کیا کبھی آپ نے‘ یا میں نے‘ یا کسی اور نے سوچا ہے کہ مظلوم ترین اداروں میں ایک بہت زیادہ مظلوم ادارہ پولیس کا ہے؟
بے تحاشا گالیاں اس ادارے کو پڑتی ہیں! بیریئر پر کھڑے پولیس کے سپاہی کو ہر گزرنے والا ڈرائیور دشمنی کی نظر سے دیکھتا ہے! حالانکہ یہ بیریئر اس سپاہی نے لگایا نہ ہی یہاں وہ اپنی مرضی سے کھڑا ہے! اور سوچئے‘ کب سے وہ یہاں کھڑا ہے؟ کب تک کھڑا رہے گا؟ کیا اس دوران اس کی خوراک کا بند و بست کیا جا رہا ہے؟ کیا ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد گھر جانے کے لیے اسے سواری مہیا کی جائے گی؟
جب رسوائے زمانہ رُوٹ لگتا ہے اور ٹریفک روک لی جاتی ہے تو سب اُن پولیس والوں کو برا بھلا کہتے ہیں جو ٹریفک روکتے ہیں۔ کیوں؟ انہیں برا بھلا کہیے جن کے نخرے اٹھانے کے لیے رُوٹ لگایا گیا ہے! بقول شاعر؎
حاکم یہاں سے گزرے گا اظہارؔ کس گھڑی
بدبخت کے لیے ہے جنازہ رُکا ہوا
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ دہشت گردی کی جنگ میں پولیس فورس نے بھی قربانیاں دی ہیں اور بہت قربانیاں دی ہیں۔ گلگت سے لے کر کراچی تک اور سیالکوٹ سے لے کر کوئٹہ تک پولیس کے ہزاروں اہلکار اور افسر شہید ہوئے ہیں۔ اُن کی مائیں روئی ہیں۔ اُن کے بچے یتیم ہوئے ہیں۔ اُن کی بیویاں بے کس ہو گئی ہیں لیکن ستم یہ ہوا کہ پولیس کی قربانیوں کا ذکر اہتمام اور اختصاص کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ ایک غریب کسان کی ماں حج کر کے آئی۔ اُسی گاؤں کے چودھری کی ماں نے بھی اُسی سال حج کیا۔ سب لوگ چودھری کی ماں کو مبارک دینے آ رہے تھے۔ کسان کے گھر میں کوئی نہ آیا۔ کسان نے جا کر چودھری صاحب سے پوچھا کہ حضور! حج تو میری ماں نے بھی کیا ہے‘ کیا آپ کی امی جان نے طواف میں اول پوزیشن حاصل کی ہے؟ اس میں کچھ قصور پولیس کا اپنا بھی ہے۔ پولیس فورس بدقسمتی سے ایسے ادارے تعمیر نہیں کر سکی جو شہدا کے خاندانوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔ اس سلسلے میں جب تک مستقل ادارہ جاتی انتظام نہ ہو اور ایک خود کار نظام نہ وضع کیا جائے تب تک قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ خاص طور پر فنڈنگ کا مستقل بند و بست لازم ہے۔ جہاں تک ہماری ناقص معلومات ہیں‘ پولیس کے شہدا کے خاندانوں کی دیکھ بھال کا انحصار اس بات پر ہے کہ افسر کس مزاج اور کس اُفتادِ طبع کے ہیں۔ اگر اعلیٰ افسر فلاح و بہبود پر توجہ دیتے ہیں تو شہدا کے پسماندگان کا بھی خیال رکھا جائے گا ورنہ نہیں! اس کی ایک لائقِ تحسین مثال گزشتہ ہفتے راولپنڈی میں دیکھنے کو ملی۔ کانسٹیبل محمد نیاز دس سال پہلے دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہو گیا تھا۔ اب اس کی دو بیٹیوں کی شادی تھی۔ راولپنڈی کے پولیس افسران نے اس موقع پر مثالی کردار ادا کیا۔ بارات کا استقبال ایس ایس پی آپریشنز وسیم ریاض خان اور ایس پی طارق محبوب نے بنفس نفیس خود کیا۔ سی پی اوراولپنڈی نے اس تقریب میں ذاتی دلچسپی لی۔ ان سینئر پولیس افسران نے شہید کی صاحبزادیوں کے سر پر ہاتھ رکھا اور تحائف اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ یہ ایک بہت ہی خوش آئند کارنامہ ہے جو پولیس نے سرانجام دیا۔ ہم اس پر انہیں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔ یہ تمام پولیس افسروں کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال ہونی چاہیے۔ اس کام کے لیے بجٹ میں باقاعدہ فنڈز مختص ہونے چاہئیں۔
اصولی طور پر تمام محکموں میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ سروس کے دوران جس اہلکار کی بھی موت واقع ہو‘ متعلقہ محکمے کو اس کے خاندان کی دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ ایک سرکاری ملازم سروس کے دوران دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے محکمے پر اپنی زندگی قربان کر دی۔ کوئی بھی سرکاری محکمہ ہو‘ کسی بھی وزارت کے ماتحت ہو‘ محکمے کا اور متعلقہ وزارت کا‘ خواہ صوبائی ہو یا وفاقی‘ فرض ہے کہ مرنے والے کے بچوں کی تعلیم‘ رہائش اور دیگر ضروریات کا خیال رکھے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان ایک فلاحی (ویلفیئر) ریاست نہ بن سکا مگر محکمے تو فلاحی کام کر سکتے ہیں۔ محکموں کے سربراہان کو معلوم ہونا چاہیے کہ کل انہوں نے بھی دنیا سے کوچ کرنا ہے۔ آج دوسروں کا خیال رکھیں گے تو کل ان کی اور ان کے پسماندگان کی دیکھ بھال ہو گی۔ جیسا بیج ویسی کھیتی!
