کہنے کو یہ صرف فلُو تھا یا پرانی زبان میں زکام! کہنے کو صرف ناک بند تھی۔ صرف گلے میں خراش تھی۔صرف کھانسی تھی۔ صرف چھینکیں مسلسل آرہی تھیں۔ صرف آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ صرف اُٹھا نہیں جا رہا تھا۔ کہنے کو یہ کوئی خاص بیماری نہیں تھی۔ مگر یوں لگتا تھا کہ اذیت کا ایک کارخانہ چل رہا ہے جس میں جسم پھینک دیا گیا ہے!
یہی تلوّن ہے انسان کا جس کا ذکر کیا گیا گیا ہے کہ تکلیف پہنچتی ہے تو چلااٹھتا ہے۔ جب تندرست ہوتا ہے اور نَین پران نروئے ہوتے ہیں تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔سوچتا بھی نہیں کہ صرف فلو جیسی بظاہر معمولی تکلیف سے جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔لباسِ فاخرہ اتار دے گا۔ سواری اور کوچوان کو بھول جائے گا۔وہ سارے کام جو سر پر سوار کیے ہوئے تھے‘ ترجیحات سے نکل جائیں گے۔اور پھر کمزور دل‘ جذباتی اور شاعرانہ مزاج والا تو بستر پر لیٹ کر کیا کیا سوچتا ہے۔ مینڈا جی دلیلاں دے وات وے! اور ایسی ایسی باتیں کرتا ہے کہ گھر والے تو بہ توبہ کرتے ہیں۔سب کچھ ہیچ نظر آتا ہے۔ اگر قدرت انسان کو کبھی کبھی بیمار نہ کرے تو پتا نہیں یہ بے وقوف مخلوق اپنے آپ کو کیا سمجھنے لگے۔ حالت اس کی یہ ہے کہ چلتے چلتے پاؤں میں موچ آجائے تو وہیں بیٹھ جائے!
یہ عفیفہ‘ جس کی بخشش ان شاء اللہ یقینی ہے کہ مجھ جیسے خامیوں کے گٹھر کے ساتھ زندگی گزار دی‘ وہ بھی صبر شکر کے ساتھ ! رات دن دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ ڈاکٹری گولیوں کے ساتھ دیسی علاج بھی ہو رہا ہے۔ شربت بزوری لے کر آئیں۔ بھنے ہوئے چنوں کا سفوف‘ مع قند‘ تیار کرایا۔بھاپ کے سامنے بٹھایا جا رہا ہے۔مگر ناک ہے کہ انجماد سے نیچے اتر نہیں رہی اور گلا آواز کو باہر نہیں آنے دے رہا۔ اسلام آباد کی بڑی لیبارٹیوں میں سے ایک کو یہ توفیق ہوئی ہے کہ ٹیسٹ کے لیے خون کا نمونہ گھر آکر لے جاتے ہیں اور اس کے لیے کوئی اضافی معاوضہ نہیں لے رہے۔ یقین نہیں آتا کہ یہاں ایسا بھی ممکن ہے‘ وہ بھی نجی شعبے میں! ایک زمانہ وہ بھی تھا جب پنساری کے ہاں سے بڑے بڑے پُڑے آتے تھے جن میں جوشاندے کے اجزا ہوتے تھے۔ ان کو جوش دے کر خوب کاڑھا جا تا تھا۔ عام زبان میں جوشاندے کو کاڑھا ہی کہتے تھے۔ یہ ایک سخت غیر خوشگوار‘ گھنا‘ محلول ہوتا تھا جسے پینے کے بعد منہ سر لپیٹ کر سو جانا ہوتا تھا کیونکہ گھریلو طب کہتی تھی کہ جوشاندہ پینے کے بعد ہوا نہ لگے۔ اب ہر شے میڈ ایزی ہو گئی ہے۔ جوشاندے کی ٹکیا چائے میں حل کر کے پی لیتے ہیں۔ ویسے سچ یہ ہے کہ فائدہ کبھی جو شاندے سے ہوا نہ اس کی ماڈرن ٹکیا سے۔ فارمولا وہی پرانے والا کار فرما ہے کہ علاج کریں تو سات دن میں افاقہ ہو گا۔ نہیں کریں گے تو ٹھیک ہونے میں ہفتہ لگے گا۔ لعوق سپستان‘ شربت توت سیاہ اور اس قبیل کی دیگر دواؤں سے فائدہ ہوتا ہے مگر دوا ساز کمپنیوں اور دکانداروں کو! ہاں! لعوق سپستان خمیرے کی طرح میٹھی اور خوش ذائقہ ضرور ہے۔ روایتی طب کی نشو و نما میں بادشاہوں کا بہت بڑا کردار تھا۔ اطبّا ان کے لیے ایسی ادویات تیار کرتے تھے جو خوش ذائقہ تھیں اور دیکھنے میں اچھی لگتی تھیں۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ چاندی کے ورق کا طبی فائدہ کوئی نہیں‘ فقط خوشنمائی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ یہ بھی اوپن سیکرٹ ہے کہ بادشاہ زیادہ تر ایسی ادویات کی فرمائش کرتے تھے جو مقوّی‘ ہیجان آور اور بر انگیختہ کرنے والی ہوں۔ اطبّا بھی دربار میں بلند سے بلند تر مرتبہ حاصل کرنے کے لیے اپنی ساری مہارت اور تمام علم اسی پہلو پر صرف کرتے تھے۔ کئی بادشاہ تو ان ادویات کے چکر میں جان ہی سے گزر گئے۔
