مسئلہ قصبے کی سیادت کا تھا۔
دونوں گروہ بر سر پیکار چلے آرہے تھے۔ کبھی چوہدری برتر ہو جاتے‘ تو کبھی ملک خاندان حاوی ہو جاتا۔ یہ کشمکش صرف سیاسی حوالے سے نہیں تھی‘ سماجی اعتبار سے بھی تھی۔جس شادی کی تقریب میں یا کسی اور محفل میں چوہدری مدعو ہوتے وہاں ملک نہ جاتے اور جہاں ملک خاندان موجود ہوتا وہاں چوہدری جانے سے انکار کر دیتے۔ دونوں خاندانوں کی اس شدید باہمی عداوت نے پورے قصبے کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا۔دونوں گروہ متحارب تھے۔ یہ مخالفت تھانے‘ کچہری‘ بازار‘کھیت‘ دفتر‘ہر جگہ پہنچ گئی تھی۔ قصبے کے زیادہ تر لوگ زمیندار تھے یا تاجر۔ زمینداروں اور تاجروں‘ دونوں کے مضبوط بیک گراؤنڈ تھے۔چوہدری اور ملک‘ سب ان کی عزت کرتے تھے۔ اور جو بھی جس کا حمایتی تھا‘ اپنی قدرو قیمت رکھتا تھا۔
صرف گاما تھا جس کا تجارتی پس منظر تھا نہ ہی ز میندار تھا۔ گاما ملک خاندان کے ساتھ وابستہ تھا۔ زبان کا تیز تھا۔ طعنے اور کوسنے دینے میں ید طولیٰ رکھتا تھا۔ ملک گروپ نے جب بھی اپنے حریف کی ایسی تیسی کرنا ہوتی‘گامے کو آگے کر دیتا۔ گاما کسی چوک پر کھڑا ہو جاتا۔ اسے دیکھ کر بہت سے لوگ اکٹھے ہو جاتے۔گاما حریف خاندان کے وہ لتے لیتا کہ الامان! لوگ لطف اندوز بھی ہوتے اور کانوں کو بھی ہاتھ لگاتے۔گامے کو اس بات کی بالکل پروا نہیں تھی کہ وہ سیاستدان ہے نہ کسی مضبوط خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔جو منہ میں آتا کہہ دیتا۔ بڑے ملک صاحب کو بہت سے خیرخواہوں نے مشورہ دیا کہ گامے کی زبان کو تھوڑی سی لگام دیجیے۔ کم از کم فریق مخالف کی خواتین کو تو بخش دیا کرے‘ آخر مائیں‘بہنیں‘بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ مگر المیہ یہ تھا کہ بڑے ملک صاحب خود غیر مہذب زبان پر فریفتہ تھے۔ انہیں دشنام طرازی پسند تھی۔ جو جتنا زیادہ گالیاں دینے کا ماہر ہوتا‘ اتنا ہی ملک صاحب کے قریب ہوتا۔ انہیں حریفوں کے نام بگاڑنے کا بھی بہت شوق تھا۔ ایسے ایسے نام رکھتے کہ شرفا شرم سے سر جھکا لیتے۔ گاما ان کی نظر میں جینیس تھا اور بہت ہی اہم! اس لیے کہ گاما ملک صاحب کے مخالفین کی بے حرمتی خوب کرتا تھا۔وہ عزت کی دھجیاں اُڑا دیتا۔ پیدائش تک بلکہ اگلی پچھلی نسلوں تک پہنچ جاتا۔
ہر شے کی حد ہو تی ہے۔ بے حد و حساب کوئی چیز نہیں ہوتی۔ گامے کی دراز رسی بھی قدرت نے کھینچ لی۔ اس نے ایک دن چوہدریوں کی آبرو پر زبانی توپ سے وہ گولہ باری کی کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ یہاں تک کہ سرخ لکیر کو عبور کر گیا۔ چوہدریوں کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ چوہدریوں نے اپنے گھوڑے دوڑائے۔ دوسرے دن گاما گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ عبرتناک تھا۔بڑے ملک صاحب نے تو خیر حوالات میں آکر گامے کو کیا ملنا تھا اور کیا حوصلہ افزائی کرنا تھی‘ ان کے گروہ کی طرف سے کوئی نمایاں شخصیت گامے سے ملاقات کے لیے نہیں آئی۔ بلکہ تماشا یہ ہوا کہ گامے نے جو کچھ کہا تھا‘ ملک گروپ نے بھی اس کی مذمت کرنا شروع کر دی۔ گامے کو جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ اس کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا جو حوالاتوں اور جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ ہوا۔یہاں تک کہ جب عدالت میں پیش کیا گیا تو رو رہا تھا اور دہائی دے رہا تھا۔
یہی ہمارے معاشرے کا المیہ ہے! ہم جب طاقتور ہوتے ہیں تو اپنے آپ کو دوسروں کی قسمتوں کا مالک و مختار سمجھتے ہیں۔ اُس وقت ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ بساط الٹ بھی سکتی ہے۔ ڈرامے کے کردار بدل بھی سکتے ہیں۔ جنہیں ہم اپاہج اور مجبور سمجھتے ہیں کل وہ ہم پر سوار بھی ہو سکتے ہیں۔ طاقت کی مستی اور اختیار کا نشہ دماغ کو شل کر کے رکھ دیتا ہے۔ پھر اچانک ناممکن ممکن ہو جاتا ہے۔ ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے۔ عباسیوں نے امویوں کی لاشوں پر قالین بچھا یا اور اس پر بیٹھ کر دعوت اڑائی۔ عثمانی خلیفہ کو تیمور لنگ نے پنجرے میں قید کیا۔ جلال الدین اکبر بیرم خان کے بچے کی طرح تھا اور حکومت کی اصل باگ ڈور بیرم خان کے ہاتھ میں تھی‘ اُسی بیرم خان کو حج پر بھیج کر عملاً اکبر نے جلا وطنی کا حکم دے دیا۔ اور پھرجنوبی ہند میں بیرم خان کو ایک عام شخص نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
بڑوں کی لڑائی میں ہمیشہ بیچارے گامے مارے جاتے ہیں۔ ان گاموں کا خوب استحصال کیا جاتا ہے۔ ملک یا چوہدری‘ جو بھی گامے کا باس ہو‘ اس کی خوب تعریف کرتا ہے۔ گاما خوشی سے پھول جاتا ہے۔ وہ پورا یقین کر لیتا ہے کہ اس سے زیادہ بہادر‘ بے خوف اور نڈر شخص کوئی نہیں۔پھر وہ فریقِ مخالف پر مزید اور اچھل اچھل کر حملے کرتا ہے۔ داد و تحسین کے ڈونگرے برستے ہیں۔ پھر جیسا کہ ہوتا آیا ہے‘ گاما پکڑا جاتا ہے۔ ملک صاحب اور چوہدری صاحب کے نزدیک گامے کی اہمیت ایک معمولی پرزے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ فوراً نیا پرزہ آجاتا ہے۔ گامے کی زندگی تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ بقول شاعر ؎
نئے سپاہی بلائے جائیں گے لشکروں میں
گھروں میں ماتم بپا بہت دیر تک رہے گا
ہر محلے میں ایک گاما ہوتا ہے۔ ایک غریب لڑکا۔ بوسیدہ لباس‘ پھٹے ہوئے جوتے۔ چوک پر بیٹھا رہے گا۔ لڑکے بالے یا کھاتے پیتے مشٹنڈے اسے اشتعال دلا کر کسی سے بھِڑا دیں گے۔ اس کا لباس مزید تار تار ہو جائے گا۔اس کی خوب تعریف کریں گے۔ ایک آدھ دودھ پتی کا پیالہ بھی پلا دیں گے۔ پھر ایک دن وہ جیل چلا جائے گا۔تفنن طبع کے لیے ایک اور گاما تلاش کر لیا جائے گا۔
افغانوں کو بھی ہمارے کچھ لیڈروں نے گاما نہ سہی‘ ماموں ضرور بنایا ہے۔ سب جانتے ہیں یہ لیڈر کون تھے۔ اپنے بچوں کو امریکہ بھیجا۔ کچھ نے اولاد کو بزنس پر لگایا۔دوسروں کے بچوں کو جنت کی راہ دکھائی۔ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں قلم دیا‘لیپ ٹاپ دیا‘افغانوں کو بہادر کہہ کہہ کر آگے کیا۔ ان کے بچوں کے ہاتھوں میں غلیلیں‘ بندوقیں اور خنجر دیے‘ پھر ان کی فتح کے جشن منائے۔ یہ دنیا کی عجیب و غریب فتح تھی جس میں فاتح اجڑ گیا۔ لاکھوں مارے گئے۔ شہر اور بستیاں تباہ ہو گئیں۔شاہراہیں‘ پُل اور ہر قسم کا دیگر انفرا سٹرکچر ملیا میٹ ہو گیا۔لوگ بے گھر ہو گئے۔ اثاثے '' مفتوح‘‘ نے ضبط کر لیے۔ ہرات سے لے کر بدخشاں تک بھوک رقص کر رہی ہے۔ حکومت اپنے ہموطنوں کو‘ جو دوسرے ملکوں میں مہاجر بن کر رہ رہے ہیں‘ واپس لانے کی پوزیشن میں نہیں ! ہمارے پاکستانی رہنما جو افغانوں کو جنگ میں جھونکتے رہے‘ اتنا تو کر نہ سکے کہ افغان بچوں کے لیے انٹرنیشنل معیار کا کوئی تعلیمی ادارہ‘ افغانستان میں‘ یا پاک افغان بارڈر پر بنا دیتے۔
سیاسی لیڈر ہوں یا وارلارڈ‘ یا جاگیردار‘ سب کو گاموں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان سب کو گامے میسر بھی آجاتے ہیں۔ جس طرح تاریخ سے سبق کوئی نہیں سیکھتا‘ اسی طرح گامے بھی ماضی کے گاموں سے سبق نہیں سیکھتے۔ کچھ گامے تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ پھر بھی نہیں سمجھ پاتے کہ لڑائی کسی اور کی لڑ رہے ہیں۔ کسی اور کی خاطر لوگوں کو اپنا دشمن بنا رہے ہیں۔ اپنے خاندان کے راستے میں کانٹے بو رہے ہیں۔ کس کے لیے؟ وطن کے لیے ؟ نہیں! دین کے لیے ؟ نہیں ! کسی فیوڈل کے لیے! کسی دھڑے کے سربراہ کے لیے! محض واہ واہ کے لیے!