حکومت اور ریاست‘ دونوں کی ترجیحات میں عوام نہیں نظر آتے۔ اس لیے پاکستان میں ہر شعبہ‘ خواہ سرکاری ہے یا نجی‘ عوام کو دھوکا دیتا ہے۔ عوام کا استحصال کرتا ہے۔ عوام سے جھوٹ بولتا ہے اور عوام کو اذیت دیتا ہے۔ مستثنیات یقینا ہیں مگر کم! بہت کم! مریضوں کو ڈاکٹروں سے شکایات ہیں۔ ڈاکٹروں کو حکومت سے اور ہسپتالوں سے! والدین کو سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے۔ ڈرائیوروں کو ٹریفک پولیس سے۔ اسی سے باقی شعبوں کا بھی قیاس کر لیجیے۔ ریاست اور حکومت کا اولین فریضہ عوام کے حقوق کا خیال رکھنا ہے مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ اسی لیے غیرملکی کمپنیاں بھی پاکستانی عوام کو پریشان کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں! ایک بار ایک عزیز بیرونِ ملک سے آ رہے تھے۔ عید قریب تھی۔ ان کی پرواز نے پشاور اترنا تھا۔ میں انہیں لینے گیا۔ یہ مشرقِ وسطیٰ کی دو معروف ایئر لائنوں میں سے ایک کا جہاز تھا۔ میرے عزیز آگئے مگر سامان ابو ظہبی رہ گیا۔ بتایا گیا کہ کسی اگلی فلائٹ میں آئے گا۔ اس پرواز میں پشاور کی نواحی بستیوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے مسافر تھے جو اپنے اعزہ کے لیے عید کے تحائف لے کر آئے تھے۔ یہ تحائف اب عید کے بعد پہنچنے تھے۔ کب؟ یہ بھی معلوم نہ تھا۔ میں نے معاملے کو کریدا۔ ایئر پورٹ کے متعلقہ افراد سے معلومات لیں۔ انکشاف یہ ہوا کہ یہ اس ایئر لائن کا معمول ہے۔ چھوٹا جہاز بھیجتے ہیں۔ سامان وہیں رکھ لیتے ہیں‘ جو بعد میں آتا ہے۔ ایئر پورٹ والوں نے اپنی سی کوشش کی کہ وہ ایسا نہ کیا کریں‘ مگر یہ ہائی لیول کا کام تھا اور ہائی لیول والوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ عوام کتنی اذیت میں ہیں۔ نہیں معلوم اب بھی کے پی والوں کے ساتھ یہ ایئر لائن یہی سلوک کر رہی ہے یا صورتحال بدل چکی ہے۔
سب سے زیادہ استحصال خواتین کا ہو رہا ہے۔ خاص کر تین شعبوں میں‘ اور تینوں شعبے نجی سیکٹر کے ہیں۔ کورونا آیا تو ساتھ ہی آن لائن کاروبار بھی چل پڑا۔ یہ وقت کی ضرورت تھی۔ مگر آہستہ آہستہ کاروباری طبقے نے اس میں بھی وہی بددیانتی اور بدنیتی شروع کر دی جو ہمارا طرۂ امتیاز ہے اور جس کی وجہ سے ہم دنیا بھر میں ''مشہور‘‘ ہیں! موجودہ صورتحال یہ ہے کہ خواتین کی کثیر تعداد سودا آن لائن منگوا رہی ہے۔ ان میں ملبوسات‘ بیڈ شیٹس(پلنگ پوش)‘ گدیوں کے غلاف‘ رضائیوں کے غلاف‘ صوفوں کے کوَر‘ کچن کی اشیا وغیرہ خاص طور پر شامل ہیں! محتاط اندازہ بھی لگایا جائے تو کم از کم 50 فیصد آرڈرز کی تعمیل غلط ہوتی ہے۔ کبھی رنگ غلط بھیجا جاتا ہے۔ کبھی ماپ میں فاش غلطی ہوتی ہے۔ کبھی شے نامکمل بھیجی جاتی ہے اور کبھی نقص والی۔ اکثر و بیشتر خواتین کو اس حوالے سے روتے پیٹتے دیکھا ہے۔ باز مگر وہ نہیں آتیں۔ اپنے لمبے چوڑے وسیع و عریض خاندان میں خواتین کو یہی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ آن لائن خریداری سے پرہیز کریں۔ مگر خواتین‘ اپنی رشتہ دار اور دوست خواتین کی دیکھا دیکھی اس جال میں بار بار پھنستی ہیں۔ پارسل پر پارسل آتے ہیں۔ پارسل پہنچانے کی انڈسٹری الگ لاکھوں میں کھیل رہی ہے۔ اذیت کی انتہا یہ ہے کہ اکثر کمپنیاں اپنا فون نمبر دیتی ہیں نہ ایڈریس۔ وَٹس ایپ نمبر دے بھی دیں تو جواب ندارد! خواتین کُڑھنے اور بددعائیں دینے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتیں۔ پاکستان کے تاجر اور کمپنیاں اس کاروباری دیانت سے صدیوں دور ہیں جو ترقی یافتہ ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں کاروبار کم ہے اور ٹھگی زیادہ۔ بہتر یہی ہے کہ خواتین بازار جا کر شے دیکھ بھال کر خریدیں اور اس آن لائن فریب کاری سے بچنے کی کوشش کریں! جو تاجر ٹیکس چراتے ہیں‘ حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں‘ دن کو دکانیں بند رکھ کر اور راتوں کو کھول کر ملک کی توانائی کو ضائع کر رہے ہیں‘ احساس سے عاری ہیں‘ وہ گھروں میں بیٹھی خواتین کو کیوں نہ دھوکا دیں! یہ تو آسان شکار ہے!
دوسرا شعبہ جو خواتین کا استحصال کر رہا ہے‘ شادی بیاہ کے ملبوسات کا ہے۔ یہ کام سو فیصد خواتین کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ مردوں کے پاس اس کے لیے وقت ہے نہ انہیں اس کام کے اَسرار و رموز سے آگاہی ہے۔ وہ صرف رقم کا بندو بست کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا گورکھ دھندا ہے جسے خواتین ہی سنبھال سکتی ہیں۔ اس میں ہزار باریکیاں ہیں اور نزاکتیں! کشیدہ کاری‘ زردوزی‘ گلکاری‘ کروشیا‘ سوزن کاری‘ سلما ستارہ‘ گوٹا کناری‘ جھالر‘ مقیش اور نہ جانے اور کتنی اقسام در اقسام ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ جھوٹے‘ وعدہ خلاف اور بے حس ہیں۔ خواتین کو جو تاریخ دیتے ہیں اس پر کام اَسی نوے فیصد حالتوں میں تیار نہیں ہوتا۔ یہ فون پر کبھی نہیں بتائیں گے کہ مقررہ تاریخ پر کام تیار نہیں اس لیے آپ نہ آئیے۔ خواتین پھیروں پر پھیرے ڈالتی ہیں۔ اوپر سے ان کے ہزار اور کام! شادی نزدیک ہونے کی وجہ سے ٹینشن اور مالی مسائل کی وجہ سے ذہنی دباؤ!! کئی برس پہلے جب میری بڑی بیٹی کی شادی تھی تو ایک دن بیگم نے تھک ہار کر‘ پریشان ہو کر بتایا کہ لہنگا اور کچھ اور ملبوسات جس ذات شریف کو دیے ہیں وہ کئی چکر لگوا چکا ہے۔ ایڈوانس میں رقم بھی لے چکا ہے اور اب تاریخ پر تاریخ دیے جا رہا ہے۔ میں ان کے ساتھ گیا۔ یہ ایک حاجی صاحب تھے۔ وسیع و عریض دکان‘ درجنوں کاریگر۔ بہت سے گاہک! تاہم شرافت سے عاری! شائستگی سے بات کی مگر انہوں نے کوئی خاص لفٹ نہ دی۔ اس پر میرے اندر چھپا ہوا دیہاتی باہر آگیا۔ بلند آواز میں کہا کہ حاجی ہو‘ چہرے پر سنتِ رسول ہے مگر جھوٹ بولتے ہو اور خواتین کو ایذا دیتے ہو۔ اس پر منت کر کے کہنے لگا: آہستہ بولیے‘ میرے گاہک سن لیں گے تو کیا کہیں گے! جواب دیا کہ انہی کو تو تمہاری اصلیت بتانی ہے۔ قصہ مختصر‘ راہِ راست پر آگیا۔ منتیں کرکے خاموش کرایا اور وعدہ کیا کہ ملبوسات خود بھجوا دے گا۔ آتے ہوئے اسے دس روپے دیے اور کہا کہ اگر تاریخ میں ردو بدل ہوا تو فون کر دینا۔ یہ فون کال کی قیمت ہے کیونکہ غریب تم بہت ہو! فون کال سے ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ ملبوسات اس نے پہنچا دیے مگر بد مزگی الگ ہوئی اور وقت کا ضیاع الگ!!
تیسرا شعبہ ان ڈاکٹروں اور لیڈی ڈاکٹروں کا ہے جو سکن ( جلد) سپیشلسٹ ہیں۔ آج کل خواتین میں جلد کی بیماریاں عام ہیں۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں جن میں سے ایک کئی قسم کے کیمیکلز کا استعمال ہے۔ بچے جنم دینے کے بعد بھی چہرے پر داغ دھبے پڑ جاتے ہیں۔ خواتین اپنے آپ کو خوبصورت بھی رکھنا چاہتی ہیں جو ان کا حق ہے۔ اس سارے بکھیڑے میں جلد کے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں کروڑوں اربوں کی انڈسٹری آ گئی ہے۔ لیزر کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ کلینک میں‘ جسے مذبح کہنا چاہیے‘ خواتین کے لیے ڈھنگ کی بیٹھنے کی جگہ نہ کوئی سسٹم نہ باعزت برتاؤ! کئی کئی گھنٹے انتظار کرایا جاتا ہے۔ نام نہاد علاج کو خوب طول دیا جاتا ہے۔ خواتین اس چکر میں آجاتی ہیں تو پھر اس سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ ڈاکٹر ٹیکس دیتے ہیں نہ دستاویزات مکمل کرتے ہیں۔ اکثر فیس کی رسید تک نہیں دیتے‘ مگر نئے زمانے کے نئے تقاضے ہیں۔ میک اَپ کی انڈسٹری کھربوں کی ہے اور جلد کے امراض اس کا تتمہ ہیں۔ خواتین کو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ''مشتری! ہُشیار باش!‘‘۔