پولیس کی بات ہو رہی تھی۔ یہاں اُس ظلم کا ذکر ضروری ہے جو پاکستان کی پولیس کے ساتھ ہو رہا ہے اور جس کے خاتمے کی بظاہر کوئی امید نہیں نظر آرہی! پاکستانی پولیس کو سیاسی مداخلت کے سرطان کا سامنا ہے۔ ہماری پولیس کی جتنی کمزوریاں اور نقائص ہیں ان میں سے اکثر کا کھرا اس سیاسی مداخلت ہی تک پہنچ رہا ہے۔ اس نحوست نے پولیس کی خوبیوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ سارے صوبوں میں‘ بشمول وفاق‘ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ پاکستانی پولیس جرائم کی بیخ کَنی میں کسی بھی مہذب‘ ترقی یافتہ ملک کی پولیس سے پیچھے نہیں ہے بشرطیکہ اسے آزادی سے کام کرنے دیا جائے۔ عمران خان صاحب سے امید تھی کہ وہ پولیس کو اس کراہیت سے پاک کریں گے مگر پنجاب میں‘ اور وفاق میں بھی‘ ان کی کارکردگی صفر رہی۔ انہوں نے تو یہ تک کیا کہ ایک سینئر پولیس افسر کو گجر صاحب کے سامنے یوں لا کھڑا کیا جیسے گجر صاحب ہی باس ہوں۔ ناصر درانی صاحب کو پنجاب میں لایا گیا مگر ایک ہفتے کے اندر ہی خان صاحب نے اپنے دعوے کے اوپر خود ہی خطِ تنسیخ پھیر دیا۔ پولیس کے سینئر افسروں کو میوزیکل چیئر کی نذر کر دیا گیا۔ اس ضمن میں خان صاحب کی حکومت کا رویہ وہی تھا جو پی پی پی اور نون لیگ کی حکومتوں کا تھا۔ پولیس کے سربراہ کے ہاتھ باندھ دیے جاتے ہیں۔ اس کے ماتحت عملے کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر میں رات دن‘ صبح شام‘ مداخلت کی جاتی ہے۔ کرپٹ عناصر کو وہ ہٹا نہیں سکتا۔ دیانت دار اور لائق ماتحتوں کو اس کے پاس رہنے نہیں دیا جاتا۔ اس کے بعد اس کی کارکردگی جانچنے کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں رہتا۔ ہونا یہ چاہیے کہ اسے مکمل آزادی دی جائے۔ کسی قسم کی مداخلت کسی بھی سطح پر نہ کی جائے۔ اس کے بعد اس کی کارکردگی مثالی نہ ہو تو اسے بے شک سزا دیجیے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ ایس ایچ او اپنے سربراہ کی پروا نہیں کرتا کیونکہ اسے چیف منسٹروں‘ ان کے بچوں اور ان کے رشتہ داروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس مکروہ ماحول میں پولیس کے افسران‘ حکمرانوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے نہ ہوں تو کیا کریں۔ کوئی سر پھرا قانون کے سیدھے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو دو دن سے زیادہ برداشت نہیں کیا جاتا۔ ذوالفقار چیمہ کو کسی صوبے کا آئی جی بنانے کے بجائے موٹر وے میں کھپایا گیا۔
عوام کو ان حقیقی اور اصل عوامل کا علم نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ پولیس کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں۔ انہیں احساس نہیں کہ ڈور کہیں اور سے ہِل رہی ہے۔ کچھ پولیس افسروں کے گھروں میں بڑے بڑے مہمان خانے چل رہے ہوتے ہیں۔ انہیں کون چلاتا ہے؟ تنخواہ سے تو یہ نہیں چل پاتے۔ جو پولیس افسر دوسرے محکموں میں چلے جاتے ہیں یا ریٹائر ہو جاتے ہیں‘ وہ بھی افرادی قوت اور سواری پولیس کی استعمال کرتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ پولیس کے جوانوں کے خیمے کن کن گھروں کے سامنے نصب ہیں؟ یہ تمام کرامات سیاسی مداخلت کی ہیں۔ اور مثالیں ہمارے حکمران‘ کیا موجودہ اور کیا سابق‘ برطانوی اور امریکی پولیس کی دیتے ہیں!