ظفر اقبال کو اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے کمالِ فن (Lifetime achievement)ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا ہے ! یہ اور بات کہ ظفر اقبال کو کمالِ فن ایوارڈ مدتوں پہلے مل چکا۔ یہ ایوارڈ اس کے پڑھنے والوں‘ اس کے چاہنے والوں اور اس کے نہ چاہنے والوں نے دیا ہے۔ یہ لطیفہ ہے نہ مبالغہ‘ نہ محض عبارت آرائی کہ جہاں جہاں اُردو شاعری پڑھنے والے‘ اور اُردو شاعری کا ذوق رکھنے والے موجود ہیں‘ وہاں ظفر اقبال کے حامی اور مخالف دونوں پائے جاتے ہیں! ایک مرحوم ادیب کے بارے میں سنا کہ وہ دوسروں کی منت سماجت کر کے اپنے خلاف مضامین لکھواتے تھے کہ متنازع ٹھہریں اور یوں شہرت کے گھوڑے کو مہمیز لگے۔ ظفر اقبال کو یہ مقام بغیر کہے مل گیا۔ شورش کاشمیری نے کہا تھا؎
شورشؔ ترے خلاف زمانہ ہوا تو کیا
کچھ لوگ اس جہاں میں خدا کے خلاف ہیں
ظفر اقبال کی خوش بختی ہے کہ اس کے حق میں تو بہت سوں نے لکھا مگر اس کے قد کو چھوٹا کرنے کیلئے اور اس کی تخفیف اور تقلیل کیلئے بھی بہت زور لگایا گیا یہاں تک کہ خود ظفر اقبال کو کہنا پڑا ؎
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت‘ خاک اُڑا اور بہت
بہت شور مچایا گیا اور بہت خاک اُڑائی گئی۔ اس کی شاعری کی چھت پر خورد بینیں نصب کی گئیں۔ اغلاط تلاش کر تے کرتے بصارتیں ضعف کا شکار ہو گئیں ‘ دماغ شل ہو گئے مگر ظفر اقبال کی شاعری خوشبو کی طرح اُردو دنیا میں پھیلتی ہی گئی۔ سقم سے مکمل پاک صرف اللہ کا کلام ہے۔ کسی بھی انسان کے کلام میں غلطی کا امکان موجود ہے۔ ظفر اقبال کے کلام میں بھی کمزوریاں ہیں۔ اس لئے کہ ہر چمنستان میں پھولوں کیساتھ کانٹے موجود ہیں! اب یہ چمنستان کی سیر کرنیوالے کے ذوق‘تربیت اور ظرف پر منحصر ہے کہ وہ پھولوں پر ہاتھ رکھتا ہے یا کانٹوں کا انتخاب کرتا ہے۔ بقول شاعر
تفاوت است میانِ شنیدنِ من و تُو
تُو بستنِ در و من فتحِ باب می شنوم
آپ کے سننے اور میرے سننے میں فرق ہے۔ آپ کو دروازہ بند ہونے کی اور مجھے کھلنے کی خبر ملتی ہے۔
یوں بھی ظفر اقبال نے کبھی برتری کا دعویٰ نہیں کیا۔شاعری کی روایت میں بڑے بڑے مدعی گزرے ہیں۔ ''در مدحِ خود‘‘ اور ''درستائشِ خویشتن‘‘ سے بڑے شعرا کے دیوان اَٹے پڑے ہیں۔فیضی کا دعویٰ دیکھیے ؎
ز نوکِ خامہ من نیم نقطہ بیرون نیست
شروحِ انفس و آفاق در متونِ من است
میرے قلم کی نوک سے آدھا نقطہ بھی باہر نہیں۔ میری تحریروں میں انفس و آفاق کی تشریحات ملتی ہیں۔ مومنؔ نے دعویٰ کیا کہ
مومنؔ اسی نے مجھ پر دی برتری کسی کو
جو پست فہم میرے اشعار تک نہ پہنچا
اقبالؔ نے بھی کہا
حلقہ گردِ من زنید اے پیکرانِ آب و گِل
آتشی در سینہ دارم از نیاگانِ شما
(اے وہ کہ تمہارے وجود پانی اور مٹی سے بنے ہوئے ہیں! میرے گرد جمع ہو جاؤ!میرے سینے میں جو آگ جل رہی ہے وہ میں نے تمہارے ہی اجداد سے لی ہے)۔ ظفر اقبال نے بھی دعویٰ کیا کہ اس نے پرانے کوچہ بازار کو خیر باد کہہ کر نئے راستے اختیار کیے مگر اس نے اپنے بعد آنے والوں کو خوش آمدید بھی کہا۔ اس نے انکسار سے بھی کام لیا اور تسلیم کیا کہ ؎
میں نے کب دعویٰ کیا ہے سر بہ سر باقی ہوں میں
پیشِ خدمت ہوں تمہارے جس قدر باقی ہوں میں
