دھوتی‘ شلوار قمیض اور کلب

ملکہ کی نزاکت کا یہ عالم تھا کہ تکیے کے نیچے جو گدّا تھا‘ اُس گدّے کے نیچے کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا۔ ملکہ کو رات بھر نیند نہ آئی کہ بستر نا ہموار ہو گیا تھا!
بالکل یہی حالت ہمارے مراعات یافتہ طبقے کی ہے۔گدے کے نیچے کاغذ کا ٹکڑا پڑا ہو تو خوابِ استراحت میں خلل پڑتا ہے۔ استحقاق مجروح ہو جاتا ہے۔ پھر کسی نہ کسی کی شامت آتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد کلب کو لائن حاضر کیا گیا۔ الزام یہ تھا کہ ''انگریز چلا گیا لیکن باقیات چھوڑ گیا۔ اگر ٹائی کوٹ نہیں پہنا تو کوئی کلب میں کھانا نہیں دیتا‘‘۔( روزنامہ دنیا‘ اٹھارہ جنوری )۔ بالکل درست فرمایا۔ انگریز چلا گیا اور اپنی باقیات چھوڑ گیا۔ انگریزوں نے مسلم شرفا کو ذلیل کرنے کے لیے ان کالباس اپنے نوکروں‘ بٹلروں‘ کوچوانوں اور دربانوں کو پہنا دیا۔ انہیں پگڑی اور شیروانی پہنا ئی۔ یہ روایت صدر پاکستان کے عالی شان قصر میں اور گورنروں کے محلات میں آج بھی جوں کی توں رائج ہے۔ گزارش ہے کہ اس پر بھی تو اعتراض فرمائیے۔ آپ اربابِ حکومت میں سے ہیں۔ ایک فرمان جاری کرائیے کہ آج سے ایوان ِصدر کے دربان‘ بٹلر اور نوکر دستار اور شیروانی نہیں پہنیں گے بلکہ ہیٹ‘ کوٹ پتلون‘ ٹائی اور بو پہنیں گے۔ یہ پوری قوم پر آپ کا احسان ہو گا۔
رہا یہ الزام کہ '' اگر ٹائی کوٹ نہیں پہنا تو کوئی کلب میں کھانا نہیں دیتا‘‘۔ تو بصد ادب گزارش ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ بات سو فیصد خلافِ حقیقت ہے۔ اسلام آباد کلب میں ٹائی اور کوٹ بالکل لازم نہیں۔ اوپر کے حصے میں شلوار قمیض اور واسکٹ پہن کر آتے ہیں۔ نیچے کے حصے میں واسکٹ بھی ضروری نہیں۔ صرف شلوار قمیض میں آسکتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ پورے ملک کے کسی کلب میں ٹائی لازم نہیں۔ ہر کلب میں شلوار قمیض اور واسکٹ پہن کر ٹھاٹ سے جا سکتے ہیں۔ ہمارے مرحوم دوست‘ مشہور صحافی‘ رحمت علی رازی بہت خوش لباس تھے۔ خوبصورت شلوار قمیض‘ دیدہ زیب واسکٹ اور سنہری کھسہ پہنتے تھے اور جمخانہ کلب لاہور ان کا مستقل ٹھکانہ تھا۔ مجیب الرحمان شامی صاحب کو آج تک پتلون اور ٹائی میں نہیں دیکھا۔ ہمیشہ شلوار قمیض میں ملبوس ہوتے ہیں۔ کئی بار انہوں نے جمخانہ کلب لاہور میں اپنی میزبانی سے ہمیں عزت بخشی۔ ہمارے سینئر جناب ایاز امیر‘ شلوار قمیض میں ملبوس‘ کئی بار اسلام آباد کلب میں ملے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے حنیف عباسی صاحب اور تحریک انصاف کے غلام سرور خان صاحب کو کئی بار اسلام آباد کلب میں دیکھا ہے۔ انہوں نے ٹائی لگائی ہوتی ہے نہ پتلون پہنی ہوتی ہے۔ کراچی اور لاہور کے عسکری کلبوں میں بھی ٹائی لازم نہیں۔ ہر جگہ شلوار قمیض اور واسکٹ میں ملبوس ممبروں کی‘ اور ان کے مہمانوں کی‘ باعزت پذیرائی کی جاتی ہے! بات وہ کرنی چاہیے جو درست ہو اور حقیقت کے مطابق ہو۔ پوائنٹ سکورنگ کے لیے وہ بات نہیں کرنی چاہیے جو حقیقت کے خلاف ہو۔
رہا مسئلہ دھوتی کا‘ تو یقینا دھوتی اور تہمد ہمارااپنا لباس ہے اور اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ کرتا دھوتی ہماری ثقافتی پوشاک ہے۔ ہمارے ثقافتی میلوں ٹھیلوں میں ہمارے فنکار کرتا دھوتی ہی پہنتے ہیں۔ عالم لوہار مرحوم اور اب ان کا فرزند عارف لوہار ہماری ثقافتی نمائندگی کرتے ہیں اور دھوتی‘ یا تہمد‘ زیب تن کرتے ہیں۔ ہماری ثقافت ہمیں عزیز ہے۔ ثقافت پنجاب کی ہو یا سندھ کی‘ پشتون ہو یاکشمیری‘ یا بلوچی یا ہمارے ایم کیو ایم کے بھائیوں کی‘ یا شمالی علاقہ جات کی‘ یہ ساری ثقافتیں پاکستانی ہیں۔ یہ سب ہماری اپنی ہیں۔ تاہم یہ مؤقف بھی غلط نہیں کہ کلب‘ کلچر کلب نہیں۔ یوں تو کبڈی بھی ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ ہمیں اس پر فخر ہے۔ کبڈی ہم لنگوٹی پہن کر کھیلتے ہیں۔ اس لحاظ سے لنگوٹی بھی ہمارا ثقافتی لباس ہوا۔ مگر ثقافتی لباس ہم ہر جگہ نہیں پہنتے۔ ثقافتی تقاریب ہی میں پہنتے ہیں۔ ویسے معزز معترض لاہور سے ہیں‘ اس لیے اگر دھوتی کو ڈریس کوڈ کا حصہ بنانا ہے تو یہ کام لاہور سے آغاز کریں اور جمخانہ کلب لاہور‘ پنجاب کلب اور عسکری کلب لاہور کالباس تبدیل کرائیں۔
