یہ ماتم بہت پرانا ہے۔ نوحہ خوانی اور سینہ کوبی اس پر بہت ہو چکی۔ بہت ہاتھ جوڑے گئے۔ بہت منت سماجت کی گئی۔ بقول بہادر شاہ ظفر '' کیے لاکھ فریب ‘ کروڑ فسوں‘‘ مگر کسی پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہی لچھن ہیں جو تھے۔
اس ناسور کو لاہور کے ایک معروف تعلیمی ادارے نے تازہ کر دیا ہے۔ یہ دو دن پہلے کی بات ہے۔ نگران وزیر اعظم اُس ادارے میں تشریف لے گئے تا کہ طلبہ و طالبات سے ملاقات کر یں! یہ خواہش وزیر اعظم کی تھی یا تعلیمی ادارے کی ‘ اس ضمن میں راوی خاموش ہے! وزیر اعظم ‘ مبینہ طور پر‘ وقتِ مقررہ سے پچاس منٹ تاخیر سے پہنچے! ایک طالب علم نے ‘ بھری بزم میں ‘ وزیر اعظم سے دیر سے آنے کا شکوہ کر ڈالا کہ سٹوڈنٹس اور اساتذہ انتظار کرتے رہے اور یہ کہ یہ علم کی اور ادارے کی ناقدری ہے! یہاں‘ ضمناً‘ وزیر اعظم کو یہ کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ انہوں نے اپنے پروگرام میں سوال و جواب کا سیشن رکھا! اس کالم نگار کو یاد نہیں کہ اس سے پہلے کسی حکمران نے یہ جرأت اور یہ خوش اخلاقی دکھائی ہو! حکمران یونیورسٹیوں میں یا دوسرے تعلیمی اداروں میں جاتے ہی کہاں ہیں! غلطی سے چلے جائیں تو تقریر کر کے یہ جا وہ جا۔ ہم عصر تاریخ میں کاکڑ صاحب پہلے حکمران ہیں جنہوں نے طلبہ و طالبات سے براہ راست مکالمہ کیا ہے اور تند و تیز سوالوں کے جواب خندہ پیشانی سے دیے ہیں! نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب کا تو خیر تعلیمی اداروں سے مکمل پرہیز تھا۔عمران خان صاحب لاہور کے ایک کالج میں تشریف لے گئے تھے تاہم سوال جواب کا سیشن نہیں ہوا تھا۔ کسی بھی تقریب کی روح ‘ خواہ کسی حکمران کے ساتھ ہو یا کسی سکالر کے ساتھ‘ تقریب کا وہ حصہ ہوتا ہے جو سوال و جواب پر مبنی ہو۔ پہلے بھی ایک بار عرض کیا کہ استاد اور واعظ میں یہی فرق ہے کہ استاد سوال پوچھنے پر اکساتا ہے۔ مکالمہ کرتا ہے جبکہ واعظ ‘ وعظ کر کے چلا جاتا ہے۔ اس سے یہ پوچھنا ممکن ہی نہیں ہوتا کہ اسّی فُٹ کی حور کا ذکر کس کتاب میں ہے اور سند کیا ہے ؟ جبھی تو حافظ سے لے کر فیض تک اور انوری سے لے کر عدم تک سب شعرا نے واعظ کی شکایت کی ہے مگر استاد کے حوالے سے کسی نے کوئی منفی بات نہیں کی۔ وزیر اعظم نے ایک صحت مند روایت کا آغاز کیا ہے۔ اس کی تعریف کرنی چاہیے۔ یہ اور بات کہ ہم ‘ من حیث القوم ‘ تماش بین بھی ہیں اور اذیت دے کر خوش ہونے والے ( Sadist) بھی ہیں۔سوشل میڈیا پر جشن برپا ہے کہ وزیر اعظم طلبہ کے نرغے میں آگئے اور طلبہ نے یہ کر دیا اور وہ کر دیا۔ افسوس!