اُردو شاعری میں ظفر اقبال کا مقام کسی کے اعتراف کا محتاج ہے نہ کسی کی تنقیص یا انکار سے کم ہو گا ! اسکی شاعری ایک وسیع و عریض سرسبز و شاداب وادی ہے جس میں فضائیں آزاد ہیں اور ہوائیں عطر بیز! اسنے بے جا بندشوں اور ناروا پابندیوں سے طائرِ شعر کو آزاد کیا۔ غزل کی ہیئت کو قدامت سے چھڑایا اور مضامینِ تازہ کے تو انبار لگا دیے۔ غزل کو وہ جدھر چاہتا موڑ کر لے جاتا ہے۔ اسی لیے قدامت پرستی نے مخالفت کی۔ اسنے نئے تلازمے برتے۔ کئی اسالیب کو و جود میں لایا۔ ایسی شاعری غزل میں پہلے کہاں تھی
٭گر کر ٹھنڈا ہو گیا ہلتا ہاتھ فقیر کا
جیبوں ہی میں رہ گئیں سب کی نیک کمائیاں
٭زندگی کے گھپ اندھیروں میں کہیں پر تھوڑی تھوڑی
تیرے ہونٹوں کی چمک سے روشنی ہونے لگی ہے
٭دل نے خود پہلی محبت کو سبوتاژ کیا
دوسری کے لیے‘ اور دوسری ہے بھی کہ نہیں
٭ہوا کے ہاتھ پہ رکھا ہوا معاملہ ہے
تو یہ ہمارا تمہارا بھی کیا معاملہ ہے
٭لوہے کی لاٹھ بن کے رہے عمر بھر تو ہم
اب ٹوٹنے لگے تو سرہوں کی گندل ہوئے
ظفر اقبال واحد سینئر شاعر ہے جس نے جونیئرادیبوں اور شاعروں کو اپنی شاعری پر لکھنے کی دعوت دی اور جنہوں نے کڑی تنقیدکی ان کی بھی حوصلہ افزائی کی! اس کی کلیات میں ان سب کی تحریریں شامل ہیں۔ یہ اعزاز مجھے بھی حاصل ہے اور یہ اعزاز بہت بڑا اعزاز ہے۔ '' آبِ رواں‘‘ اس کا پہلا مجموعہ چھپا تو میں سکول کا طالبعلم تھا۔ پھر وہ وقت آیا کہ اس نے مجھے حکم دیا کہ اس کے نئے ایڈیشن کیلئے فلیپ لکھوں۔ کہاں میں! اور کہاں ''آبِ رواں‘‘ کیلئے فلیپ! ہاتھ جوڑ دیے مگر حکم نہ ٹلا۔ نئے ایڈیشن میں اس نے اپنا لکھا ہوا فلیپ ہٹا دیا اور میری تحریر لگا ئی۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ فلیپ نقل کر رہا ہوں ''دیو سائی دنیا کا بلند ترین میدان ہے۔ میلوں لمبا اور کوسوں چوڑا۔ جولائی اور اگست میں یہاں پھول کھلتے ہیں۔فرسنگ در فرسنگ ہر رنگ کے پھولوں کے قالین بچھ جاتے ہیں۔اُس میدان میں ندیاں ہیں اور جھیلیں! خوبصورت پرندے ہیں اور لہکتے ہوئے ٹیلے۔ ہواؤں کے تخت ہیں اور بادلوں کے محل۔آسمان پر دریچے ہیں اور فضا میں اَن دیکھے دیاروں کی خوشبو اور ہر طرف دلگیر آہٹیں۔ بس یہی ظفراقبال کی شاعری ہے ! اور جب وہ کہتا ہے کہ دھندلکے اور دھندلاہٹیں اور ابر آلود تصویریں اور الجھے سیدھے مناظر اس نے ہواؤں پرلکھے ہوئے دیکھے ہیں اور دوسروں کو دکھانے چلا ہے تو اصل بات ہی یہ ہے کہ دکھانے کی اس مہم میں جو جان جوکھوں کا کام تھا‘وہ سراسر کامیاب رہا ہے۔ بہت سوں نے شعری سفر اس کے ساتھ شروع کیا اور اب وہ متروکاتِ سخن کی طرح تاریخِ ادب کا حصہ ہیں۔ بہت سے اس کے بعدآئے اور ان کا کہیں نشان بھی نہیں نظر آتا لیکن ظفر اقبال پیش منظر پر اسی طرح چھایا ہوا ہے جس طرح کہ تھا۔ اس نے یکے بعددیگرے کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے اور کر رہا ہے۔اور مقدار کا یہ عالم ہے کہ اس کا کیسہ بھرا ہوا ہے ‘ اس قدر کہ ہمعصر اُردوشاعری میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ا س گئے گزرے دور میں اُس نے نظامی‘ خسرو اور جامی کے خمسوں اور رومی اور بیدل کے دواوین کی یاد تازہ کر دی ہے۔
'' آبِ رواں ‘‘ پہلی محبت کی طرح ہے۔ بعد کی محبتیں جتنی بھی ہنگامہ خیز ہوں پہلی محبت کی تازگی اور مٹھاس اور کسک جوں کی توں رہتی ہے۔'' آب ِرواں ‘‘ کے کتنے ہی اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں۔آغاز اور پختگی کا یہ سنگم اُردو شاعری سے پیار کرنے والوں کے دلوں میں جا گزین ہے۔
ناچیز ہے صد مہرِ سلیماں مرے نزدیک
بلقیس کے ہونٹوں کا نگیں ہے مرے دل میں