ایک خزانہ ہے جو دفن ہے۔ کچھ اس سے بے خبر ہیں۔کچھ کھودنے کے لیے تیار نہیں!
جعفر طاہر 1917ء میں جھنگ میں پیدا ہوئے۔ فوج میں نان کمیشنڈ افسر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ریڈیو سے وابستہ ہو گئے۔ 1977ء میں وفات پائی۔ رائٹرز گلڈ کب بنی‘ کیوں بنی‘ یہ ایک الگ قصہ ہے مگر اس کے ذریعے جعفر طاہر کا ایک ایسا شہکار ظہور پذیر ہوا جس کی اور کوئی مثال اُردو دنیا میں نہیں ملتی۔ یہ ان کی تصنیف ''ہفت کشور‘‘ ہے۔ اس پر انہیں 1962ء میں آدم جی ایوارڈ ملا۔ اس کتاب کا جو نسخہ میرے پاس ہے وہ جولائی 1962ء کا شائع شدہ ہے۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کراچی نے اسے شائع کیا۔ میں نے اسے کراچی سے 31 جنوری 1974ء کو خریدا۔ اب یہ کتاب نایاب ہے۔ ایک ویب سائٹ پر موجود ہے مگر ڈاؤن لوڈ نہیں کی سکتی‘ پڑھنا بھی مشکل ہے کیونکہ یہ ویب سائٹ User-friendly نہیں۔
جن لوگوں نے ''ہفت کشور‘‘ کو کینٹوز (Canto) کا مجموعہ کہا ہے‘ صریحاً غلط کہا ہے۔ اس میں شاعری کی تمام اقسام موجود ہیں۔ غزل ہے اور نظم کی ساری اصناف ہیں۔ مثنوی‘ آزاد نظم‘ نظمِ معرّیٰ‘ پابند نظم‘ کینٹو‘ منظوم ڈرامہ! مثلث‘ مخمّس‘ مسدّس‘ یہاں تک کہ ترکیب بند اور ترجیع بند سے ملتے جلتے تجربے بھی ملتے ہیں! کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ ترکی‘ مصر‘ عرب‘ عراق‘ ایران‘ پاکستان اور الجزائر! ان ملکوں کی تاریخ‘ ثقافت‘ روایات اور ہم عصر حالات کو جس طرح بیان کیا گیا ہے‘ پڑھنے والا جعفر طاہر کے علم کی گہرائی اور قدرتِ کلام پر حیرت سے گنگ ہو جاتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا منظر! ایک کے بعد شاعری کی دوسری صنف! ایک کے بعد دوسری بحر! دریا کی سی روانی‘ لغت اور معانی کا بے کنار سمندر! سچی بات یہ ہے کہ یہ تصنیف اردو ادب کا عجوبہ ہے!
ترکی کے باب میں جعفر طاہر کہتے ہیں: یہ ترکی ہے جس کی فضاؤں ہواؤں میں شیریں نواؤں کے نغمے رواں ہیں ؍ یہیں مرشدِ روم کا آستاں ہے‘ یہیں سر جھکائے ہوئے آسماں ہیں ؍ بتانِ خجستہ قدم کی طرح ''مارمورا‘‘ کی پُر نور لہریں رواں ہیں ؍ '' ارارات‘‘ کی بخششیں بے کراں، ''باسفورس‘‘ کی یہ بستیاں جاوداں ہیں
قسطنطیہ کی فتح کا احوال منظوم ڈرامے کی شکل میں لکھا ہے۔ قسطنطینِ اعظم پکارتا ہے: صلیبیو! بہادرو! سپاہیو دلاورو! ؍ بڑھو بڑھو بڑھو بڑھو‘ عدو کو آج بھون دو ؍ وطن کی سرزمین کو عدو کا سرخ خون دو! صلیبیو! بہادرو
مرشد روم اور شمس تبریزی کی ملاقات‘ شمس کا مولانا کی کتابوں کو حوض میں پھینکنا‘ پھر خشک حالت میں باہر نکال لانا‘ یہ تمام قصہ منظوم بیان کیا ہے۔
مصر کا باب انوکھا ہے: نیل بہتا رہا نیل گاتا رہا۔ زندگی کے ترانے لٹاتا رہا ؍ عشق اپنی کہانی سناتا رہا۔ حُسن سنتا رہا مسکراتا رہا ؍ نیل بہتا رہا نیل گاتا رہا
حضرت موسیٰ کے بارے میں فرعون اور اس کی ملکہ آسیہ کی باہمی گفتگو کو بھی منظوم کیا ہے۔ مصر میں اسلام کی آمد کے بیان کی ایک جھلک دیکھیے: دینِ محمد کی برکت سے دن بدلے ہیں یاراں... اے ناداراں ؍ ایک نرالے دین کا پرچم‘ خوش نگہانِ فاراں... صدق شعاراں ؍ وادیٔ سینا تجھ کو مبارک حُسن و جمالِ بہاراں... لِحنِ ہزاراں
جامعہ ازہر کے بارے میں کہا: ابنِ خلدون کے جوہر دیکھو ؍ دوستو جامعہ ازہر دیکھو ؍ یہ کہ ہے شہرِ علوم ؍ اس کی عالم میں ہے دھوم ؍ ہو ریاضی کہ نجوم ؍ سب کی تعلیم یہاں پر دیکھو ؍ دوستو جامعہ ازہر دیکھو
صدر ناصر نے 1956ء میں نہر سویز کو قومیایا تو برطانیہ‘ فرانس اور اسرائیل نے مل کر مصر پر حملہ کر دیا۔ صدر ناصر ڈٹے رہے اور نہر سویز مصر کی ہو گئی! حق بحقدار رسید!! اس واقعہ کو جعفر طاہر نے ایک دلکش نظم کی صورت بیان کیا جو تمام مقفّیٰ ہے۔ چند مصرعے یوں ہیں: بستر بند سپاہی لاکھوں عیسائی موسائی ؍ لشکر عسکر فوجیں توپیں ٹینک جہاز ہوائی ؍ بستی بستی وادی وادی گھر گھر آگ لگائی ؍ نیل کے بیٹے رن میں کودے کیا شہری صحرائی ؍ توپوں ٹینکوں بمباروں سے کیا رکتے مولائی ؍ جنگ لڑے اور ایسی یارو داد نبی سے پائی ؍ واہ ناصر یہ تیری ہمت یہ تیری دانائی ؍ نیل کی بیٹی بچ نکلی ناکام گئے بلوائی
پھر عرب کا باب ہے۔ ابتدا یوں کی ہے: یہ ایک صحرائے لق و دق ہے ؍ نہ موجۂ ابر نے شفق ہے ؍ رواں دواں ندیاں لہو کی ؍ اجل کا دیکھو تو رنگ فق ہے ؍ یہاں دلِ دہر پارہ پارہ ؍ بیاض ہستی ورق ورق ہے
حضرت ہاجرہ اور اسماعیلؑ کا ذکر دیکھیے: وہ دوڑنے لگی ہے مروہ و صفا کے درمیاں ؍ وہ پھر پلٹ پڑی خیال آ گیا جو ناگہاں ؍ اجل کی ریت میں نہ کھو گیا ہو گوہرِ گراں ؍ مرے خدا وہ کون ہے ؍ مرے خدا وہ کون ہے
قبل از اسلام کا عرب ملاحظہ ہو: حج کے دن ہیں قبیلے آتے ہیں ؍ مل کے صحنِ حرم سجاتے ہیں ؍ دیوتاؤں کی حمد کرتے ہیں ؍ ناز نینوں کے گیت گاتے ہیں ؍ ہر قبیلے کا اپنا اپنا خدا ؍ جس کے پاؤں پہ سر جھکاتے ہیں ؍ میہمانوں کی پیشوائی کو ؍ رہگذاروں پہ بیٹھ جاتے ہیں
رسالت مآبﷺ کے ساتھیوں کے بارے میں ایک طویل نظم سے تین اشعار: یہ لوگ شہریارِ بزمِ جان و دو جہاں رہے ؍ زمیں کے پاسباں رہے دلوں پہ حکمراں رہے ؍ اداس راستوں کو ہمکنارِ نور کر دیا ؍ جہاں جہاں یہ مہر و ماہ بن کے ضو فشاں رہے ؍ گرجتے بادلوں کڑکتی بجلیوں پہ چھا گئے ؍ برستی بدلیوں کے ساتھ مل کے نغمہ خواں رہے
تیل نکلا تو سب کچھ بدل گیا: چلی مشین چلی ؍ چلی مشین چلی ؍ تھر تھر تھر تھر صحرا کانپیں انجن شور مچائیں ؍ بَن کے باسی اللہ راسی پِیپے بھرتے جائیں ؍ تیل کے سوداگر یہ سب کچھ دیکھیں اور مسکائیں ؍ کس میں ہمت کون تمہیں سمجھائے بُری بھلی ؍ چلی مشین چلی چلی مشین چلی
عراق کے چیپٹر میں زیادہ ذکر سانحہ کربلا کا ہے۔ یہ تین ایکٹ کا منظوم ڈرامہ ہے۔ جعفر طاہر نے یہاں قلم توڑ کر رکھ دیا ہے۔حضرت مسلم بن عقیلؓ کی شہادت کا حال نظم کیا۔ حضرت زینبؓ اہلِ کوفہ سے مخاطب ہیں: کہو کہو ساکنانِ کوفہ! ؍ کہو کہ تم میرے پاک نانا کی امت محترم نہیں ہو؟ ؍ کہو کہ اسلام پر نہیں ہو؟ ؍ کہو تمہارا خدا کوئی اور ہے؟ ؍ نہیں تو بتاؤ یہ ظلمِ ناروا کیوں؟ ؍ جفا شعارانِ شہر کوفہ ؍ ڈرو خدا کے عذاب سے؍ روزِ حشر سے‘ یومِ عدل و یومِ حساب سے
ایران‘ پاکستان اور الجزائر کے ابواب کی جھلکیاں ان شا اللہ کل کی نشست میں پیش کی جائیں گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس کتاب کا نیا ایڈیشن چھپنا چاہیے۔ یہ ایک خزانہ ہے‘ شاعری کا‘ ادب کا‘ ثقافت کا‘ علم کا‘ تاریخ کا اور غنائیت کا! آج کی نسل کے جو لوگ ادب اور علم سے وابستہ ہیں انہیں یہ میسّر ہونی چاہیے مگر کیسے میسّر ہو؟ پبلشر حضرات رو رہے ہیں کہ کاغذ کی کمیابی اور بے انتہا گرانی نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے! پبلشر یہ بھی کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی یلغار کے بعد شاعری کی اشاعت کا حال پہلے جیسا نہیں رہا۔ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ مگر 335 صفحات کی یہ کتاب ''ہفت کشور‘‘ ہماری ادبی تاریخ کا از حد قیمتی حصہ ہے۔ ہے کوئی پبلشر جو اسے از سر نو چھاپے؟ میں اس کے پندرہ نسخے خریدنے کے لیے رضاکارانہ اعلان کرتا ہوں! امید ہے کہ ادب کے رسیا آگے بڑھیں گے اور پبلشر حضرات کے خدشات کو دور کر دیں گے!! (جاری)