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں
وزیر اعظم پچاس منٹ تاخیر سے پہنچے اور طالب علم نے اس کی نشاندہی کی! جس معاشرے میں ہر موقع پر دو تین بلکہ چار پانچ گھنٹوں کی تاخیر معمول کی بات ہو ‘ وہاں صرف پچاس منٹ کی تاخیر پر اعتراض کرنا‘ وہ بھی ملک کے وزیر اعظم پر!! بڑی بات ہے! اس طالب علم کو بھی کریڈٹ دینا چاہیے کہ اس نے ایک تالاب میں‘ جس کا کائی زدہ پانی مدتوں سے ٹھہرا ہوا ہے‘ پتھر پھینکا ہے! حکومتی سیکٹر ہے یا نجی سیکٹر‘ یا عام آدمی‘ وقت کی پابندی کا ہمارے ہاں تصور ہی عنقا ہے۔ اوپر سے شروع کیجیے۔ کیا وزرا اپنے دفتروں میں وقت پر پہنچتے ہیں؟ اور بیورو کریٹ؟ تحصیل کے اہلکاروں سے لے کر کمشنر تک‘ تھانیدار سے لے کر ایس پی تک‘ سب اپنی مرضی سے آتے ہیں۔ کسی گاؤں کے باشندے سے پوچھئے ‘ کیا اسے کبھی پٹواری اپنے دفتر میں ملا ہے؟ وفاقی سیکرٹریٹ میں کسی دن جا کر تماشا دیکھیے۔ گریڈ بائیس کے سیکرٹری صاحب کس وقت آتے ہیں ؟ اور ان کے ماتحت؟ بھاری اکثریت دس بجے کے لگ بھگ آتی دکھائی دے گی! دفتر آجانے کے بعد بھی کیا ضروری ہے کہ وہ اپنی نشست پر موجود ہوں! رہی ہماری قومی ایئر لائن اور ریلوے‘ تو وقت کی پابندی کا ان سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا پاپائے روم کا نماز اور روزے سے ! اس حوالے میں یہ دونوں ادارے آخری حد تک بدنام ہیں۔ ہمارے ہسپتالوں میں وقت کی پابندی کا داخلہ سختی سے منع ہے۔ڈاکٹر خدا بنے ہوئے ہیں۔ اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا! رہے پرائیویٹ ڈاکٹر‘ تو جو وقت مریض کو دیا جاتا ہے‘ اُس کا اُس متبرّک وقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا جس پر مریض ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہو گا! راولپنڈی صدر‘ پشاور روڈ پر ایک معروف نیورو فزیشن ہیں جن کے مطب میں مریض کو کم از کم‘ جی ہاں ! کم از کم‘ چھ گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یہ تجربہ مجھے کئی بار ہوا۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ نزدیک ہی ایک قریبی عزیز رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں ریزہ ریزہ ہونے کے بجائے انتظار کے سات آٹھ گھنٹے ان کے گھر میں بہتر طور پر گزر جاتے تھے۔
تلخ ترین سچائی یہ ہے کہ اس معاملے میں سب سے بڑا مجرم عام آدمی ہے۔ میں‘ آپ‘ ہم سب‘ اس جرم میں شریک ہیں۔ اس جرم کے ثبوت کے لیے کسی گواہ کی ضرورت ہے نہ بیان کی! سب کچھ دن کی روشنی کی طرح عیاں ہے۔ شادی کی تقاریب سے بات شروع کرتے ہیں۔ وقت کے ضیاع کی مہذب دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی۔دعوت نامے میں جو وقت درج کیا جاتا ہے اسے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ وقت پر پہنچنے والا ایک آدھ ہو بھی تو احمق لگتا ہے۔ ساڑھے سات بجے کے بجائے مہمان دس بجے آتے ہیں یا دس بجے تک آتے رہتے ہیں۔ شیروانیاں اور نکٹائیاں پہنے ‘ ایک چپاتی اور چاول کی ایک پلیٹ کے لیے گھنٹوں بے وقوفوں اور ہونّقوں کی طرح‘ منہ کھول کر بیٹھے رہتے ہیں۔ رات کے ایک بجے گھر واپس پہنچتے ہیں۔ پچانوے فیصد شادیوں میں برات گھنٹوں راہ دکھلاتی ہے۔ لڑکی والے اس اذیت کا بدلہ ولیمے کی تقریب میں لیتے ہیں اور خوب خوب انتظار کراتے ہیں۔ اس صورتحال میں تبدیلی کا امکان دور دور تک نہیں۔ مستقبل بعید میں بھی اصلاح کی کوئی صورت نہیں دکھائی دیتی۔ہم رات دن جن اہلِ حرفہ کے محتاج ہیں‘ ان کے رویّے پر غور کر لیجیے۔ راج‘ بڑھئی‘ ٹھیکیدار‘ مزدور‘ بجلی والا‘ پلمبر‘ رنگساز ‘شیشے والا‘ صوفہ ساز‘ درزی‘ دھوبی‘ مکینک ‘ کیا کوئی ایک بھی ایسا ہے جو وقت طے کر کے اُس وقت پر پہنچ جائے؟ یا جس دن اس نے کام کر کے لانا ہے‘ لے آئے؟ گھروں میں جو دعوتیں ہوتی ہیں ان میں مہمان‘ میز بانوں کو خوب ذلیل کرتے ہیں اور طے شدہ وقت کو خاطر میں لانے کا سوچتے تک نہیں! کل جب یہ میزبان‘ کسی کے ہاں مہمان بن کر جاتا ہے تو اس سے بھی زیادہ تاخیر سے جاتا ہے۔ معذرت تک کوئی نہیں کرتا کیونکہ گھنٹوں بلکہ پہروں کی تا خیر روزمرہ کی روٹین کا حصہ ہے!یہاں تک کہ بہت سے لوگ افطار پارٹیوں میں بھی وقت پر نہیں پہنچتے! بہت سے ایسے احباب اور اقارب ہیں جو تاخیر سے آنے کی وجہ سے بلائے جانے کے مستحق ہی نہیں مگر سماجی جبر بائیکاٹ کے راستے میں حائل ہے!! ایسے حضرات ‘ شرم و حیا سے کوسوں دور ‘ خوب ٹھسّے سے انتظار کراتے ہیں۔ زیادہ درد ناک پہلو یہ ہے کہ جو پاکستانی یورپ‘ امریکہ اور آسٹریلیا میں رہتے ہیں وہ سفید چمڑی والوں کی تقریب میں تو وقت کی پابندی کرتے ہیں مگر اپنی تقاریب میں وہی پاکستانی انداز ہے۔ میزبان کو خوب انتظار کراتے ہیں۔ کوئی معذرت ہوتی ہے نہ شرمندگی ! شاید حب الوطنی کا تقاضا ہے یا '' ہوم سِک نس ‘‘ دور کرنے کا نسخہ ہے!