انفرا سٹرکچر ضروری ہے! مگر کون سا؟

ہمارے دوست خلیل کا بیٹا امریکہ سے بہت بڑی ڈگری لے کر آیا۔ قابلیت تو اس کی مسلّمہ ہے مگر اضافی کریڈٹ اسے یہ بھی جاتا ہے کہ باپ سے ایک پیسہ نہیں لیا‘ سوائے جاتے ہوئے یک طرفہ کرائے کے۔ پڑھائی بھی کرتا رہا اور ساتھ کام بھی! اگرچہ اکثر طلبہ اسی طرح کرتے ہیں لیکن پاکستان سے ناجائز آمدنی رکھنے والوں کے بچے وہاں کام نہیں کرتے اور پڑھائی اور دیگر تمام اخراجات والدِ محترم کے لامحدود وسائل ہی سے پورے ہوتے ہیں! فرزند کی کامیابی کی خوشی میں خلیل نے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ میں بھی مدعو تھا۔ بہت یادگار فنکشن تھا۔ پورا ہال بُک کرایا گیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے شادی خانہ آبادی کی تقریب ہے۔ تقریب کے دوسرے دن میں اور خلیل کلب میں چائے پی رہے تھے۔ یہ ہم چند دوستوں کا معمول ہے کہ کوئی خاص مصروفیت نہ ہو تو شام کو مل بیٹھتے ہیں۔ باتوں باتوں میں خلیل نے تقریب کے حوالے سے بتایا کہ اسے حیرت بھی ہوئی اور دُکھ بھی! سوشل میڈیا کے اس زمانے میں جب رابطہ کرنا انتہائی سہل ہو چکا ہے‘ بہت سے لوگوں نے جو مدعو تھے‘ دعوتی پیغام کا جواب نہیں دیا۔ آج کل نرم یاد دہانی (Soft reminder) کا رواج چل پڑا ہے۔ خلیل کے بقول اس نے یاد دہانی بھی کرائی پھر بھی ایسے حضرات کی اچھی خاصی تعداد تھی جنہوں نے آخر وقت تک کنفرم کیا نہ معذرت کی‘ نہ شریک ہی ہوئے!
جو تجربہ خلیل کو ہوا ہے‘ وہ مجھے بھی بارہا ہوا ہے۔ آپ کو بھی ہوا ہو گا! یہ ایک بیرومیٹر ہے جس سے ہم اپنے معاشرے کی ذہنی پختگی ماپ سکتے ہیں! ذہنی پختگی مختلف حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔ مثلاً وقت کی پابندی‘ پیغام یا فون کال کا جواب‘ ٹریفک کے حوالے سے رویہ‘ قطار بندی‘ شکریہ ادا کرنا اور دیگر بہت سے معاملات! اصل سوال یہ ہے کہ شہری کے طور پر ایک پاکستانی کہاں کھڑا ہے؟ اگر فرد اپنے فرائض سرانجام نہیں دے رہا تو اسے کوئی حق نہیں کہ معاشرے کی شکایت کرے یا حکومت یا ریاست کا گلہ کرے! اس سے بھی بڑا ستم یہ ہے کہ ہم ذہنی ناپختگی کے ان مظاہر کو اہمیت ہی نہیں دیتے! آپ کسی سے شکوہ کریں کہ آپ نے دعوت نامے کا جواب دیا نہ ہی تشریف لائے تو وہ ہنس دے گا اور کسی مصروفیت کا بہانہ بنا دے گا مگر اسے ہر گز یہ احساس نہیں ہو گا کہ جواب نہ دے کر یا معذرت نہ کرکے اس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار شہری ہے نہ مہذب! ہم بطور فرد مکمل طور پر ناکام ہیں مگر بات ریاست کی کرتے ہیں‘ امریکہ کے خلاف دفترِ شکایات کھول بیٹھتے ہیں‘ اداروں پر تنقید کرتے ہیں‘ حکومت کی مذمت کرتے ہیں‘ سیاست دانوں پر تبرا کرتے ہیں اور بیورو کریسی کو برا بھلا کہتے ہیں! ایک انگلی دوسروں کی طرف ہو تو چار اپنی طرف ہوتی ہیں جنہیں دیکھنے سے ہم قاصر ہیں!
اس ذہنی عدم بلوغت یا ذہنی ناپختگی کی ذمہ داری دو اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ ایک ادارے کا نام ''گھر‘‘ ہے۔ دوسرے ادارے کا نام ''سکول‘‘ ہے! دونوں ادارے اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان اداروں کے چلانے والے خود ذہنی ناپختگی اور ذہنی عدم بلوغت کا شکار ہیں! ماں باپ بچوں کو وہ طور طریقے کیسے سکھا سکتے ہیں جن سے وہ خود نابلد ہیں؟ سکولوں کے اساتذہ بھی اسی کیٹیگری سے تعلق رکھتے ہیں! تعلیم جس معیار کی دی جا رہی ہے‘ سب جانتے ہیں مگر تربیت کا خانہ مکمل طور پر خالی ہے۔ باپ دفتر دیر سے جاتا ہے۔ استاد سکول دیر سے آتا ہے۔ بس چلے تو پیریڈ بھی گول کر جاتا ہے۔ بچے جو کچھ دیکھتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ ہم ایک مجہول معاشرہ ہیں! مست! غیر سنجیدہ! اور بر خود غلط! آپ مستری کو یا چھت ڈالنے والے کو یا اپنے ڈرائیور کو دیر سے آنے پر مطعون کیسے کر سکتے ہیں! پورے معاشرے میں دیر سے آنے کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ جہاز اور ٹرین سے لے کر حکمرانوں تک سب دیر سے آتے ہیں! یہ صرف ایک مرض ہے۔ ان تمام امراض کا علاج ایک ہی ہے کہ ماں باپ اور اساتذہ پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کریں پھر بچوں کو ابتدا سے بتایا اور سکھایا جائے کہ انہوں نے ہر پیغام کا جواب دینا ہے‘ ہر جگہ وقت پر پہنچنا ہے‘ ہر مہربانی کا شکریہ ادا کرنا ہے‘ قطار بنانی ہے‘ اپنی باری کا انتظار کرنا ہے‘ دوسرے کے حق کا احترام کرنا ہے اور ٹریفک کے قواعد پر سختی سے عمل پیرا ہونا ہے! سکھانے کا بہترین طریقہ عملی نمونہ پیش کرنا ہوتا ہے۔ ایک شخص نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ تبلیغ کے لیے جا رہا ہے۔ آپ نے اسے نصیحت کی کہ دیکھنا کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں تبلیغ کرتے ہوئے زبان کا استعمال کرنا پڑے۔
ہم‘ بطور قوم‘ سفاک حد تک احمق‘ گاؤدی‘ بودے اور ہونّق ہیں۔ اس قدر کہ ہم خوشی منانے کا طریقہ بھی نہیں جانتے! بسنت مناتے ہیں تو لوگوں کے گلے کاٹ دیتے ہیں۔ تین دن پہلے کراچی میں جس طرح نیو ایئر نائٹ منائی گئی ہے‘ اس پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ تین سال کی ثانیہ اپنے گھر کے صحن میں‘ اپنے ماں باپ کے ساتھ سوئی ہوئی تھی۔ نئے سال کی خوشی میں ہوائی فائرنگ کی گئی۔ گولی گھر کے اندر گئی۔ سوئی ہوئی ثانیہ کے سر میں لگی۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا۔ سرجن نے اسے بچانے کی پوری کوشش کی مگر ناکام رہی۔ یہ کیسی خوشی ہے؟ یہ کیسا جشن ہے؟ چار دیواری کی حرمت کہاں گئی؟ ایک تین سالہ بچی اپنے گھر میں سو رہی ہے۔ سر میں گولی لگتی ہے۔ وہ ہلاک ہو جاتی ہے۔ اس کے ماں باپ پر کیا گزر رہی ہے؟ کیا ایسا وحشیانہ جشن کسی اور ملک میں منایا جاتا ہے؟ ہو سکتا ہے افریقہ کے آدم خور قبیلوں میں ایسا ہوتا ہو۔ تیس چالیس افراد زخمی ہوئے۔ کراچی کے تینوں بڑے ہسپتال ان زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہے! ایسا بھی ہوا ہے اور ایسا صرف پاکستان میں ہو سکتا ہے کہ شادی کی تقریب میں ہوائی فائرنگ کی گئی اور گولی دلہا کو لگی جو جاں بحق ہو گیا اور دلہن سسرال جانے سے پہلے ہی بیوہ ہو گئی! اسی سال اگست میں وزیرستان میں دلہا نے اپنی شادی کی تقریب میں ہوائی فائرنگ کی اور اپنے ہی تین بھتیجوں کو ہلاک اور دو کو زخمی کر دیا۔ کچھ عرصہ پہلے کہوٹہ میں شادی کے موقع پر ہوائی فائرنگ میں دلہا کا والد اور چچی جاں بحق ہو گئے۔ ایک چودہ سالہ بچہ‘ جو مہمان تھا‘ زخمی ہو گیا! یہ تو چند واقعات ہیں۔ ایسی ہلاکتوں کی تعداد سینکڑوں سے کم کیا ہو گی۔ پولیس کیا کرے اور کہاں تک کرے! گرفتاریاں ہوتی ہیں مگر باز کوئی نہیں آتا۔ ہاں اگر پھانسیاں دی جائیں تو شاید یہ قتل و غارت رُک جائے۔ کم از کم تین سالہ ثانیہ کے قاتل کو تختۂ دار پر ضرور جھولنا چاہیے!
فرد کا رویّہ کسی بھی قوم کی ترقی کا پہلا پڑاؤ ہے۔ شاہراہوں‘ ہوائی اڈوں‘ صنعتوں کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ سب سے اہم انفراسٹرکچر فرد کی ذہنی بلوغت اور پختگی ہے۔ اچھے بھلے تعلیم یافتہ حضرات پوچھ رہے ہوتے ہیں ''آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟ ووٹ کسے دیں گے ؟ بچے نہیں ہیں‘ شادی کو کتنا عرصہ ہوا ہے؟ مکان کرائے کا ہے یا اپنا؟ گاڑی کب خرید رہے ہیں؟‘‘ جن ملکوں کو ہم ترقی یافتہ کہتے ہیں وہاں ایسے عجیب و غریب‘ ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں