ساڑھے چار سالہ‘ سالار‘ کنارِ بحر الکاہل سے پاکستان آیا ہوا ہے۔ آنے کا یا لائے جانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس کی اردو شفاف تر ہو جائے۔
تارکینِ وطن کے مسائل پیچ در پیچ اور تہہ در تہہ ہیں۔ جو افراد پاکستان میں پیدا ہو کر‘ لڑکپن یا شباب میں ہجرت کر جاتے ہیں وہ آخری سانس تک وطن کی محبت میں تڑپتے رہتے ہیں۔ جسم نئے ملک میں مگر جان پاکستان میں! دماغ وہاں مگر دل وطن میں! سیاسی بحث میں پوائنٹ سکور کرنے کے لیے ہم کہہ تو دیتے ہیں کہ جہاں گئے ہو وہاں کی سیاست کی فکر کرو مگر سچ یہ ہے کہ ہجرت کے بعد وطن کی محبت میں تارکینِ وطن کی بھاری اکثریت سلگتی رہتی ہے‘ جلتی رہتی ہے اور کُڑھتی رہتی ہے۔ پاکستان میں رہنے والوں کے لیے اُس ناآسودگی کا تصور کرنا بہت مشکل ہے جس سے تارکین وطن کی پہلی نسل گزرتی ہے۔ ہم غریب اسے سمجھتے ہیں جس کے پاس مال و دولت نہ ہو‘ مگر غریب کااصل معنی یہ نہیں ہے۔ لغت میں غریب اُسے کہتے ہیں جو اپنے وطن سے دور ہو۔ دور افتادہ از وطن! ناآشنا‘اجنبی‘ خارجی! مزید تشریح کے لیے غریب الوطن کہتے ہیں! اس پہلی نسل کے کچھ لوگ‘ بہت کم‘ اس حسرت میں رہتے ہیں کہ ان کے بچے اپنی زبان‘ اپنی ثقافت اور اپنی قدروں سے جُڑے رہیں۔اس حسرت کو پورا کرنے کے لیے وہ کوششیں کرتے ہیں۔ کئی قسم کی کوشش اور کئی پہلوؤں سے کوشش! کچھ گھر میں بچوں کے ساتھ اپنی زبان بولتے ہیں۔ کچھ ویک اینڈ پر انہیں پڑھاتے ہیں یا اُن درسگاہوں میں بھیجتے ہیں جہاں یہ زبان پڑھائی جاتی ہے۔ کچھ کوشش کرتے ہیں کہ جب بھی موقع ملے‘ بچوں کو وطن لے آئیں تا کہ ان کی زبان صیقل ہو جائے۔
ساڑھے چار سالہ سالار کو آئے ہوئے کچھ دن ہو گئے ہیں۔ ہر روز میرے ساتھ باہر جانا اس کا معمول ہے۔ دو تین دن پہلے‘ حسبِ معمول‘ صبح اٹھتے ہی اس نے کہا کہ اس نے آئس کریم کھانی ہے اور فلاں جگہ سے‘ یعنی فلاں آؤٹ لَیٹ سے کھانی ہے۔ وعدہ کیا کہ چلیں گے۔ پھر پورا دن مصروفیت اتنی رہی کہ بھمیری بنے رہے۔ شام کو عزیز و اقارب آگئے۔ کھانے پینے کا دور چلتا رہا۔ دیر سے فراغت ہوئی۔ سالار سے کہا کہ بیٹے آج دیر ہو گئی ہے‘ پھر آپ نے بہت سی چیزیں کھا پی بھی لی ہیں‘ تو آئس کریم کے لیے کل چلے جائیں گے! سالار نے یہ سن کر کہا کچھ نہیں‘ مگر اس نے جن آنکھوں سے مجھے دیکھا‘اور کچھ دیر مسلسل دیکھتا رہا‘ میں اُن کی تاب نہ لا سکا۔ ان آنکھوں میں بہت کچھ تھا۔ یہ آنکھیں کہہ رہی تھیں کہ تم بھی وعدہ خلافی کر رہے ہو۔(You Too Brutus?)یوں تو ہر مضمون میں ایفائے عہد کی تلقین کرتے ہو مگر اپنا حال یہ ہے! آنکھیں یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ کیا یہ میری تربیت ہو رہی ہے ؟ کیا بڑا ہو کر میں بھی اسی طرح وعدے پورا کروں گا؟ چنانچہ میں اٹھا‘ گاڑی نکالی اور اسے اس کی پسندیدہ جگہ پر لے گیا۔
ہمارے ایک دوست نے‘ جو مشہور کالم نگار ہیں‘ عرصہ ہوا ایک واقعہ لکھا تھا۔ایک ریٹائرڈ امریکی بیو روکریٹ کو ایک دن امریکی صدر کے سٹاف افسر کا ٹیلیفون موصول ہوا۔امریکہ کے صدر اسے آنے والے اتوار کے دن ملنا چاہتے تھے۔ بیوروکریٹ نے معذرت کی کہ وہ اتوار کے دن مصروف ہے۔سٹاف افسر نے پوچھا کہ کیا مصروفیت ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اسے اپنی پوتی کو چڑیاگھر لے کر جانا ہے! یہ سن کر سٹاف افسر ہنسا۔اس نے کہا کہ سر! آپ کمال کرتے ہیں! یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کے صدر سے ملنا زیادہ ضروری ہے یا ایک بچے کو چڑیا گھر لے جانا؟ یہ کام تو آپ کسی اور اتوار کو بھی کر سکتے ہیں۔ بیوروکریٹ نے جواب دیا کہ امریکی صدر ملاقات ختم ہونے کے تھوڑی دیر بعد اس ملاقات کو بھول جائیں گے اور مجھے بھی! مگر میری پوتی کبھی نہیں بھولے گی کہ اس نے دادا کے ساتھ چڑیا گھر دیکھا تھا۔ اور اگر اس کے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا نہ کیا تو یہ وعدہ خلافی بھی کبھی نہیں بھولے گی۔
