یہ ظہر کا وقت تھا۔ مسجد کے اردگرد سنہری دھوپ بچھی تھی۔ جی چاہا یہیں دھوپ میں نماز ادا کی جائے۔ مگر یہ ممکن نہ تھا۔ صحن تو تھا نہیں۔ پوری کی پوری مسجد پر چھت ڈال دی گئی تھی۔ مسجد کے اندر‘ ہال میں داخل ہوا تو چار اِنورٹر (ایئر کنڈیشنر) حرارت پھیلا رہے تھے۔ بجلی کا میٹر مسلسل چل رہا تھا۔
یہ وفاقی دارالحکومت میں واقع اس جدید بستی کا ذکر ہے جہاں میں رہ رہا ہوں۔ منتظمین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ بستی میں درجنوں مسجدیں ہیں اور سب صحنوں سے محروم ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام مسجدوں میں ظہر کے وقت ایئر کنڈیشنر چل رہے ہوتے ہیں۔ باہر ٹنوں کے حساب سے دھوپ حرارت دے رہی ہے! زندگی بخش‘ صحت افزا حرارت! اور لوگ بند مسجدوں میں ہیٹر لگاکر نمازیں اداکر رہے ہیں۔ اس پر شفیق الرحمان یاد آرہے ہیں۔ مچھر دانی کا درست استعمال انہوں نے یہ بتایا ہے کہ مچھر دانی لگا کر ایک طرف سے اوپر کیجیے۔ سب مچھر اندر داخل ہو جائیں تو اٹھا ہوا حصہ گرا دیجیے۔ سب مچھر مچھر دانی میں قید ہو گئے ہیں۔ اب آپ مچھر دانی کے باہر سو جائیے!!
ایک تو آپ قدرتی حرارت سے محروم ہو رہے ہیں۔ دوسرے‘ بجلی کا بِل بڑھ رہا ہے۔ مگر جب عقل کی مقدار دماغوں میں ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو ایسی ہی حرکتیں ہوتی ہیں! عام آبادیوں میں آج بھی ظہر کی نماز سرما کے دوران مسجدوں کے صحن میں ادا کی جاتی ہے۔ مسجد کا مؤذن موجود نہ ہو تو نمازی خود چٹائیاں بچھا لیتے ہیں! پھر خود ہی سمیٹ بھی لیتے ہیں! جب سے زندگی صحنوں سے بند گھروں میں منتقل ہوئی ہے‘ گویا ترقی ٔ معکوس کا عمل جاری ہے۔ ہم لوگ‘ جو جنوبی ایشیا میں رہ رہے ہیں‘ قدرت نے ہمیں دھوپ وافر عطا کی ہے۔ ہماری سابقہ نسلیں عقلمند تھیں جو اس دھوپ سے فائدہ اٹھا رہی تھیں۔ ہم ان سے زیادہ عقل مند ہیں۔ پندرہ پندرہ‘ بیس بیس لاکھ روپے لگا کر چھتوں پر سولر یونٹ لگوا رہے ہیں کہ دھوپ سے فائدہ اٹھائیں مگر جو دھوپ مفت مل رہی ہے‘ اسے ٹھکرا رہے ہیں! حیرت ہوتی ہے جب ماڈرن خواتین سن بلاک لگا کر دھوپ میں بادلِ نخواستہ نکلتی ہیں۔ وہ بھی تب جب کہیں جانا ہو! کسی کو خوف ہے کہ دھوپ میں رنگت سیاہ ہو جائے گی۔ کسی کو دھوپ سے دردِ شقیقہ ہو جاتا ہے۔ سارا دن اندر گُھسے رہتے ہیں۔ ہیٹر مسلسل لگے رہتے ہیں! باہر دھوپ انتظار کر کر کے چلی جاتی ہے۔
میں جس پرائمری سکول اور پھر جس ہائی سکول کا طالب علم تھا‘ اس کا بہت بڑا گراؤنڈ تھا۔ کمروں کے اندر کرسیاں اور میز یں تھیں۔ مگر جاڑوں میں تمام کلاسیں باہر گراؤنڈ میں لگتی تھیں۔ کلاس کا مانیٹر ایک دن پہلے بتا دیتا تھا کہ آنے والی صبح کن کن طالب علموں نے باہر گراؤنڈ میں ٹاٹ بچھانے ہیں اور چھٹی کے وقت لپیٹ کر اندر کمرے میں رکھنے ہیں۔ کرسی صرف ایک باہر نکالی جاتی تھی جس پر استاد صاحب بیٹھتے تھے۔ گراؤنڈ اتنے بڑے تھے کہ پرائمری سکول میں پہلی جماعت سے لے کر پانچویں جماعت تک اور ہائی سکول میں چھٹی سے لے کر دسویں جماعت تک‘ سب کلاسیں باہر‘ ایک دوسرے سے دور دور لگتی تھیں۔ کالج پہنچے تو کلاسیں باہر دھوپ میں منتقل نہیں ہوتی تھیں مگر خالی پیریڈ یا آدھی چھٹی میں ہم دوست فوراً باہر گراؤنڈ میں نکل آتے تھے۔ کسی بنچ پر بیٹھ جاتے تھے یا نیچے گھاس پر!! ہائی سکول کے گراؤنڈ کے بالکل ساتھ سبزیوں بھرے کھیت تھے جنہیں رہٹ سے پانی دیا جاتا تھا۔ وہاں عورتیں تازہ مولی گاجر بیچ رہی ہوتی تھیں۔ کیا ہم طلبہ اور کیا ہمارے اساتذہ‘ سب یہی سنَیک کھا رہے ہوتے تھے۔ مولی کے پتے بھی کھائے جاتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گنڈیری کا شمار باعزت پھلوں میں ہوتا تھا۔ ''مالٹے گنڈیریاں‘‘ ایک باقاعدہ اصطلاح تھی۔ مہمان آتا تو اس کے لیے ''مالٹے گنڈیریاں‘‘ منگوائے جاتے!! اب گنڈیریاں اپنی عزت کھو بیٹھی ہیں۔ ہمارے بچے تو کھاتے ہیں مگر ان کے بچے اس نعمت سے محروم ہیں۔ ہمارے بچپن میں گھروں میں گنے گڈوں کے حساب سے آتے تھے۔ بتایا جاتا تھا کہ گنے کھانے سے دانتوں کی ورزش ہوتی ہے۔ اب مائیں بچوں کی منتیں کرتی ہیں کہ سیب کھالو اور بچے نہیں کھاتے۔
کچھ ایسا ہی انقلاب گرمیوں کے حوالے سے بھی آیا۔ جن مسجدوں کے صحن ہیں‘ وہاں مغرب اور عشا کی نمازیں صحن میں ادا کی جاتی ہیں۔ اوپر پنکھے لگا لیے جاتے ہیں۔ مگر بتدریج مسجدیں صحنوں سے محروم ہو رہی ہیں۔ گھر پہلے ہی صحنوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ طرزِ تعمیر وہ اپنا لیا گیا ہے جو ہمارے موسموں اور ہماری آب و ہوا کے اُلٹ ہے۔ صحن کو گھر سے باہر نکال دیا گیا ہے اور نام بدل کر صحن سے ''لان‘‘ کر دیا گیا ہے۔ شام کو باہر بیٹھنے کا رواج ختم ہو چکا ہے۔ پنکھے اور اے سی 24گھنٹے چلتے ہیں۔ باہر ہوا چل بھی رہی ہو تو کوئی نہیں بیٹھتا۔ جسموں کی مدافعت کمزور پڑ گئی ہے۔ ذرا سی گرمی بھی برداشت سے باہر ہے! پہلے ورزش میدانوں اور اکھاڑوں میں ہوتی تھی۔ اب جمنازیم میں ہوتی ہے جو ایئر کنڈیشنڈ ہیں! وہ جو شاعر نے کہا تھا کہ اس دور میں مے اور ہے‘ جام اور ہے جم اور! تو سب کچھ بدل گیا ہے۔ طرزِ تعمیر ہے یا طرزِ زندگی‘ سب کچھ ہمارے ماحول‘ ہماری آب و ہوا اور ہمارے موسموں سے متصادم ہے۔ یہ جو مسجدوں میں نام نہاد قالینی صفیں بچھی ہیں‘ کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ یہ جراثیم کی فیکٹریاں ہیں! وضو کرنے کے بعد ان پر گیلے پاؤں پڑتے ہیں۔ یہ رطوبت خشک نہیں ہوتی۔ سجدہ کرتے وقت بدبو آتی ہے۔ ان قالینی صفوں میں ہزاروں من گرد چھپی ہے اور بیکٹیریا کی بستیاں آباد ہیں۔ یہ درست ہے کہ حرمین شریفین میں بھی قالینیں بچھی ہیں مگر وہاں تو دن میں کئی بار صفائی ہوتی ہے۔ لوگوں نے اپنے گھروں سے وال ٹو وال قالینیں ختم کر دی ہیں اور فرش چپس کے بجائے ٹائلوں یا ماربل کے کر دیے ہیں مگر خدا کے گھروں میں ابھی تک یہ وال ٹو وال قالینیں‘ قالینی صفوں کے نام سے موجود ہیں۔ اب تو کچھ نمازی اپنے ساتھ چھوٹے سائز کی جائے نماز لانے لگے ہیں جو سجدے کی جگہ پر بچھا لی جاتی ہے تاکہ ماتھا اور ناک قالینی صف سے بچ جائیں! پہلے کھجور کے پتوں سے بُنی ہوئی چٹائیاں ہوتی تھیں جو ٹوٹ پھوٹ جاتی تھیں تو ان کی جگہ نئی چٹائیاں آجاتی تھی۔ پھر پلاسٹک کی چٹائیاں آئیں۔ یہ سُوکھ بھی جلد جاتی تھیں اور انہیں دھونا بھی آسان تھا۔ مگر قالینی صفیں!! اُف! توبہ! نمازیوں کو کیا خبر کہ ان قالینی صفوں کے اندر اور ان کے نیچے کتنی مخلوقات رہ رہی ہیں اور کتنی بستیاں آباد ہیں!!
ہم رجعت ِقہقری کا شکار ہیں! اِنّ الانسان لفی خُسر! جس طرح ہمارے معیشت دانوں نے مغربی یونیورسٹیوں سے سیکھا ہوا اقتصادیات کا علم جوں کا توں ہم پر آزمایا اور ہمارے مخصوص حالات کو نظر انداز کر دیا اور معیشت مستقل بیمار پڑی ہے‘ اسی طرح ہم نے طرزِ تعمیر اور مجموعی طور پر طرزِ زندگی دوسروں کا اپنایا اور گھاٹے میں رہے! نقل کے لیے عقل چاہیے! اور عقل ہم رکھتے بھی ہوں تو استعمال نہیں کرتے کہ کثرتِ استعمال سے کہیں خراب نہ ہو جائے یا ختم نہ ہو جائے! اور ہاں اِنّ الانسان لفی خُسر سے یاد آیا کہ سسر کو خُسر بھی کہا جاتا ہے۔اب تو کچھ ناہنجار داماد اور منہ پھٹ بہوئیں سسرال کو سسرائیل کہنے لگی ہیں اور اسرائیل ہو یا سسرائیل‘ تسلیم نہیں کیا جاتا!