یہ ایک ابر آلود شام تھی۔میں وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر آئی ایٹ سے نکلا اور گاڑی چلاتا ہوا سیکٹر آئی نائن کی طرف بڑھنے لگا۔ اتنے میں بوندا باندی شروع ہو گئی۔ دائیں طرف دیکھا تو یقین نہ آیا۔ گاڑی روک کر پھر غور سے دیکھا۔ یہ حقانی صاحب تھے ! ارشاد احمد حقانی صاحب۔ فٹ پاتھ پر کھڑے تھے۔ ساتھ ایک گاڑی کھڑی تھی۔ میں گاڑی سے نکل کر ان کے پاس آیا اور سلام کر کے اپنا نام بتایا۔ انہوں نے پوچھا '' اظہارالحق جو کالم لکھتے ہیں؟‘‘۔ میں نے عرض کیا جناب وہی! کہنے لگے: آپ بہت تیکھے انداز میں لکھتے ہیں! پھر انہوں نے بتایا کہ گاڑی خراب ہو گئی ہے۔ میں نے تجویز پیش کی کہ بارش تیز ہونے کا امکان ہے۔ وہ میرے ساتھ میرے افلاس کدے پر تشریف لائیں۔میں اپنے ڈرائیور کو بھیجتا ہوں۔ وہ ان کے ڈرائیور کے ساتھ مل کر گاڑی کو ٹھیک کر دے گا یا کرا دے گا! انہوں نے میری تجویز کو شرفِ قبولیت بخشا اور یوں میرے ساتھ گھر تشریف لے آئے! یہ پچیس سال پہلے کی بات ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان کے ساتھ ان کی بیگم یا صاحبزادی بھی تھیں۔
باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ میں ان کے اخبار میں کیوں نہیں لکھتا؟میں نے عرض کیا کہ سر! کہاں میں اور کہاں آپ کا اخبار! میں تو سوچ بھی نہیں سکتا! انہوں نے فرمایا کہ کل کالم انہیں بھجوا دوں! ان کی اقامت گاہ ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی۔ وہ آئی ایٹ تھری میں رہ رہے تھے۔ دوسرے دن کالم ان کے گھر پہنچا دیا جو ان کے اخبار میں چھپ گیا۔ یوں ایک خوشگوار حادثے کے نتیجے میں ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ میرے گھر تشریف لے آئے۔کہاں وہ اور کہاں یہ طالب علم! مگر میرا ہفتہ وار کالم کئی سال ان کے اخبار میں شائع ہوتا رہا!
حقانی صاحب متعدد دیگر مشاہیر کی طرح جماعت اسلامی کی نرسری میں تیار ہوئے اور پھر اسے چھوڑ کر صحافت کی بے کنار دنیا میں داخل ہو گئے اور بہت نام کمایا۔یعنی بقول اقبال ؎
غربت میں آکے چمکا‘ گمنام تھا وطن میں!
سیاسی حرکیات ( Dynamics )کے بیان میں ان کا ثانی کوئی نہیں تھا۔ تجزیہ کرتے جاتے تھے اور ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری گرہ کھولتے جاتے تھے۔ ملکی صورت حال پر ان کے کالم یادگار تھے۔ موجودہ ایرانی جمہوریت اور شورائے نگہبان کے حوالے سے ان کے کالم اردو صحافت میں بے مثال تھے اور میری طرح بہت سے افراد کے لیے انتہائی معلومات افزا! ایران کے پیچیدہ اور تہہ در تہہ ریاستی ڈھانچے پر انہوں نے قسط وار کئی مضامین تحریر کیے جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ جب بھی ان کے دفتر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ‘ شفقت سے پیش آ تے اور شدید مصروفیت کے باوجود ‘ پوری توجہ سے نوازتے!
حقانی صاحب کی یاد یوں آئی کہ شاعرہ اور کالم نگار سعدیہ قریشی نے اپنی تازہ تصنیف '' کیا لوگ تھے‘‘ میں ان کے حوالے سے دو مضامین لکھے ہیں۔ جن میں ان کے حوالے سے ایک عجیب و غریب واقعہ بیان کیا ہے۔ سعدیہ قریشی لکھتی ہیں کہ حقانی صاحب کی صحافتی خدمات کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا جا رہا تھا۔اس میں پنجاب حکومت کا تعاون بھی شامل تھا۔مہمانوں کی فہرست مرتب کی جا رہی تھی جس میں ادب ‘ صحافت اور سیاست کے بڑے بڑے نام شامل تھے۔ کچھ روز کے بعد معلوم ہوا کہ تقریب کا انعقاد مارچ 2010ء میں ہو گا۔ اس پر حقانی صاحب نے تقریب کے انتظامات سے منع کر دیا کیونکہ بقول ان کے ''میں مارچ 2010ء میں دنیا میں نہیں ہوں گا‘‘۔ ایک روز انہوں نے سعدیہ کو بلایا اور بتایا کہ انہوں نے اس کی‘ یعنی سعدیہ کی‘ کالموں کی کتاب کے لیے اپنی رائے لکھ دی ہے۔