1657ء میں شاہ جہان شدید بیمار ہو گیا۔ اس کا پیشاب رک گیا۔قبض شدید ہو گئی۔ تیز بخار چڑھنے لگا۔ ٹانگیں سوج گئیں۔ایک ہفتہ کچھ کھاپی نہ سکا۔ مشہور فرانسیسی‘ ڈاکٹر برنیئر کے خیال میں‘ جو اُس زمانے میں وہیں تھا‘ مقوّی دوائیں ہی بیماری کا سبب بنیں۔ مغل مؤرخ عنایت خان کی بھی یہی رائے تھی۔ یہی بیماری آخر کار شاہجہان کے زوال کا باعث بنی۔ ادویات کے علاوہ خاص قسم کی کراکری بھی صرف شاہی محلات کے لیے بنا ئی جاتی تھی۔ ترکی میں جو کرسٹل( بلور) ملتا ہے اور اب ہر خاص و عام خرید سکتا ہے‘ پہلے اس کی فیکٹریاں صرف خلفا کے استعمال کے لیے برتن بناتی تھیں۔ چین میں جو پورسلین (Porcelain)کے برتن بنائے جاتے تھے وہ بھی صرف بادشاہوں کے محلات کے لیے ہوتے تھے۔ بادشاہ دوسرے ملکوں کے حکمرانوں کو یہ برتن تحفے میں بھی دیتے تھے۔ اب تو خیر پورسلین کی کراکری اور ڈیکوریشن کی مصنوعات ہر جگہ مل جاتی ہیں۔
علالت کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ مکروہات سے فراغت مل جاتی ہے اور کتابیں پڑھنے کے لیے عام دنوں کی نسبت زیادہ وقت مل جاتا ہے بشرطیکہ آنکھیں مسلسل عرق ریزی نہ کر رہی ہوں اور چھینکیں نہ آ رہی ہوں۔ آئیڈیل صورتحال تو یہ ہے کہ بندہ کسی آرام دہ ہسپتال میں داخل ہو۔ بیماری ایسی ہو جس میں آنکھیں نہ متاثر ہوں۔ادویات کے ساتھ چائے اور کھانے کا اچھا بند و بست ہو۔ ایسے میں اپنی پسندیدہ کتابیں وافر تعداد میں منگوائی جائیں اور تندرست ہونے کے بعد بھی کوشش کر کے کچھ عرصہ وہیں رہا جائے۔ اس سازش میں اپنے گھر والوں کو شریک نہ کریں تو بہتر ہو گا۔ کتابیں پڑھنے کی جو ترکیب حافظ شیرازی نے بتائی ہے وہ تو بالکل ناقابل عمل ہے
دو یارِ زیرک و از باد کہن دو منی
فراغتی و کتابی و گوشہ چمنی
دو زیرک دوست ہوں‘ دومن شرابِ کہنہ! ساتھ فراغت ہو‘ کتاب ہو اور باغ کا گوشہ !
اس کثیر مقدار میں مے ہو‘ وہ بھی پرانی‘ اور ساتھ دو دوست بھی ہوں تو کتاب کس نے پڑھنی ہے!! شاید یہی وجہ ہے کہ شعر کا دوسرا مصرع ضرب المثل بن گیا اور پہلا مصرع کوسوں پیچھے رہ گیا !
ماں باپ کی بیماری میں ہر بچے کا رد عمل مختلف ہوتا ہے۔ تشویش اور فکر سب کو ہوتی ہے مگر اظہار کے اسالیب یکساں نہیں ہوتے۔ جن بچوں کے اعصاب مضبوط ہوتے ہیں وہ بیمار ماں یا باپ کا حوصلہ اور قوتِ ارادی بڑھاتے ہیں۔ جو میری طرح ڈرپوک اور کمزور دل ہوتے ہیں ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ دلچسپ تیمارداری میری نواسی زینب کرتی ہے۔ بار بار حال پوچھے گی۔ چائے بنا بنا کر دیتی جائے گی۔ دواؤں اور ٹیسٹوں کا پوچھے گی مگر ساتھ ساتھ یہ بھی کہتی جائے گی کہ نانا ابو! اب ختم کریں یہ ڈرامہ! بیماری کے دوران سب سے زیادہ اذیت ناک لمحے وہ ہوتے ہیں جب مرحوم ماں باپ کی بیماریاں یاد آتی ہیں۔ یہ حشر کا لمحہ ہوتا ہے جب انسان اپنا محاسبہ کرتا ہے کہ کیا خود اُس نے کَل تیمارداری کا حق ادا کیا تھا؟ اس جان لیوا سوال کا جواب بھی ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے۔ جن کے ماں باپ حیات ہیں وہ ہوشیار ہو جائیں! پہلے نہیں کیا تو آج سے ان کی تیماداری اور دیکھ بھال کو سب معاملات پر فوقیت دیں۔ جو کچھ کر سکتے ہیں‘ اس سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں ! جن کے والدین چل بسے‘ وہ اپنی کوتاہیوں پر معافی مانگیں!! اس لیے کہ
کھویا ہے اسے جس کا بدل کوئی نہیں ہے
یہ بات مگر کون سنے‘ لاکھ پکارو