کشور ناہید سے پہلا تعلق یکطرفہ تھا۔ ہمارا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ کتابیں خریدنے کی استطاعت کم تھی! چنانچہ لائبریریوں میں بیٹھ کر پسندیدہ شاعری کے نوٹس اسی طرح بناتے تھے جس طرح درسی کتابوں کے بناتے تھے۔ جوش اور عدم کے نوٹس بنائے۔ احمد فراز کی ''درد آشوب‘‘ کے بھی !! میرا جی کے بھی ! وہی زمانہ تھا جب کشور ناہید کی غزلیات کا مجموعہ '' لبِ گویا‘‘ آیا۔ ہم نے پڑھا۔ چکرائے۔ بالکل نئی قسم کی شاعری تھی۔ اب تو ہر شاعرہ نسائی لہجے کا لاکٹ اپنے گلے میں ڈال لیتی ہے اور نقاد حضرات کا تو کیا ہی کہنا! نسائی لہجے کی بانی شاعرات کے ڈھیر ہی لگا دیے۔ مگر امرِ واقعہ یہ ہے کہ نسائی لہجے کی ابتدا اِ س عہد میں کشور ناہید نے کی!ذرا ساٹھ کی دہائی کو ذہن میں لائیے اور یہ اشعار دیکھیے ؛
کچھ یوں بھی زرد زرد سی ناہیدؔ آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھِلتا ہوا نہ تھا
سر کو جس کے سامنے ڈھکنا بہت
دیکھ کر اُس شخص کو ہنسنا بہت
شام ہوتے ہی سنورتا ہے مری آنکھوں میں
یہ نظارہ ہی مجھے آگ بنا دیتا ہے
آپا سے براہ راست رابطہ اسّی کی دہائی میں ہوا! تب وہ''ماہِ نو ‘‘ کی ایڈیٹر تھیں! ہم سب جانتے ہیں کہ ماہِ نو ایک ادبی جریدہ ہے جو سرکار کی ملکیت میں ہے۔ اس کے سنہری ادوار صرف دو تھے۔ پہلا ‘ جب رفیق خاور اس کے مدیر تھے۔رفیق خاور کون تھے؟ ہم میں سے اکثر کو نہیں معلوم! بہت بڑے ادیب تھے اور لسانیات کے ماہر! اردو میں پہلا تھیسارس انہی کا کارنامہ ہے! پروفیسر رؤف امیر مرحوم نے ان کے فن اور شخصیت پر پی ایچ ڈی بہت محنت سے کی اور اس حوالے سے کئی بار کراچی بھی گئے۔ یہ مقالہ ‘ نہ جانے اب کہاں ہے۔ اسے افادہ عام کے لیے چھپنا چاہیے۔
ماہِ نو کا دوسرا ‘ اور تاحال آخری‘ سنہری دور وہ تھا جب کشور ناہید ایڈیٹر تعینات تھیں۔ روٹین میں مَیں نے پہلے کی طرح ایک غزل یا نظم بھیج دی۔ مگر اب کے وہاں ایڈیٹر ہاتھ میں مولا بخش لیے براجمان تھیں! اپنے زمانۂ ادارت میں آپا نے مجھ جیسے طالب علموں سے‘ مار کُٹ کر‘ اتنا کام کرایا جتنا کئی برسوں میں نہیں کیا تھا۔ مضمون لکھوائے۔ جدید فارسی شاعری کے تراجم کرائے۔ گنتی کے جو چند افراد ( زیادہ سے زیادہ تین یا چار ) بہترین ادبی جریدہ ایڈٹ کر سکتے ہیں کشور ناہید ان میں سر فہرست ہیں!
شاعری کے حوالے سے اور عورتوں کے حقوق ( Feminism)کے حوالے سے کشور ناہید کا موازنہ کس سے کیا جائے؟ پروین اعتصامی سے؟ فروغ فرخ زاد سے ؟ یا قرۃ العین طاہرہ سے؟ نہیں! اس لیے کہ یہ شاعرات ‘ یہ بہادر خواتین‘ تو آج کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں! قرۃالعین طاہرہ کو 1850ء میں موت کے گھاٹ اتارا گیا! تو یہ تقریباً حال ہی کا زمانہ ہوا! سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ کشور ناہید کا موازنہ مہستی گنجوی سے کیا جائے! وہ بارہویں صدی کی شاعرہ تھی۔گنجہ شہر آج کے آذربائیجان میں واقع ہے! پاکستان سے سیاحوں کے بہت گروپ آذربائیجان جاتے ہیں مگر گنجہ ان میں سے کسی کی فہرست میں نہیں ہے۔ فارسی شاعری کا عبقری نظامی گنجوی گنجہ ہی سے تھا! پہلا مشہور خمسہ ( پانچ مثنویوں کا مجموعہ) اسی نے لکھا۔ پھر امیر خسرو نے اور پھر جامی نے! آج کی کشور ناہید کو میں بارہویں صدی کی مہستی سے کیوں ملا رہا ہوں؟ اس لیے کہ آج کے پاکستان میں عورتوں کی سماجی پوزیشن وہی ہے جو کچھ اور ملکوں میں بارہویں صدی میں تھی! مہستی نے اُس زمانے میں جو شاعری کی ‘ خاص طور پر رباعیات! اُس کا اُس عہد میں تصور بھی محال تھا! وہ بولڈ تھی۔ بے خوف! مرد نے عورت کو جس مصنوعی اور پدر سری (male chauvinism ) کے خول میں قید کر کے رکھا ہوا تھا‘ مہستی نے اس خول کو تار تار کیا اور جو باتیں عورت نہیں کر سکتی تھی ‘ برملا کیں! بالکل کشور ناہید کی طرح! مہستی کی شاعری یہاں سنانے کی گنجائش نہیں۔ یوں بھی فارسی چونکہ ایک ہزار سال تک ہماری حکومتی اور تہذیبی زبان رہی ہے اس لیے ہمیں اس سے نابلد ہی رہنا چاہیے کہ یہی ہمارا شیوہ ہے!