پوری دنیا میں جتنے بھی کلب ہیں‘ ان کے اپنے اپنے قوانین ہیں۔ اپنے اپنے ڈریس کوڈ ہیں۔ کلب کیا ہوتا ہے؟ کلب اٹھنے بیٹھنے کی‘ کھیلنے کی‘ کھانے پینے کی ایک جگہ ہوتی ہے جہاں ہر ممبر اپنے گھر کی طرح اطمینان محسوس کرتا ہے۔ اطمینان کا واحد سبب یہ ہے کہ ممبر ایک جیسے لگتے ہیں۔ ان کی دلچسپیاں مشترک ہو تی ہیں۔ کسی کمتری یا برتری کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ خواتین اور بچے بھی اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ ہر معاشرے میں سماجی حوالے سے کئی طبقات ہو تے ہیں۔ یہ اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہیں۔ اگر یہ مکس ہونا شروع ہو جائیں تو ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکیں گے۔ ایک کسان‘ کی گفتگو‘ زیادہ تر‘ اپنے مویشیوں‘ کھیت کی پیداوار‘ کھاد اور بیج کے بارے میں ہوگی۔ ضروری نہیں کہ ایک تاجر یا ڈاکٹر اس کے ساتھ گپ شپ کر سکے۔ ٹیکسی چلانے والے شام کو اکٹھے مل بیٹھتے ہیں اور اُن مسائل پر بات چیت کرتے ہیں جن کا انہیں سامنا ہے۔ اس میں کسی پیشے کی تحقیر یا بلندی کا سوال نہیں۔ سب پیشے باعزت ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مشترکہ دلچسپیاں موجود ہیں یا نہیں؟ ایک دوسرے سے بات چیت ہو سکتی ہے یا نہیں۔ یہی ایک کلب کے جواز کا سبب ہے۔ اسی لیے کچھ پابندیاں عائد کی جاتی ہیں تا کہ سب ممبر ایک ضابطے کے اندر رہیں اورکوئی ایک ممبر اجنبیت کا باعث نہ بنے! کسی کو اگر یہ پابندیاں‘یہ ضابطہ اچھا نہیں لگتا تو جبر کا کوئی سوال نہیں۔ وہ کلب سے دور رہ سکتا ہے۔ وہ بیٹھنے اٹھنے کے لیے‘ یا وقت گزارنے کے لیے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کر سکتا ہے جہاں کا ماحول اسے زیادہ پسندیدہ لگتا ہے۔ گاؤں میں چوپال بھی ایک کلب ہی ہوتا تھا۔ وہاں بیٹھنے والے ایک جیسے ہوتے تھے۔ ایک جیسا لباس۔ ایک جیسے مسائل۔ شہر میں رہنے والا وہاں بیٹھ بھی جائے تو چتکبری گائے یا اتھرے بَیل یا تھریشر کے بڑھتے کرائے پر ہونے والی گفتگو کتنی دیر سُن پائے گا؟
جہاں تک کلب میں کھانے کی قیمتوں کا سوال ہے تو اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ نرخ‘ استطاعت کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اور اب ایسا بھی نہیں کہ گلاب جامن جو وہاں ملتا ہے بوتل کے ڈھکنے سے بھی چھوٹا ہے۔ اس کا انحصار اس پر بھی ہے کہ بوتل کا ڈھکنا کس سائز کا ہے؟ اب جام یا مار ملیڈ یا اچار کی بوتل کا ڈھکنا تو کافی بڑا ہوتا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ جو نرخ پارلیمنٹ کے کیفے کے ہیں‘ وہ کہیں اور شاید ممکن ہی نہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے ملک کا قدیم ترین اور مؤقّر انگریزی روزنامہ ہے۔ اس میں پارلیمنٹ کیفے کے2011ء کے نرخ دکھائی دے رہے ہیں۔ چائے ایک روپیہ۔ سُوپ ساڑھے پانچ روپے۔ چپاتی ایک روپیہ۔چکن چوبیس روپے پچاس پیسے۔سبزی بریانی آٹھ روپے۔ مچھلی تیرہ روپے۔ مگر یہ قیمتیں گیارہ بارہ سال پہلے کی ہیں۔ آج کے نرخ یقینا زیادہ ہوں گے مگر اسی تناسب سے! چونکہ اسلام آباد کلب میں ہمارے فاضل ارکان پارلیمان کا آنا جانا رہتا ہے اس لیے ہم‘ پورے خلوص کے ساتھ‘ تجویز پیش کرتے ہیں کہ کلب میں کھانے کے نرخ وہی رکھے جائیں جو پارلیمنٹ کیفے کے ہیں۔ اگر کیفے میں‘ قیمت فروخت‘ لاگت سے کم ہے تو وہی بابرکت ترکیب کلب میں بھی آزمائی جائے۔ وما علینا الاالبلاغ !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں