نانی نے نرسری کا چکر لگانا تھا۔
ان کا ایک ہی شوق ہے۔ پودے‘ پودے اور پودے! پھل پھول اور سبزیاں! سرکاری گھروں کے آگے پیچھے جگہ کافی ہوتی تھی‘ سو موصوفہ سال بھر کا پیاز اور لہسن اُگا لیتی تھیں۔ اب جگہ زیادہ نہیں ہے پھر بھی خوبانی اور مالٹوں سے لے کر پالک اور بھنڈی تک‘ سپلائی اپنے ہی صحن سے ہو جاتی ہے۔ دسہری آم بھی دو پیٹیوں کے برابر ہو ہی جاتے ہیں۔ پہلے تو کدال سے کھدائی اور کُھرپے سے گوڈی بھی خود ہی کرتی تھیں۔ کیاریاں بھی خود بناتی تھیں۔ اب یہ مشقت باغبان کرتا ہے مگر نگرانی اس کی کڑی ہوتی ہے۔ سرگرمیاں اسی نوع کی ہورہی ہوتی ہیں۔ کھاد منگوائی جارہی ہے۔ مٹی آ رہی ہے۔ گھاس لگ رہی ہے۔ گملے پینٹ ہو رہے ہیں۔ بیلیں رسیوں سے باندھی جا رہی ہیں۔ کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ ہو رہا ہے۔ کہتی ہیں: میرے پودے میرے ساتھ باتیں کر تے ہیں! وہ جو مجید امجد نے کہا تھا۔ ع کاش میں تیرے بُنِ گوش کا بندہ ہوتا! تو میں کہا کرتا ہوں: کاش ہم پودے ہوتے!
جس دن کی بات ہو رہی ہے اس دن نرسری جا رہی تھیں تو رُستم کو بھی ساتھ لے گئیں! پیسے جتنے پاس تھے‘ پودوں پر خرچ ہو چکے تو رستم نے ایک طوطا دیکھ لیا۔ پلاسٹک آف پیرس سے یا مٹی سے‘ یا پتا نہیں کس چیز سے بنایا گیا تھا۔ رستم مچل گیا اور مطالبہ کیا کہ اسے لے کر دیا جائے۔قیمت پوچھی گئی۔ ایک ہزار روپے تھی! نانی کے پاس اب صرف پانچ سو تھے۔ نرسری والا آٹھ سو سے نیچے نہ اُترا۔ ڈرائیور کے پاس بھی‘ بقول اُس کے‘ پیسے نہ تھے۔ اس پر وہ کہانی یاد آرہی ہے۔ایک امیر زادے کو سکول میں کہا گیا کہ مفلسی پر کہانی لکھو! اس نے لکھا کہ ایک شخص بہت غر یب تھا۔ اس کا مالی‘ باورچی‘ چوکیدار‘ خاکروب‘ ڈرائیور سب غریب تھے۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔پیسے ہمارے پاس ہوتے ہیں نہ ہمارے کوچوان کے پاس! میں ایک تقریب کے سلسلے میں مانسہرہ گیا ہوا تھا۔ رات گئے واپس آیا تو بتایا گیا کہ رستم نرسری سے روتا سسکتا بلکتا‘ طوطا طوطاکہتا واپس آیا۔ گھر آکر بھی یہی رٹ لگائے رکھی اور روتے روتے ہی سویا۔ سارا قصہ سنا تو یوں لگا جیسے حلق میں کوئی نوکدار سی شے پھنس گئی ہے۔ عشا کی نماز کے دوران بھی یہی خیال آتا رہا۔رات کو دیر سے سونے کی عادتِ بد‘ دائمی‘ ہے۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان ( ڈاکٹر ذاکر حسین خان کے‘ جو بھارت کے صدر رہے‘ بھائی ) کی خود نوشت زیرِ مطالعہ تھی۔پڑھنے کی کوشش کی۔ کچھ پلّے نہ پڑھا۔ ذہن کہیں اور تھا۔ جو صفحہ الٹتا‘ دو سالہ رستم کا روتا چہرا نظر آتا اور ساتھ ایک طوطا! پھر ہنری کسنجر کی تصنیف ''لیڈر شپ‘‘ اٹھائی۔ اس میں کسنجر نے چھ ہم عصر رہنماؤں کی سیاسی زندگی اور زندگی کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ کسنجر کے نقطۂ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر اس کی وسعتِ مطالعہ! اس کی یاد داشت! اس کی قوتِ تحریر! اس کا اندازِ بیان! توبہ! انسان تھا یا جن! میرے ذاتی خیال میں جو دو باب صدر ڈیگال اور صدر انور السادات پر ہیں‘ کمال کے ہیں! میں سنگا پور کے لی یؤان کیو والے باب پر تھا۔ مگر ذہن آنکھوں کا ساتھ دینے سے انکار کر رہا تھا۔ طبیعت میں عجیب بے چینی اور انتشار تھا۔ کوشش کی کہ رستم اور اس کے حاصل نہ ہونے والے طوطے کا خیال جھٹک دوں مگر اس کوشش میں کامیابی نہ مل سکی۔ ٹیبل لیمپ بجھایا اور آنکھیں بند کر کے دراز ہو گیا۔ نیند نے کیا آنا تھا‘ باڈی کلاک پر ابھی نیند کا وقت ہی نہیں ہوا تھا۔ اب جب کتاب بھی سامنے نہ تھی‘ دھیان مکمل طور پر رستم کی طرف جا رہا تھا۔ اضطراب اور بے چینی میں کئی گھنٹے کروٹیں بدلتے گزر گئے۔ پتا نہیں کب‘ دبے پاؤں‘ نیند آئی۔ خواب میں رستم سے تو ملاقات نہ ہوئی‘ ہاں کئی رنگوں کے طوطے ضرور دکھا ئی دیے۔ صبح اٹھتے ہی پہلا سوال یہ تھا کہ ڈرائیور آ گیا ہے یا نہیں ؟ آیا ہوا تھا۔ اسے آٹھ سو روپے دیے اور کہا: جاکر طوطا لے آؤ۔ وہ نیک بخت لے آیا۔ رستم کو دیا تو اس کی حالت خوشی سے غیر ہو گئی! اسے سینے سے لگائے ادھر ادھر پھرنا شروع کر دیا۔ ساتھ طوطا طوطا کہتا جائے۔ کبھی اس کی سرخ چونچ پر ہاتھ لگائے‘ کبھی اس کے سبز پروں پر! رات آئی۔ طوطے کو اس نے ساتھ سلایا۔ صبح اٹھا تو اسے ہاتھ میں پکڑ کر چارپائی سے اترا! زندگی میں‘ رحمان اور رحیم مالک کا ہزار شکر‘ بہت مسرتیں دیکھی ہیں! اس تماشا گاہ ِدنیا میں بہت مزے اٹھائے ہیں۔ دیس دیس کے کھانے کھائے ہیں۔ ملک ملک کے مناظر دیکھے ہیں۔ خشکی اور تری پر سیر و تفریح کی ہے۔ مگر جو لذت‘ جو خوشی‘ جو سیری‘ جو اطمینان اور جو سکون رستم کو طوطا ہاتھ میں پکڑے ادھر ادھر بھاگتے دیکھ کر حاصل ہوا‘ لا جواب تھا! اپنے بچے جب چھوٹے تھے اور بازار میں کھلونوں کی ضد کر کے روتے تھے تو انہیں بہلا پھسلا کر کام چلایا جاتا تھا۔ گھر پہنچنے تک ان کی ضد اور رونا دھونا‘ ماں اور باپ‘ دونوں بھول چکے ہوتے تھے۔ مگر اب یہ جو بچوں کے بچے ہیں تو ان کی ہر خواہش‘ ہر مطالبہ بڑے میاں اور بڑی بی کے لیے پتھر پر لکیر کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں۔ ایک تو شاید یہ کہ اس عمر میں ہاتھ اتنا تنگ نہیں ہوتا جتنا پہلے ہوتا تھا! دوسرے یہ کہ اعصاب ذرا کمزور ہو جاتے ہیں۔ جوانی میں اعصاب مضبوط ہوتے ہیں۔ رونا دھونا بے اثر ثابت ہوتا ہے۔ اب بچوں کے بچوں کا رونا نہیں دیکھا جاتا!تیسری وجہ وہی ہے جو ہر شخص کہتا اور جانتا ہے کہ اصل کی نسبت سود زیادہ عزیز ہوتا ہے! بچوں کے بچے زیادہ عزیز ہوتے ہیں! اسی فقیر کا شعر ہے ؎
پوتوں نواسیوں کے چمن زار! واہ واہ!
اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے!
خلّاقِ عالم نے انسان کی زندگی کو مختلف ادوار میں بانٹا ہے۔ انسانی زندگی کے ہر دور کی خواہشات الگ ہیں! چھوٹے بچے کو کیا پسند ہے؟ پرفیوم کی خالی شیشی! ربڑ کا کھلونا! چھوٹی سی ٹارچ‘ استعمال شدہ سیل! جوں جوں انسان ایک دور سے دوسرے دور میں منتقل ہوتا جاتا ہے‘ اس کی دلچسپیاں ساتھ ساتھ بدلتی جاتی ہیں! جوانی میں بچے نہیں‘ کچھ اور چیزیں اچھی لگتی ہیں! پھر وہ دور آتا ہے کہ بچے‘ نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے بھی پیارے لگتے ہیں! گفتگو کے موضوعات دیکھ لیجیے۔ ساٹھ کے اوپر کے چار افراد جہاں مل بیٹھیں گے‘ آنکھوں کے آپریشن کی باتیں ہونے لگیں گی اور ساتھ ہی پوتوں‘ پوتیوں اور نواسوں اور نواسیوں کی!! ماں باپ جب کسی تقریب میں جا رہے ہوتے ہیں اور بچوں کو ساتھ چلنے کے لیے حکم دیتے ہیں تو بچے یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ وہاں ان کی عمر کا کوئی بچہ نہیں ہو گا اور یہ کہ وہ وہاں بور ہوں گے! بچوں کی اس بات میں وزن ہے۔ ہو سکے تو انہیں مجبور نہیں کرنا چاہئے بشرطیکہ ماں باپ کے چلے جانے کے بعد وہ گھر میں محفوظ ہوں!
بچوں اور بوڑھوں کی باہمی دوستی اور وفاداری قدرت کا ایک معجزہ ہے۔یہ صرف بچے ہیں جو نانا نانی‘ دادا دادی کی ہر بات کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ انتظار اُنہی کو ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ سیر کو جانا اور ان کے ساتھ سونا انہیں پسند ہوتا ہے۔ گاڑی میں بیٹھنا ہو تو کہیں گے میں نے دادا ابو کے ساتھ بیٹھنا ہے۔ سکول جاتے وقت کہہ جاتے ہیں کہ چھٹی کے وقت دادا ( یا نانا) ہی لینے آئیں! اور یہ دادا دادی ‘نانا نانی ہیں جو بچوں کی ہر بات غور سے سنتے ہیں۔ دن رات ان کی سفارشیں کرتے ہیں اور ان کے ماں باپ سے طعنے سنتے ہیں کہ آپ نے انہیں خراب کر دیا ہے!!