زلزلہ تو اچانک آتا ہے۔ اس کی تیاری انسان کیا کرے! موت بھی اچانک آتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مہمان بھی اچانک آتے تھے۔مگر یہ جو تین مارچ2023ء کو اکادمی ادبیات اسلام آباد کے چیئرمین اپنی تعیناتی کی مدت پوری کر کے رخصت ہو گئے تو کیا یہ بھی کوئی زلزلہ تھا جس کی خبر سرکار کو یعنی متعلقہ وزارت کو بالکل نہیں تھی؟ کیا سرکار کو معلوم نہ تھا کہ تین مارچ کو چیئرمین چلا جائے گا۔ لگتا ہے بالکل معلوم نہ تھا۔ جبھی تین مہینے ہونے کو ہیں۔ چیئرمین کا عہدہ خالی ہے۔ اگر متعلقہ وزارت کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی تو ایسا انتظام کرتی کہ تین مارچ کو منصب خالی ہوا تو چار مارچ کو نیا چیئرمین اپنی نشست سنبھال لیتا!
یہ کام متعلقہ وزارت کے لیے چنداں مشکل نہ تھا۔ مارچ سے دو ماہ پہلے اشتہار دیتی۔ درخواست دہندگان کے انٹرویو لیتی اور میرٹ پر مناسب ترین امیدوار کو چُن لیتی! مگر ایسا نہ ہوا۔ تین ماہ ہونے کے بعد بھی ایسا نہیں ہو رہا۔ اب دل میں وسوسے تو اٹھتے ہیں! کیا نئے چیئرمین کے آنے سے پہلے‘ متعلقہ وزارت کچھ'' کام‘‘ جلد از جلد کر لینا چاہتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اکادمی اگر چیئرمین کے بغیر ہے اور یتیم اور لاوارث ہے تو متعلقہ وزارت کی پانچوں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں ہے!
اس وقت اکادمی ادبیات کی کشتی منجدھار میں ہے اور جس اتھارٹی نے یا جس ادارے نے اسے منجدھار سے نکالنا ہے‘ وہ دوسری طرف دیکھ رہا ہے۔آج اکادمی ادبیات کو تین مسائل درپیش ہیں۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اکادمی کے اوپر جن حلقوں کا اختیار ہے وہ نئے چیئرمین کا انتظار کیے بغیر نئے ملازمین بھرتی کرنا چاہتے ہیں۔ اس بھرتی کے لیے جو اشتہار دیا گیا ہے اس میں صوبوں کے کوٹے میں گڑ بڑ کی گئی ہے۔ مرکزی حکومت نے ملازمتوں میں ہر صوبے کا حصہ مقرر کر رکھا ہے۔ یہ حصہ سرکاری رولز اور قوانین کی کتابوں میں صریحاً درج ہے۔مگر جو اشتہار چھپا ہے‘ وہ ان رولز کے‘ ان قوانین کے خلاف ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کچھ ملازمین اکادمی ادبیات میں کافی عرصہ سے کام کر رہے ہیں۔یہ کنٹریکٹ پر ہیں۔ انہیں مستقل نہیں کیا جا رہا۔ یہ طویل عرصے سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نہیں معلوم سابق چیئرمین اور ان سے پہلے جو چیئرمین تھے‘ انہوں نے ان ملازمین کو مستقل کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کرایا ؟ اب جو اشتہار چھپا ہے اگر اس کے مطابق نئی بھرتیاں کی گئیں تو یہ کنٹریکٹ والے ملازمین بر طرف ہو جائیں گے۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہو گیا تو یہ کام مبنی بر انصاف نہیں ہو گا۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اکادمی ادبیات کے امور کی نگرانی ایک بورڈ کرتا ہے۔ اسے بورڈ آف گورنرز کہا جاتا ہے۔ اس میں زبانوں کی نمائندگی ہے اور علاقوں اور صوبوں کی۔ یہ گورنر حضرات پڑھے لکھے ہیں۔ دانشور ہیں۔ عالم ہیں اور اپنے اپنے شعبے کے ماہر! ستم ظریفی یہ ہو رہی ہے کہ متعلقہ وزارت‘ بورڈ آف گورنرز کے فیصلوں کو‘ مبینہ طور پر‘ کوئی گھاس نہیں ڈال رہی۔ یہاں تک کہ آخری اجلاس جو بورڈ آف گورنرز کا منعقد ہوا‘ اس کے منٹس(minutes)تک جاری نہیں کیے جا رہے! وجہ اس کی یہ بتائی جا رہی ہے کہ بالائی حلقے جو غیر قانونی کام کرنا چاہتے ہیں‘ بورڈ آف گورنرز نے اس کی مخالفت کی ہے۔ بورڈ آف گورنرز کی رائے یہ ہے کہ (1) بھرتی کے لیے جو اشتہار شائع کیا گیا ہے اسے کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ اس میں صوبائی کوٹے کے حوالے سے قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ تین سال پہلے جو اشتہار2020ء میں شائع ہوا تھا اس میں صوبائی کوٹہ درست درج ہوا تھا۔ بورڈ آف گورنرز کاسوال یہ ہے کہ تازہ ترین اشتہار میں کوٹے کی تقسیم میں تبدیلیاں کیوں کی گئی ہیں؟ (2 ) بورڈ آف گورنرز کی رائے میں کنٹریکٹ پر جو ملازمین کام کر رہے ہیں‘ انہیں پہلے مستقل کیا جائے۔ نئی بھرتی اس کے بعد کی جائے۔
متعلقہ وزارت کو چاہیے کہ ان مشوروں اور آرا کو اور بورڈ آف گورنرز کی سفارشات کو منظور کر کے انہیں عملی جامہ پہنائے۔بہتر تو یہ ہے کہ یہ سارے کام نئے چیئرمین کے آنے کے بعدکیے جائیں۔ غلط ہے یا صحیح‘ اس وقت یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ متعلقہ وزارت چیئرمین کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھا کر من مانی کرنا چاہتی ہے۔ خدا کرے کہ یہ تاثر غلط ہو! ہم متعلقہ وزارت کو مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ اس ساری صورت حال کا منصفانہ جائزہ لے۔ بھرتی کا کام صوبائی کوٹے کی درست تقسیم کے مطابق کرے‘ کنٹریکٹ ملازمین پر رحم کھا کر انہیں مستقل کرے اور اس امر پر بھی غور کرے کہ یہ تمام امور نئے چیئرمین کی آمد تک ملتوی کر دیے جائیں !
ہم یہاں یہ حقیقت بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ سابق چیئرمین کے رخصت ہو جانے کے بعد اکادمی کے افسران اور اہلکاروں نے کام میں تعطل پیدا نہیں ہونے دیا۔ یہ ان کی محنت ہے اور فرض شناسی بھی!متعلقہ وزارت کے لیے بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ ان افسروں اور اہلکاروں کی آراء پر توجہ دے اور ان کی مدد سے زمینی حقیقتوں کا ادراک کرے! یہ پوری مرکزی حکومت کی بد قسمتی ہے کہ وزارتوں میں بیٹھے ہوئے فیصلہ ساز‘ فیلڈ کی صورت حال سے ناواقف ہوتے ہیں۔ فیصلے کرتے وقت فیلڈ میں کام کر نے والوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔یہ صرف ایک یا دو وزارتوں کی بات نہیں‘ ہر جگہ یہی ہو تا ہے اور طویل عرصے سے یہی ہوتا چلا آرہا ہے! وہ زمانہ بھی گزرا ہے جب کپاس کی پالیسی بنانے والوں نے کپاس کا پودا کبھی نہیں دیکھا تھا اور گندم کے حوالے سے فیصلے کرنے والے پوچھتے پھرتے تھے کہ یہ گندم کا درخت کتنا بڑا ہوتا ہے۔
اکادمی ادبیات میں ایک بُک شاپ بھی موجود ہے مگر اب یہ ایک مدت سے بند ہے۔ ادب کے شائقین کے لیے یہ دکان غنیمت تھی۔ کتابیں اس میں میسر بھی تھیں اور مناسب داموں خریدی بھی جا سکتی تھیں۔اندازہ لگائیے جس ادارے سے اور اس کی متعلقہ وزارت سے ایک ادبی بُک شاپ نہیں چلائی جا سکتی اس نے اور کیا تیر مارنا ہے!! خدا را ! اس دکان کو کھولنے کی کوئی سبیل کیجیے۔یہ واقعہ شاید سقراط سے منسوب ہے یا حکیم لقمان سے کہ کسی نے اس سے پوچھا ادب کہاں سے سیکھا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ بے ادبوں سے! وہ اس طرح کہ جو کام یہ بے ادب کرتے تھے‘ میں اس سے بچتا تھا! مگر آج کی صورت حال تو یہ ہے کہ ادب پر اور ادیبوں پر حکمرانی ہی بے ادبوں کی ہے! اور اس میں تعجب بھی کیا ہے! آخر دس جماعتیں پاس افراد وزیر تعلیم بھی تو رہے ہیں! ہم نے تو ماضی میں ایک حاکم کو دیکھا جو نغمہ گر سے فرمائش کر رہا تھا کہ احمد فراز کی وہ غزل سناؤ جس میں وہ محبوب کو کہتا ہے کہ پبلک کے لیے آؤ! نغمہ گر کی سمجھ میں کچھ نہ آیا! ایک عاقل بھی وہاں موجود تھا‘ وہ ہنسا اور نغمہ گر کو بتایا کہ صاحب بہادر اُس غزل کی فرمائش کر رہے ہیں جس میں شاعر محبوب سے کہتا ہے کہ۔
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
جس ملک میں خواندگی کی شرح شرمناک حد تک کم ہو اس میں ادب کون پڑھے گا اور کتنے پڑھیں گے؟پچیس کروڑ آبادی والے اس ملک میں لٹریچر کی کتاب ایک ہزار کی تعداد میں چھپتی ہے ؟اور شاعری کی پانچ سو! پبلشر اور ادیب دونوں ایک دوسرے سے کہہ رہے ہوتے ہیں۔
آپ بھی شرمسار ہو‘ مجھ کو بھی شرمسار کر!