ہم بچوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوتے۔جب وہ رو رہے ہوتے ہیں تو انہیں چپ کرانے کے لیے‘ یا ان سے کوئی بات منوانے کے لیے وعدہ کر لیتے ہیں کہ فلاں شے خرید دیں گے یا فلاں جگہ لے کر جائیں گے۔ اس کے بعد بھول جاتے ہیں۔ اکثر اوقات وعدہ کرتے وقت ہی ہماری نیت وعدہ پورا کرنے کی نہیں ہوتی۔ یہ طرزِ عمل دو دھاری تلوار ہے۔ایک طرف بچہ ہم پر اعتبار کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ دوسری طرف وہ وعدہ خلافی سیکھ رہا ہوتا ہے۔ایک ایسا سبق جسے وہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔ بچوں کے ساتھ بھی وعدہ وہی کرنا چاہیے جو ہم بعد میں پورا کر سکیں۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ۔ ہم نے اپنے یکم ستمبر کے کالم میں لکھا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں خود لکھا کہ ڈالر لے کر پاکستانیوں کو فلاں کے حوالے کرتے رہے۔ اس پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ یہ فقرہ ان کی کتاب میں موجود نہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ مشرف صاحب جب تک اقتدار میں رہے‘ مطلق العنان بادشاہ کی طرح رہے۔ شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ اپنی نام نہاد خود نوشت کے انہوں نے کتنے ایڈیشن شائع کرائے۔ اس ضمن میں الجزیرہ ڈاٹ کام نے 23اکتوبر2006ء کو جو لکھا‘ اس سے حقیقت حال کی وضاحت ہوتی ہے۔یہ اور بات کہ بہت سے لوگ شروع ہی سے اس حقیقت حال سے آگاہ ہیں۔ الجزیرہ لکھتا ہے '' اپنی کتاب‘ اِن دی لائن آف فائر کے اصل انگریزی ایڈیشن میں‘ جس کا افتتاح گزشتہ ماہ نیویارک میں ہوا‘ جنرل پرویز مشرف نے لکھا ہے کہ تین سو پچاس سے زیادہ قیدی حوالے کرنے پر امریکی ایجنسی (سی آئی اے) نے پیسوں کی ادائیگی کی۔ فوجی حکمران نے انگریزی والی کتاب میں لکھا کہ جن لوگوں کی عادت بن گئی ہے کہ ہمیں مطعون کریں کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کافی حصہ نہیں ڈالا‘وہ ذرا سی آئی اے سے پوچھیں کہ اس نے حکومت پاکستان کو کتنی رقم( پرائز منی ) ادا کی ہے ؟ مگر جب مشرف نے اس کتاب کے اردو ترجمے کا سرکاری طور پر افتتاح کیا‘ جس کا نام سب سے پہلے پاکستان رکھا‘ تو یہ دعویٰ کتاب میں نہیں تھا۔ مشرف کے ترجمان نے کہا کہ صدر صاحب پہلے ہی ایک انٹر ویو میں کہہ چکے ہیں کہ یہ ( اعتراف) ایک غلطی تھی۔ ایسا غلطی سے شائع ہوا۔حکومت نے کوئی پیسہ نہیں لیا۔ اسی لیے اردو ترجمے میں یہ بات شامل نہیں کی گئی۔ مگر مشرف کے ناقدین کو یقین ہے کہ ایسا نہیں ہے اور یہ کہ اس حصے کو اس لیے حذف کیا گیا کہ اسی میں فائدہ تھا اور سہولت تھی۔اصل بات یہ ہے کہ مشرف نے اس جنگ میں امریکہ کی جو مدد کی اس پر بہت سے پاکستانی نالاں ہیں۔ اگر رقم لینے کا اعتراف اردو ترجمے میں موجود ہوتا تو‘ پاکستانی عوام کی نظر میں امریکی جنگ میں مشرف کے ملوث ہونے کا یہ ایک اور ثبوت ہوتا۔ یہ کتاب بیسٹ سیلر ہے تاہم پاکستانی میڈیا نے‘ عمومی طور پر‘اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔بہت سے سابق جرنیلوں نے بھی تنقید کی ہے کہ اس کتاب میں ریاستی رازوں کو فاش کیا گیا ہے مثلاًاعتراف کیا گیا ہے کہ کارگل کی جنگ میں پاکستانی فوجیوں نے حصہ لیا تھا۔‘‘