کشور ناہید آج کی پا بہ زنجیر پاکستانی عورت کے دفاع کے لیے خم ٹھونک کر کھڑی ہے! مسلمان اور ایٹمی پاکستان میں عورت آج بھی کارو کاری ‘ ونی اور سوارہ کا شکار ہے! ہمارے منتخب اداروں میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بِل پیش ہو تو منہ کی کھاتا ہے! کبھی عورتوں کو قتل کر کے صحرا کی ریت میں چھپا دیا جاتا ہے تو کبھی اندھے کنوؤں میں ڈال دیا جاتا ہے اور اکثر و بیشتر ان وحشیانہ جرائم میں وہ سردار اور جاگیردار ملوث ہوتے ہیں جو حکومتوں کا حصہ ہوتے ہیں! بلو چستان کو تو چھوڑیے‘ نام نہاد ترقی یافتہ پنجاب میں یہ حالت ہے کہ بیٹی جنم دینے والی عورت کو ہسپتال ہی میں طلاق دے دی جاتی ہے یا اسے پیٹا جاتا ہے! وراثت میں عورت کے جائز شرعی حصے کا معاملہ ہو تو کیا عمامے ‘ قبائیں اور تسبیحیں‘ اور کیا تھری پیس سوٹ ‘ سب اپنا تھوکا ہوا چاٹتے ہیں اور بیٹیوں اور بہنوں کو وراثت سے محروم کرتے ہیں۔ اس اسلامی ملک میں قرآن پاک سے اتنی محبت کی جاتی ہے کہ بیٹیوں کی شادیاں تک قرآن پاک سے کی جاتی ہیں! جس شخصیت نے تسلسل کے ساتھ اور دلسوزی اور بہادری کے ساتھ اس بیمار مائنڈ سیٹ کے خلاف توانا آواز اٹھائی ہے وہ کشور ناہید ہے! اس کی نئی کتاب (پیرہن تار تار ) میں نور مقدم پر نظم ہے جو یقینااردو شاعری میں نور مقدم پر پہلی نظم ہے۔ مہسا امینی پر بھی پہلی نظم اسی کتاب میں ہے۔ یہ وہ لڑکی تھی جسے سر پر دوپٹہ نہ کرنے کی پاداش میں مار دیا گیا! کشور کی یہ نئی نظمیں ایک ڈائری کی طرح ہیں۔ یہ نوحہ خوانی ہے! اور نوحے ن م راشد اور میرا جی کی نظموں کی طرح علامتی اور گنجلک نہیں ہو سکتے! یوں بھی آئی ایم ایف ‘ طالبان کے مفتی ‘ ایدھی‘ یوکرین اور سیلاب زدگان پر لکھی ہوئی نظمیں صاف ‘ سیدھی اور غیر علامتی ہی ہونی چاہئیں تا کہ دل میں اُتر جا ئیں! ہاں ایک نظم '' بھروسہ‘‘ پڑھ کر ہنسی آئی کہ اس کا بالواسطہ تعلق مجھ سے بھی ہے۔ نظم کے بقول‘ افتخار عارف صاحب نے آپا کو چھڑی بھیجی ہے اور آپا ان سے پوچھ رہی ہیں کہ بتاؤ میں کتنے دن چھڑی کے ساتھ رہوں گی؟ اس لکھنے والے کے والد مرحوم جب ضعیف ہو گئے تو میں ان کے لیے واشنگٹن سے ایک چھڑی لایا جو فولڈ ہو کر چھوٹی سی ہو جاتی تھی۔کچھ عرصہ کے بعد وہ لاٹھی کو‘ اور مجھے بھی‘ چھوڑ کر چلے گئے! میں جب بھی لاٹھی دیکھتا تو ڈرتا کہ یہ میرا انتظار کر رہی ہے! ایک دن جناب افتخار عارف میرے گھر آئے ہوئے تھے تو میں نے وہ چھڑی ان کی خدمت میں پیش کر دی۔ غالباً وہ اپنی چھڑی ساتھ نہیں لائے تھے۔ اب میں مطمئن ہو گیا کہ چھڑی نظر نہیں آئے گی۔ مگر چند ہی دن گزرے تھے کہ افتخار صاحب کا ڈرائیور چھڑی وا پس کر گیا!!
کشور ناہید نے بہت کام کیا۔ شاعری میں بھی اور نثر میں بھی! بڑے بڑے ثقافتی اداروں کی سربراہ بھی رہیں! مگر ایک کام ان پر قرض ہے ! انہوں نے بڑے بڑے‘ مشہور اور باعزت ادیبوں اور شاعروں کو قریب سے دیکھا ہے۔ سفر میں بھی اور حضر میں بھی!کشور ناہید نے بے شمار ایسے واقعات کو دیکھا ہے جو ان بڑے لوگوں کو '' چھوٹا‘‘ ثابت کرتے ہیں ! اور اصل چہرہ دکھاتے ہیں! التماس ہے کہ وہ ازراہِ کرم یہ سب کچھ لکھ ڈالیں ! صرف ادب کی نہیں‘ ادیبوں کی تاریخ کا جاننا بھی ضروری ہے!
( کشور ناہید کی نئی کتاب کی تقریب میں پڑھا گیا)