اروَند سہارن نوجوان صحافی ہیں۔ تعلق بھارت سے ہے۔ نیوزی لینڈ میں رہتے ہیں۔ اُردو لکھ پڑھ لیتے ہیں۔ یوٹیوب پر ان کا ایک مستقل فیچر ''سرحد کے اُس پار‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں وہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں سے انٹرویو کرتے ہیں۔ تقریباً دو سال پہلے انہوں نے میرا بھی انٹرویو لیا جو دو نشستوں میں مکمل ہوا۔ اچھی بات یہ تھی کہ میرے جوابات کو انہوں نے ایڈٹ نہیں کیا اور بلا کم و کاست نشر کیا۔ بھارتی ناظرین اور سامعین نے مجھے جی بھر کر بُرا بھلا کہا‘ یہاں تک کہ اروند سہارن کو کہنا پڑا کہ ان کے مہمان کے ساتھ ایسا نہ کیا جائے۔ اصل بات جو بتانی ہے‘ یہ ہے کہ انہوں نے بنگلہ دیش کی ترقی اور بہتر اقتصادی اشاریوں کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا کہ آخر بنگلہ دیش پاکستان سے آگے کیوں نکل گیا؟ اس کا فوری جواب میں نے یہ دیا کہ بنگلہ دیش کی خوش بختی ہے کہ اس کے پڑوس میں کوئی افغانستان آباد نہیں ہے!
یہ بات اس لیے یاد آئی کہ آج کل بنگلہ دیش ماڈل کا‘ پاکستان کے حوالے سے‘ بہت چرچا ہے! تاریخ بھی کیسے کیسے مذاق کرتی ہے۔ جنوبی کوریا کے بارے میں روایت ہے کہ پاکستان کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کو اس نے اپنایا اور سرخرو ٹھہرا! (معلوم نہیں یہ بات کہاں تک درست ہے) آج ہم بنگلہ دیش ماڈل کی پیروی کرنے کا سوچ رہے ہیں! بقول غالب:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
کسی بھی ملک میں کامیاب ہونے والے ماڈل کو کسی دوسرے ملک پر منطبق کرنا اول تو ناممکن ہے‘ مگر فرض کیجیے اگر منطبق ہو بھی گیا تو اس کی کامیابی معجزے سے کم نہیں اور معجزات کا زمانہ لَد چکا! دنیا میں دو گھر بھی ایک جیسے نہیں ہو سکتے‘ دو ملک کیسے ایک جیسے ہو سکتے ہیں؟ بنگلہ دیش اپنی جی ڈی پی کا کتنے فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے اور پاکستان کتنے فیصد؟ بنگلہ دیش کو ایسے بہت سے فوائد حاصل ہیں جن سے پاکستان محروم ہے! دفاع کا بجٹ ایک بہت بڑا عامل ہے۔ افغانستان‘ ٹی ٹی پی‘ مشرقی سرحد‘ لائن آف کنٹرول‘ یہ سب وہ زخم ہیں جو پاکستان کے جسم پر موجود ہیں اور جن سے وقتاً فوقتاً لہو رستا رہتا ہے! بنگلہ دیش کا بجٹ اس قسم کی مجبوریوں سے آزاد ہے۔ بنگلہ دیش کے تین طرف بھارت ہے۔ بھارت سے بنگلہ دیش کو کوئی عسکری خطرہ نہیں! اسی لیے اس کا خرچ دفاع پر پاکستان کی نسبت بہت کم ہے! حکومت سازی میں جو کردار اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان میں ہے اور رہا ہے‘ بنگلہ دیش میں نہیں ہے! صرف ایک فرق ہی دیکھ لیجیے۔ بنگلہ دیش کی وزارتِ دفاع کا سیکرٹری ایک سول سرونٹ ہے جبکہ ہمارے ہاں بہت عرصہ سے ایسا نہیں ہے!
بنگلہ دیش ماڈل کے حوالے سے جو بات بہت زیادہ کی جا رہی ہے‘ وہ حکومت کا تسلسل ہے۔ حسینہ واجد پندرہ سال سے وزیر اعظم چلی آرہی ہیں! پاکستان میں کوئی وزیراعظم پانچ سال بھی مکمل نہیں کر سکا! اس سے بھی زیادہ بدقسمتی یہ ہے کہ ہر نئی حکومت‘ گزشتہ حکومت کے منصوبوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتی ہے! پالیسیوں کے تسلسل کا پاکستان میں سوچا بھی نہیں جا سکتا! ہر حکومت الف سے شروع کرتی ہے۔ ابھی مشکل سے سین شین تک پہنچ پاتی ہے کہ ختم ہو جاتی ہے۔ آنے والی حکومت پھر الف سے شروع کرتی ہے! ایک عرصہ سے ملک اسی دائرے کے اندر چکر کاٹ رہا ہے! یہاں ایک دلچسپ موازنہ کرنا شاید نامناسب نہ ہو! معاشی مسائل اور معاشی منصوبوں کے متعلق جو اجلاس ہوتے ہیں‘ حسینہ واجد ان اجلاسوں کی صدارت خود کرتی ہیں۔ یہ اجلاس دس دس گھنٹے مسلسل جاری رہتے ہیں اور وہ بیٹھی رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں صورتِ حال قابل رحم ہے اور مضحکہ خیز بھی! جسے Span of attention کہتے ہیں یعنی توجہ کی مدت پندرہ‘ بیس منٹ یا آدھے گھنٹے سے زیادہ نہیں! نہ فائل خود پڑھتے ہیں! اس سلسلے میں کئی حقائق تو لطیفوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں! آج اگر بنگلہ دیش کی برآمدات حیران کن حد تک زیادہ ہیں اور دیگر اقتصادی اشاریے مثبت ہیں تو اس کی پشت پر وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی شبانہ روز محنت کا کردار ہے!
افغانستان کا ذکر اوپر عسکری حوالے سے کیا گیا ہے! معاشی نقطۂ نظر سے ہمارا یہ پڑوسی ہماری معیشت پر مستقل بوجھ ہے۔ یہ آج کی بات نہیں‘ موجودہ پاکستان کے علاقے صدیوں سے افغانوں کی جولان گاہ رہے ہیں۔ موجودہ افغانستان 1747ء میں ریاست کے طور پر وجود میں آیا مگر اس سے پہلے بھی یہ لوگ حملہ آور ہوتے تھے اور اناج‘ مویشی‘ سونا چاندی لوٹ کر لے جاتے تھے۔ احمد شاہ ابدالی آٹھ بار حملہ آور ہوا اور ہر بار لوٹ مار کر کے گیا۔ اُس زمانے کی ایک پنجابی بولی آج تک تاریخ میں محفوظ ہے۔ کھادا پیتا لاہے دا‘ تے باقی احمد شاہے دا! حملوں کا زمانہ ختم ہوا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ افغانستان خودکفیل ہو گیا۔ حملہ آوروں کی لوٹ مار کی جگہ سمگلنگ نے لے لی جو لوٹ مار کا دوسرا نام ہے! گندم‘ چینی‘ ادویات‘ سیمنٹ‘ سریا‘ کون سی شے ہے جو سمگل ہو کر نہیں جاتی۔ بنگلہ دیش اور پاکستان میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ بنگلہ دیش صرف اپنے ملک کے لیے کماتا‘ اُگاتا اور بناتا ہے جبکہ پاکستان نے اپنے علاوہ افغانستان کے لیے بھی کمانا‘ اُگانا اور بنانا ہے! ڈالر کی مہنگائی میں‘ ہم سب جانتے ہیں کہ افغانستان کا بہت بڑا کردار ہے! بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کی ہمدردیاں اپنے لوگوں کی نسبت افغانستان کے ساتھ زیادہ رہیں! پاکستان کئی دہائیوں سے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو برداشت کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں صرف نو لاکھ ساٹھ ہزار روہنگیا مہاجر بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تو بنگلہ دیش کا رویہ سرد مہری کا‘ بلکہ معاندانہ رہا ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ یہ مہاجر جلد سے جلد واپس چلے جائیں۔ انہیں مزدوری یا نوکری کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ کیمپوں میں مقید ہیں! بنگلہ دیش ماڈل کی بات کرنے سے پہلے یہ بھی دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ بنگلہ دیش لسانی اور نسلی حوالے سے ایک اکائی ہے اور مضبوط‘ ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی اور باہم پیوست اکائی ہے۔ حکومت کے تسلسل میں یہ عامل بہت اہم ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کئی لسانی اور نسلی ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے۔ کسی بھی حکومت کے نیچے سے زمین کھینچنا یہاں بہت آسان ہے۔ پاکستان جاگیرداروں‘ وڈیروں‘ سرداروں اور خوانین و ملوک کا ملک ہے۔ بنگلہ دیش ان بلاؤں سے پاک اور محفوظ ہے! مشرقی پاکستان کے الگ ہونے میں اس سرداری نظام اور وڈیرہ شاہی کا بھی کردار تھا۔ مزاج الگ الگ تھے۔ مائنڈ سیٹ مختلف تھے۔ سیاسی رویّوں میں فرق تھا۔ یہ فرق آج بھی موجود ہے۔ اگر ترقی کرنے کی نیت ہو اور لیڈر شپ مخلص ہو تو کسی دوسرے ملک کا ماڈل اپنانے کے بجائے اپنا ماڈل خود بنانا ہوتا ہے۔ ہر ملک کے حالات مختلف ہیں۔
ملائیشیا کے مہاتیر اور سنگاپور کے لی کوان ییو نے اپنے اپنے ملک کے ماڈل خود تیار کیے۔ تھائی لینڈ اور تائیوان نے اپنی اپنی پالیسیاں خود وضع کیں! ہانگ کانگ کا اپنا طریقّ کار تھا! پاکستان اگر ترقی کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے اپنے مخصوص اندرونی اور خارجی مسائل کو سامنے رکھ کر ایسی طویل المیعاد پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی جو صرف اسی کے لیے ہوں گی! کسی دوسرے ملک کا ماڈل ہماری دستگیری نہیں کر سکتا! یہ جو ہمارے ہاں محاورہ رائج ہے کہ کوّا چلا ہنس کی چال‘ اپنی بھی بھول گیا‘ تو یہ محاورہ نظامی گنجوی کے اس شعر کا بالکل لفظی ترجمہ ہے:
کلاغی تگِ کَبک را گوش کرد
تگِ خویشتن را فراموش کرد