سعدیہ نے کہا کہ وہ کون سا کتاب چھپوا رہی ہے!اس پر حقانی صاحب نے کہا کہ جب اس کی کتاب آئے گی تو وہ موجود نہیں ہوں گے! موت سے چند ماہ پہلے حقانی صاحب نے اپنی ملکیت میں موجود اشیا تقسیم کرنا شروع کر دیں! ان کی لائبریری کا زیادہ حصہ راولپنڈی کے ایک کالج کو گیا۔انہوں نے تحائف میں ملے ہوئے قیمتی پارچہ جات بھی تقسیم کر دیے۔سعدیہ لکھتی ہیں کہ حقانی صاحب نے اپنی خود نوشت مکمل کر لی تھی جو ان کی وفات کے بعد ابھی تک شائع نہیں ہوئی۔حقانی صاحب کی خود نوشت تاریخ کی ایک اہم گواہی ہو گی۔ اس کا شائع ہونا بہت ضروری ہے! نہیں معلوم اس کا مسودہ کس کے پاس ہے! جس کے پاس بھی ہے‘ اس کی خدمت میں گزارش ہے کہ اسے شائع کر کے منظر عام پر لائے کیونکہ یہ امانت ہے جو حقانی صاحب کے قارئین اور دلدادگان تک پہنچنی چاہیے۔
سعدیہ قریشی نے دیگر مشاہیر کے ضمن میں کچھ دلچسپ واقعات سنائے ہیں جنہیں سبق آموز بھی کہا جا سکتا ہے۔ منو بھائی نے اپنے ماموں‘ مشہور شاعر ظہور نظر کے بارے میں کہا کہ وہ جب بھی میرے پاس آتے ‘ ان کی جیبوں سے کئی قسم کی پرچیاں برآمد ہوتیں۔ان سب پرچیوں پر دُکھی لوگوں کے کام لکھے ہوتے۔میں کہتا ماموں کیوں مصیبت میں پڑے رہتے ہو‘ آرام سے شاعری کرو‘ یہ غریبوں کے مسائل حل کرنے کے لیے نہیں ہوتے‘ نظمیں لکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ماموں ایک شگفتہ سی گالی دے کر کہا کرتے ایسی نظمیں منکر نکیر کی سمجھ میں نہیں آئیں گی پتر جی !!
بلقیس ایدھی کے بارے میں سعدیہ لکھتی ہیں کہ انہوں نے بھارت کی ہندو لڑکی گیتا کو محبت سے سنبھالا۔ پھر اس کے ماں باپ کو ڈھونڈا ۔پھر اسے ماں باپ کے پاس چھوڑنے خود بھارت گئیں۔ وہ بھارتی سرکار کی مہمان تھیں! بھارتی حکومت نے انہیں ایک کروڑ بھارتی روپوں کی پیشکش کی۔ اماں بلقیس نے بے نیازی سے جواب دیا نہیں ! ہم حکومتوں سے کچھ نہیں لیتے آپ ان پیسوں کو بھارت میں لاوارث بچیوں کی خدمت اور فلاح پر لگا دیں۔
منیر نیازی کے ساتھ پہلی ملاقات میں سعدیہ نے ان سے پوچھا ''کیسے ہیں آپ؟‘‘منیر نیازی نے اس احوال پُرسی کا عجیب و غریب جواب دیا '' عمروں کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہم سب ایک جیسے ہیں‘‘۔ ملک سے باہر ایک بار منیر نیازی نے اپنے میزبان سے پوچھا یہاں کوئی جھیل ہے ؟ انہوں نے پوچھا کیوں خیریت ہے! کیا آپ جھیل کی سیر کرنا چاہتے ہیں ؟ منیر صاحب نے کہا نہیں! جہاں جاتا ہوں وہاں کے شاعر ادیب اپنی کتابیں پیش کرتے ہیں۔ یہ ساری کتابیں جھیل میں پھینکنا چاہتا ہوں! ایک سوال کے جواب میں منیر نیازی نے کہا '' میں زندگی میں بہت بار عشق میں مبتلا ہوا۔ ضروری نہیں کہ عشق پوری شخصیت سے ہو۔ بہت پرانی بات ہے۔ ریل کے سفر میں کسی کو دیکھا۔ شاید پورا چہرا بھی دکھائی نہیں دیا۔ بس ایک تِل پر نگاہ پڑی! یہ منظر میرے اندر اُتر گیا۔بعض اوقات آپ لمحہ بھر کو ایک منظر دیکھتے ہیں مگر آپ کے اندر زمانوں تک اس منظر سے ملاقات ہوتی رہتی ہے! میں حُسن کے ایسے کئی مناظر کا گرفتار رہا ہوں! اسی عشق سے میری شاعری جنم لیتی ہے!‘‘
طارق عزیز کے حوالے سے سعدیہ قریشی نے بہت دردمند دل کے ساتھ جو کچھ لکھا ہے‘ وہ‘ میرے علاوہ ‘ بہت سے دلوں کی آواز ہے ''طارق عزیز اور نیلام گھر ایک دبستان میں ڈھل چکے تھے‘جو ذہن سازی کرتا ہے اور سکھاتا ہے۔طارق عزیز نام کے ساتھ سینئر اینکر لکھنے والو! خدا کے لیے اس کے قدو قامت کو پہچانو!اینکر والی مخلوق تو جدید دور کی پیداوار ہے جس کا ادب سے تعلق ہے نہ حرف کی حرمت کا پتہ نہ تلفظ سیدھا نہ اپنی کوئی سوچ!جبکہ اینکرز کے اس ہجوم کے مقابل طارق عزیز ایک ادارہ تھا! اردو تلفظ اور الفاظ کی نشست و برخاست کا استاد تھا!