آپ بور ہو رہے ہیں۔ کچھ کرنے کو ہے نہیں! کب تک سوئیں گے؟ کتنی بار چائے پئیں گے؟ فون پر دوست احباب سے کتنی گپ شپ لگا لیں گے؟
اُٹھیے! میرے ساتھ آئیے! آپ کے گھر کے نزدیک ایک کالج ہے! سنا ہے وہاں سالانہ امتحانات ہو رہے ہیں۔ ہم یوں کرتے ہیں کہ تین چار دوستوں کو ساتھ لیتے ہیں۔ شغل کے طور پر وہاں جا کر ہنگامہ بر پا کرتے ہیں۔کالج کے گیٹ بند کر دیتے ہیں۔ جو نزدیک آئے گا‘ اُسے مزہ چکھا دیں گے۔ کالج کی بس کو اندر نہیں آنے دیں گے۔ یوں امتحان منسوخ ہو جائے گا۔ بہت مزہ آئے گا! کیا کہا آپ نے؟ قانون؟ کیا کہہ رہے ہیں؟ پولیس؟ ارے صاحب! چھوڑیے! کیا آپ اس ملک میں نہیں رہتے؟ اب اس طرح کی باتیں تو نہ کیجیے جیسے آپ امریکہ یا یورپ میں رہتے ہیں! کچھ نہیں ہو گا! کچھ نہیں ہونے والا!
دن بھر کالج میں شغل لگا کر، لطف اندوز ہو کر، آرام سے گھر واپس آجائیں گے! ہے نا بوریت کا علاج؟
جی ہاں! یہ ممکن ہے! بالکل ممکن ہے۔ پرسوں وفاقی دارالحکومت کی ایک بڑی یونیورسٹی میں بالکل ایسا ہی ہوا۔ اس یونیورسٹی کے ماتھے پر ''بین الاقوامی‘‘ کا جھومر بھی چمک رہا ہے اور گالوں پر اسلامی غازہ بھی رنگین بہار دکھا رہا ہے۔ طلبہ نے یونیورسٹی کے گیٹ بند کر دیے۔ بسوں کو اندر نہ آنے دیا۔ طلبہ اور طالبات یونیورسٹی میں داخل ہی نہ ہو سکے۔ امتحانات منسوخ ہو گئے۔ طلبہ کے مطالبات کی ایک لمبی فہرست تھی‘ جس میں یونیورسٹی میں ہونے والی بد عنوانیوں کا بھی ذکر تھا۔
یہ وہی یونیورسٹی ہے جس کے بارے میں گزشتہ سال تین دسمبر کو انگریزی کے معاصر میں ایک سنسنی خیز اور عبرتناک رپورٹ چھپی تھی۔ یہ رپورٹ کوئی عام رپورٹ نہیں تھی۔ یہ قومی اسمبلی کی کمیٹی کی رپورٹ تھی۔ اس میں یونیورسٹی کے اربابِ قضا و قدر کے خلاف ایسے الزامات تھے جو باعزت ہر گز نہیں تھے۔ اس رپورٹ اور ان الزامات کا کیا بنا؟ کچھ معلوم نہیں!
لیکن یونیورسٹی اتھارٹیز کے خلاف جو الزامات بھی ہوں، سوال یہ ہے کہ کیا طلبہ کو، یا کسی کو بھی، یہ حق پہنچتا ہے کہ بزور‘ یونیورسٹی کے دروازے بند کر دے۔ کسی کو اندر ہی نہ آنے دے یہاں تک کہ امتحانات منسوخ کرا دے؟ ریاست کہاں ہے؟ کیا اس ریاست سے تعلیمی ادارے بھی نہیں چل سکتے؟ کیا ہمیں اب امریکہ سے یا روس سے یا چین سے یا سعودی عرب سے یا یو اے ای سے گزارش کرنا پڑے گی کہ آؤ‘ ہمیں ہماری یونیورسٹیاں چلا دو! آپ اندازہ لگائیے! ایک ایٹمی طاقت! اس کا دارالحکومت! اس میں یونیورسٹی! وہ بھی بین الاقوامی! پھر اسلامی! اس کے سالانہ امتحانات! کچھ لوگ یونیورسٹی کے دروازے بند کر دیتے ہیں‘ ٹرانسپورٹ روک دیتے ہیں‘ امتحان منسوخ ہو جاتے ہیں‘ اس سارے عمل میں کوئی روک ٹوک نہیں! کوئی پکڑ دھکڑ نہیں! ریاست غائب ہے۔ پولیس کا جیسے وجود ہی نہیں۔ اس سے پہلے لاہور میں واقع مشہور و معروف سرکاری یونیورسٹی میں کیا نہیں ہوتا رہا اور اب بھی اکثر و بیشتر ہوتا ہے۔ اس کی داستانیں ہولناک ہیں۔ ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر ساجد علی‘ جو فلسفہ کے صدرِ شعبہ رہے‘ کبھی کبھی کچھ واقعات شیئر کرتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی کی زنبیل میں بھی بہت عجائبات محفوظ ہیں! مناسب وقت پر وہ بھی باہر آئیں گے۔
حیرت کی بات ہے کہ مار کٹائی‘ دنگا فساد‘ امتحانوں کی بزور تنسیخ‘ طلبہ و طالبات کو دھونس دے کر کلاسیں اٹینڈ کرنے سے روکنا‘ وائس چانسلروں اور رجسٹراروں کے دفتروں پر قبضے، اساتذہ کو ڈرانا دھمکانا‘ کچھ اساتذہ کا طاقتور طلبہ کی حمایت کرنا‘ اِن میں سے کچھ بھی نجی یونی ورسٹیوں میں نہیں ہوتا! بلکہ لطیفہ یہ ہے کہ جو جماعتیں‘ سرکاری یونیورسٹیوں میں اپنی برانچیں کھولے ہوئے ہیں اور ہر صورت ان کی سرپرستی کرتی ہیں‘ اپنی نجی یونیورسٹیوں میں کوئی برانچ نہیں کھلنے دیتیں! اس لیے کہ وہاں سے آمدنی ہوتی ہے۔ جب آمدنی اور نام نہاد نظریے کا تقابل ہو تو آمدنی غالب آجاتی ہے اور نظریہ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
