروس کے کورس میں شامل تھی۔ دوسرا پیرا گراف قابوس نامہ سے ہے۔ ایرانی حکمران امیر کیکاؤس نے یہ کتاب اپنے بیٹے کے لیے لکھی تھی۔ معروف بیوروکریٹ میاں محمد افضل نے ادق فارسی سے اس کا ترجمہ اردو میں کیا ہے۔ تیسرا پیرا گراف گلستان سعدی کے باب اوّل در سیرتِ بادشاہان سے ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گلستانِ سعدی دنیا بھر میں مشہور ہے اور ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے لیے بہترین رہنما! ان تینوں پیروں کا ماحصل کیا ہے؟ یہ کہ حکمران کو نرم گفتار ہونا چاہیے۔ اسے اپنی زبان پر کنٹرول کرنا چاہیے۔ دوستوں کی تعداد بڑھانی چاہیے۔ کم تو بالکل نہیں کرنی چاہیے۔ خاص طور پر ایسی دھمکیاں بالکل نہیں دینی چاہئیں کہ یہ کردوں گا وہ کر دوں گا۔ لازم ہے کہ اس کے وزرا اور عمائدین بھی نرم گفتار ہوں۔ مشورہ تجربہ کار لوگوں سے لینا چاہیے۔ ہمیشہ سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی اجلاسوں میں حکمران لکھی ہوئی تقریریں کرتے ہیں جو سوچ سمجھ کر تیار کی جاتی ہیں۔
ہماری حکومت میں اس کے بالکل بر عکس ہو رہا ہے۔ گورنر سندھ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم تحریک عدم اعتماد سے بچ گئے تو آپ کو چھوڑیں گے نہیں، چُن چُن کر ماریں گے۔ اٹھارہ مارچ کو جو اجلاس وزیر اعظم کی زیر صدارت حکومتی ترجمانوں کا ہوا اس میں وزیر اعظم صاحب نے کہا کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ بِکنے والے اور بَکنے والے واپس آ جائیں۔ یہ انداز گفتگو، جلد یا بدیر، ناکامی کا منہ دکھاتا ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم اگر اپنے مخالفین کا ہر روز، ہر تقریر میں، ہر موقع پر، بار بار، نام نہ لیتے، دھمکیاں نہ دیتے تو ان کا امیج آج مختلف ہوتا۔ عدالتیں اپنا کام کرتیں۔ نیب اپنے راستے پر چلتی۔ ایف آئی اے میں مداخلت نہ ہوتی! یوں یہ تاثر عام نہ ہوتا کہ تمام مقدمات کی پشت پر وزیر اعظم خود ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے ارد گرد کوئی ایسا زیرک اور دانا مشیر نہ تھا جو انہیں منتقم مزاجی سے بچانے کی کوشش کرتا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے بلکہ ناقابل یقین کہ کبھی انہوں نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ چھوڑوں گا نہیں، اور کبھی امریکہ میں یہ اعلان کیا کہ جا کر فلاں کے زندان سے ایئر کنڈیشنر اتروا دوں گا۔ کبھی تواتر سے اعلان کیا کہ فلاں سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا۔
کاش! پارٹی کے اندر اور حکومت کے اندر کوئی ایسا نظام ہوتا جس میں غیر مقبولیت کے اسباب تلاش کیے جاتے، پھر ان پر غور کیا جاتا۔ پھر ایسی پالیسیاں تشکیل دی جاتیں جو حکومت کی مقبولیت کے گراف کو مزید گرنے سے روکتیں۔ وزیر اعظم کے ارد گرد جو افراد پوزیشنیں سنبھالے ہیں‘ ان میں مخلص شاید کوئی نہیں اور اگر کوئی ہے تو وہ بے بس ہے۔ ان کے قریبی حلقے میں جو صاحبان نمایاں حیثیت رکھتے ہیں وہ پارٹیاں بدلنے کے لیے مشہور ہیں۔ انہی میں سے ایک صاحب نے ایک معروف صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ حقیقت پسند ہیں نہ کہ نظریاتی! ایسے لوگ ہر صاحبِ اقتدار کے سامنے وہی رائے دیتے ہیں جو وہ سننا چاہتا ہے۔ پھر جب وہ رخصت ہو جاتا ہے تو یہی مہارت نئے حکمران کو شیشے میں اتارنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ حکمران بدلتے رہتے ہیں۔ خوش رکھنے والے وہی رہتے ہیں۔ بد قسمتی سے کوئی حکمران یہ نہیں سوچتا کہ یہ لوگ جو اپنے پہلے محسنوں سے منہ موڑ چکے ہیں کل میرے وفادار کیسے رہیں گے؟ آپ جب دوسری پارٹیوں کے ارکان کو بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ ملاتے ہیں تو کیوں نہیں سوچتے کہ کل اقتدار کا سنگھاسن ذرا بھی ڈولا تو انہیں کوئی اور لے جائے گا! احمد فراز یاد آ گئے۔
اپنے اپنے بے وفاؤں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تو میرا نہ تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں