جسے تم گوشت پوست کا بنا ہوا آزاد نوجوان سمجھ رہے ہو‘ وہ گوشت پوست کا بنا ہوا تو ہے مگر آزاد نہیں! اس کے دیدہ زیب لباس پر نہ جاؤ۔ اس کے چمکدار جوتوں سے بھی دھوکا نہ کھاؤ۔ اس نے سر پر قیمتی برانڈ کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے‘ اسے بھی نظر انداز کرو! یہ خوش پوش‘ وجیہ نوجوان اصل میں بچہ جمورا ہے! اس کی اپنی مرضی کوئی نہیں! یہ اپنے استاد کا مطیع و فرمانبردار ہے۔ یہ معمول ہے اور اپنے عامل کا غلام ہے! اسے اس کا عامل بیٹھنے کا حکم دیتا ہے تو بیٹھ جاتا ہے۔ کھڑا ہونے کا کہتا ہے تو کھڑا ہو جاتا ہے۔ سو جانے کا حکم دیتا ہے تو لیٹ کر خراٹے لینے لگتا ہے۔ یوں سمجھو انسانی شکل میں یہ روبوٹ ہے۔ آج کی دنیا میں روبوٹ انسانی شکل ہی کے بنائے جا رہے ہیں مگر صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسان نہیں‘ روبوٹ ہیں اور انہیں انسانی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ کوشش سو فیصد کامیاب نہیں ہوئی! اس کے برعکس بچہ جمورا ایک ایسا روبوٹ ہے جو ایک سو ایک فیصد انسان ہے!
بچے جمورے کے بارے میں جو بات لازماً یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس کا عامل بدلتا رہتا ہے۔ ہر نیا عامل اسے اپنے خیالات کے حساب سے تربیت دیتا ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب یہ اپنے آپ کو اس کی منشا کے مطابق ڈھال لیتا ہے تو عامل بدل جاتا ہے۔ نیا عامل اسے نئے راستے پر لگاتا ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ اس کا عامل سبز رنگ کا دلدادہ تھا۔ اس نے اسے مکمل طور پر سبز پوش بنا دیا۔ لباس‘ جوتے‘ ٹوپی‘ گلو بند‘ دستانے‘ جرابیں سب سبز رنگ کے پہنائے۔ چھتری بھی سبز رنگ کی دی۔ یہاں تک کہ روٹی اور سالن بھی سبز رنگ کا ہوتا تھا۔ ہر طرف سبز رنگوں کی بہار تھی! پھر ایک اور عامل آیا۔ اس عامل کو پِلّے بہت پسند تھے۔ کچھ کچھ خواجہ سگ پرست جیسا تھا۔ اسے سبز رنگ سے چِڑ تھی۔ اس نے آکر ریورس گیئر لگایا۔ پہلے بچہ جمورا ہر شے میں سبز رنگ بھر رہا تھا‘ اب ہر شے سے سبز رنگ نکالنے لگا۔ سبز لباس‘ سبز جوتے‘ سبز ٹوپی‘ سبز دستانے‘ سبز جرابیں‘ سب غائب ہو گئے۔ روٹی‘ سالن‘ سلاد سب سے سبز رنگ ہٹ گیا۔
ایک اور عامل آیا تو اس نے ایک مجسمہ کھڑا کیا۔ اب بچے جمورے کو حکم ملا کہ اس مجسمے کی پرستش کرنی ہے۔ بچہ جمورا نئے احکام کی تعمیل میں لگ گیا۔ وہ ہر روز مجسمے کو جھاڑتا‘ پونچھتا۔ اسے اچھے اچھے کپڑے پہناتا۔ اس کا طواف کرتا۔ اس پر گلاب کا عرق چھڑکتا۔ اس کے گلے میں تازہ‘ خوشبودار پھولوں کے ہار ڈالتا! اس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھتا! رات دن اس کی تعریفیں کرتا۔ اس کے قصیدے پڑھتا۔ اگر کوئی اس مجسمے کو ناپسند کرتا تو بچہ جمورا اس سے بھِڑ جاتا۔ اس کی پٹائی کرتا اور اس کا جینا دوبھر کر دیتا۔
بچے جمورے کی قسمت نے ایک اور پلٹا کھایا۔ اب جو عامل آیا اس نے مجسمے کو سخت ناپسند کیا اور بچے جمورے کو حکم دیا کہ اسے عبرت کا نشان بنا دو۔ بچہ جمورا تعمیلِ حکم کے لیے تیار تھا۔ وہ مجسمے کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اسے خوب برا بھلا کہا۔ اس کے گلے سے پھولوں کا ہار اتار کر کانٹوں کا ہار پہنایا۔ مجسمے کی ناک توڑ ڈالی۔ اس کے سفید چہرے پر کالک مل دی۔ اس کے ارد گرد کوڑا کرکٹ پھیلا دیا۔ پھر ایک کِک لگائی۔ مجسمہ اوندھے منہ زمین پر آرہا۔ مگر یہ سب کچھ کرکے بھی بچے جمورے کا کام ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اس نے ان تمام لوگوں کا پیچھا کیا جو مجسمے کو پسند کرتے تھے۔ انہیں ہراساں کیا۔ کچھ کو زدو کوب کیا۔ اس کے بعد وہ انتظار کرنے لگا کہ اس کی اگلی ڈیوٹی کیا ہو گی!