تو پھر بہترین حل کیا یہ نہیں کہ ان سرکاری یونیورسٹیوں کو‘ جو میدانِ جنگ بنی ہوئی ہیں‘ نجی شعبے کے سپرد کر دیا جائے؟ ویسے اس حل کی نوبت کبھی نہیں آئے گی۔ اگر پاکستانیوں میں وہ شے ہوتی جس کا نام عین سے شروع ہوتا ہے اور لام پر ختم ہوتا ہے تو مدقوق سٹیل مل اور ہانپتی کپکپاتی قومی ایئر لائن کب کی نجی شعبے میں جا چکی ہوتیں! آمدنیاں لگی ہوئی ہیں‘ خاندان پل رہے ہیں‘ یونینوں کی بادشاہی ہے‘ گھر بیٹھے تنخواہیں مل رہی ہیں‘کیا ضرورت ہے ان سفید ہاتھیوں کو نجی شعبے میں منتقل کرنے کی! بس یہ یاد رکھیے، ریلوے سے لے کر ہوائی جہاز تک‘ سٹیل مل سے لے کر ڈاکخانے تک‘ یونیورسٹیوں سے لے کر سرکاری پرائمری سکولوں تک‘ ہسپتالوں سے لے کر قبرستانوں تک‘ ریاست کو کھڑ پینچ بننے کا شوق توہے مگر کارکردگی صفر سے نیچے ہے! کیا کہا جائے ان سادہ لوح ماں باپ کو جو اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کو ایسی یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں جہاں تدریس کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے! جہاں وائس چانسلر اور اساتذہ کی اکثریت بے بس ہے جو بس تنخواہیں لینے کے لیے وقت پورا کر رہے ہیں!
جنگل کے قانون کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو۔ ایک صاحب‘ اعلان کرتے ہیں کہ ان کے لیڈر کو کچھ ہو گیا تو وہ خود کُش حملہ کر یں گے اور مخالفین کے بچوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ ریاست یہ سب سنتی ہے اور کچھ نہیں کرتی۔گویا خود کش حملہ کرنا اور دوسروں کے بچوں کو نقصان پہنچانا کوئی پریشان کن بات نہیں!
سامنے جرم ہوتے دیکھنا اور کچھ نہ کرنا یہاں کا دستور ہے۔ متعلقہ اداروں کی آنکھوں کے سامنے‘ ان کی ناک کے نیچے‘ غیر قانونی رہائشی سکیمیں بنتی ہیں‘ پلاٹ الاٹ ہوتے ہیں‘ عمارتیں تعمیر ہوجا تی ہیں‘ پھر ایک دن ترقیاتی ادارے کے افسر اور اہلکار آتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ یہ عمارت غیرقانونی ہے۔ اسلام آباد ایئر پورٹ کے ارد گرد دس بیس نہیں‘ سینکڑوں سکیمیں سب کے سامنے بنیں‘ جو غیرقانونی ہیں۔ دکانداروں نے فٹ پاتھ ہی نہیں، سڑکیں تک قبضے میں لے رکھی ہیں۔ متعلقہ ادارے دیکھتے ہیں‘ جانتے ہیں مگر کچھ نہیں کرتے۔ کیا آپ کو معلوم ہے وفاقی دارالحکومت کا غلیظ ترین علاقہ کون سا ہے؟ وہی جو شہر کا دل ہے! جہاں فوڈ پارک ہے اور میلوڈی مارکیٹ ہے! گٹر ابل رہے ہیں‘ نالیوں سے عفونت بھرا پانی باہر نکل رہا ہے۔ اوپر سے بھی گندا پانی ٹپک رہا ہے۔ وہیں لوگ بیٹھے چائے پی رہے ہیں‘ کھانے کھا رہے ہیں۔ کیا ترقیاتی ادارے کے کرتا دھرتا نے اس جگہ کا کبھی معائنہ کیا ہے؟ اور یہ تو ایک جگہ ہے۔ یہ شہر جو کبھی مثالی تھا‘ اب گندگی میں اپنی مثال آپ بن چکا ہے۔ آبپارہ بازار بے ہنگم ٹریفک کی بد ترین مثال ہے۔ پرانے زمانے کے بادشاہ اور کوتوال بھیس بدل کر گلیوں میں پھرتے تھے۔ اب جو جتنی بڑی تنخواہ لے رہا ہے اور جتنی زیادہ مراعات ہڑپ کر رہا ہے‘ اتنا ہی سات پردوں میں مستور ہے۔ جس شہر کا وہ والی ہے، اس کے کوچہ و بازار میں ایک قدم نہیں چلتا۔ تو پھر شہر غلاظت کا گڑھ کیوں نہ ہو!
بات دارالحکومت کی یونیورسٹی سے شروع ہوئی تھی۔ ایک زمانہ تھاکہ پرائمری سکولوں کے امتحانوں کی تاریخ تبدیل ہونے کا تصور نہیں تھا۔ آج یونیورسٹیاں لا قانونیت کا مرکز ہیں۔ ہم کھائی میں گرنے کے بعد تیزی سے نیچے جا رہے ہیں۔