منطقی سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا بچہ جمورا کبھی آزاد ہو گا یا ہمیشہ کٹھ پتلی بنا رہے گا؟ کیا ایک کے بعد دوسرا‘ دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا عامل اسے اپنی انگلیوں پر نچاتا رہے گا؟ کیا وہ اپنے دماغ کو کبھی استعمال نہیں کرے گا‘ یا نہیں کر سکے گا؟ اس سوال کا جواب مختلف دانشور مختلف انداز میں دیتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ بچہ جمورا ذہنی طور پر ابھی پختہ نہیں ہوا یعنی:
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
ابھی اسے عامل کی کڑی نگرانی میں مزید ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ اگر ذہنی بلوغت کی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی اسے خود مختار کر دیا گیا تو یہ ناکام ٹھہرے گا۔ مبصرین کا ایک اور گروہ صورتحال کا ذمہ دار عاملوں کو ٹھہراتا ہے۔ ان کی رائے ہے کہ کوئی عامل بھی بچے جمورے کو اپنے دائرۂ اختیار سے باہر نہیں نکالے گا‘ نہ نکلنے دے گا۔ ایک روبوٹ نما ماتحت ملا ہوا ہے۔ کون اسے ہاتھ سے جانے دے گا! مزے ہی مزے ہیں! عامل خود ریشمی پردے کے پیچھے بیٹھا ہوتا ہے۔ جو کرنا چاہتا ہے‘ بچے جمورے سے کرا لیتا ہے۔ اتنے مثالی انتظام کو کون ختم کرنا چاہے گا! اصحابِ بصیرت کی ایک اور جماعت ان دونوں نکتہ ہائے نظر سے اختلاف کرتی ہے اور تیسری طرف اشارہ کرتی ہے۔ ان کے خیال میں اگر بچے جمورے میں خود مختار رہ کر کام کرنے کی اہلیت موجود ہے تب بھی وہ اہلیت زنگ آلود ہو چکی ہے۔ برسوں سے بلکہ دہائیوں سے وہ صرف احکام کی تعمیل کر رہا ہے۔ اب یہ رول اس کی عادتِ ثانیہ بن چکا ہے۔ اس کی حالت وہی ہے جو سٹاک ہوم سنڈروم (Stockholm syndrome) میں مغوی یا اسیر کی ہوتی ہے کہ آزادی کی تڑپ ماند پڑ جاتی ہے! صیاد اچھا لگنے لگتا ہے! ایک محفوظ ماحول ہوتا ہے‘ گرمی اور سردی سے دور! آخری ذمہ داری عامل کی ہوتی ہے‘ معمول کی نہیں! چنانچہ فریقین کا باہمی‘ غیر اعلانیہ‘ سمجھوتا ہو جاتا ہے۔
مگر اہلِ نظر کا ایک اور طائفہ ایک اور ہی بات کرتا ہے! اور یہ بات دلچسپ بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔ فرنگی ایسی چونکانے والی بات کو Intriguing کہتے ہیں۔ اس گروہ کی رائے میں عامل اور معمول دونوں ایک دوسرے سے خبردار اور ہوشیار ہیں! دونوں ایک دوسرے کے تحفظات سے آگاہ ہیں اور ایک دوسرے کے عزائم کو اچھی طرح بھانپے ہوئے ہیں! دونوں نے اپنی اپنی دفاعی لائنیں کھینچی ہوئی ہیں۔ عامل جانتا ہے کہ معمول پر تولے بیٹھا ہے اور کسی مناسب موقع کی تلاش میں ہے۔ اسے آزادی‘ جلد یا بدیر‘ حاصل کرنی ہی کرنی ہے۔ عامل یہ بھی جانتا ہے کہ تاریخ کا اپنا سفر ہے جو پیچھے کی طرف نہیں پلٹ سکتا لیکن عامل کو یہ بھی معلوم ہے کہ جو کچھ بھی ہو‘ معمول براہِ راست مخاصمت سے گریز کرے گا۔ دوسری طرف بچہ جمورا آزادی کی امنگ دل میں لیے بیٹھا ہے اور کسی ایسے لمحے کے انتظار میں ہے جب وہ عامل کے حصار سے نکل جانے میں کامیاب ہو جائے۔ دوسرے لفظوں میں فریقین چوکنے ہیں اور کھیل کے منطقی انجام کے لیے تیار! مگر دونوں محتاط ہیں اور پُرامن بقائے باہمی کا دامن بھی نہیں چھوڑنا چاہتے!
جس گروہ کی بھی رائے مانی جائے‘ ایک بات طے ہے کہ وقت ایک جگہ ٹھہر نہیں سکتا۔ تاریخ رُک نہیں سکتی! خشکی اور تری پر ہر نیا لمحہ لاکھوں تبدیلیاں لے کر آتا ہے! زمانے میں اتنا زور ہے کہ انسان یا انسانوں کے جتھے زمانے کی گردش کے سامنے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو تیز آندھی میں تنکے کی ہوتی ہے! کل کا کچھ پتہ نہیں! گنبدِ نیلوفری اگلے ثانیے میں کس رنگ کا ہو جائے گا‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا! بچہ جمورا کسی بھی وقت بچہ جمہورا بن سکتا ہے!!