بل مندر سنگھ سے پہلی ملاقات نوے کی دہائی میں ہوئی۔ میں اُن دنوں وفاقی وزارتِ ثقافت میں تعینات تھا۔ میری ڈیوٹی میں جہاں اور امور شامل تھے‘ یہ بھی شامل تھا کہ ثقافتی طائفے دوسرے ملکوں میں لے کر جاؤں۔ ڈاکٹر خالد سعید مرحوم وزارتِ ثقافت کے ذیلی ادارے نیشنل کونسل آف آرٹس کے سربراہ تھے اور ان امور میں وزارت کے معاون و مدد گار تھے۔ بیرونِ ملک ایک بہت بڑی نمائش کا انعقاد ہو رہا تھا۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ چونکہ اس نمائش میں دنیا بھر سے ثقافتی وفود جا رہے ہیں اس لیے پاکستان کی نمائندگی بھی ہونی چاہیے۔ چنانچہ 21 افراد کا گروہ میرے سپرد کیا گیا کہ لے کر نمائش میں جاؤں۔ ان میں عورتیں اور مرد شامل تھے۔ رقاص تھے‘ مغنی تھے‘ موسیقار تھے اور وارڈ روب‘ میک اَپ وغیرہ کے انچارج تھے۔ ایک دن پاکستانی فنکار بھنگڑا پیش کر رہے تھے۔ ہزاروں کا مجمع تھا۔ لوگ مسحور ہو کر دیکھ رہے تھے۔ میں لوگوں کے تاثرات لینے کی غرض سے مجمع میں گھوم پھر رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص‘ جس کی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی اور کنگھی کیے گئے سیاہ بال تھے‘ رو رہا تھا۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور انگریزی میں پوچھا کہ کیوں رو رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ ایسا بھنگڑا اس نے مدتوں پہلے بچپن میں اپنے گاؤں میں دیکھا تھا اور اس کے بعد آج دیکھا ہے۔ اس لیے رونا آرہا ہے۔ میں اسے پاکستانی سمجھا۔ مگر تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس کا نام بل مِندر سنگھ ہے اور وہ مشرقی پنجاب کے کسی گاؤں سے تھا۔ جب اسے بتایا کہ یہ ثقافتی طائفہ پاکستانی ہے اور میں اس کا لیڈر ہوں‘ تو وہ کرسی سے اٹھا اور پھر میرے گلے لگ کر رونا شروع کر دیا۔
دوسرے دن پاکستانی کمیونٹی نے ہمارے اعزاز میں ایک عصرانہ ترتیب دیا تھا۔ وہاں بل مِندر سنگھ بھی موجود تھا۔ پاکستانی کمیونٹی نے اس کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ بل مِندر سنگھ عملاً پاکستانی کمیونٹی ہی کا فرد ہے۔ پاکستان دوست سکھوں میں ممتاز حیثیت کا حامل ہے اور مقامی سیاست میں بھی پاکستانی کمیونٹی ہی کا ساتھ دیتا ہے۔ اتوار کو صبح صبح میرے کمرے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو بل مِندر تھا۔ کہنے لگا کہ آپ کو لینے آیا ہوں۔ دوپہر کا کھانا ہمارے گھر کھانا ہے۔ میں نے شکریہ ادا کر کے ٹالنا چاہا تو اس نے کہا وہ کافی دور سے ٹرین کے ذریعے آیا ہے اور محض تکلفاً نہیں کہہ رہا۔ چنانچہ میں اس کے ساتھ گیا۔ یہ ایک باقاعدہ دعوت تھی جس میں زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی۔ پھر کئی سال گزر گئے۔ گردشِ زمانہ ایک بار پھر اس کے شہر میں لے گئی۔ اس سے ملاقات ہوئی۔ اس کی طبیعت ملول تھی۔ کہنے لگا ''ڈِھڈ وچ پِیڑ اے‘‘! یہ فقرہ تھا جسے سنانے کے لیے یہ سارا واقعہ بیان کرنا پڑا۔ میرے ذہن میں فوراً یہ سوال ابھرا کہ پیدائشی پنجابی تو میں بھی ہوں مگر یاد نہیں کہ ڈِھڈ اور پِیڑ کے الفاظ آخری بار کب استعمال کیے؟ اور آج یہی رونا رونا ہے!
ہم پنجابی بھی ایک عجیب و غریب گروہ ہیں۔ پنجاب نے دوسروں کے لیے ہمیشہ اپنی باہیں پھیلا کر رکھیں اور ہمیشہ گالیاں کھائیں۔ لاہور سے لے کر پنجاب کے کسی دور افتادہ قریے تک جا کر دیکھ لیجیے۔ آپ کو ریڑھی والے سے لے کر بڑے دکاندار تک‘ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے بھائی مل جائیں گے۔ کچھ عرصہ پیشتر پنڈی‘ اسلام آباد کے ایک نواحی قصبے میں بچوں کے درمیان معمولی سا جھگڑا ہوا جس کی وجہ سے غیر مقامی افراد نے مقامی آبادی کی خوب پھینٹی لگائی۔ اب تو پنجاب کے اکثر شہروں میں دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے بھائیوں نے الگ آبادیاں (Pockets) بسا رکھی ہیں۔ وہی کراچی والی غلطی دہرائی جا رہی ہے۔ بہر طور اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ فراخ دلی جب انتہا سے آگے گزر جائے تو وہ نام نہاد فراخ دلی ہو جاتی ہے۔ پنجابیوں نے عملی طور پر پنجابی زبان کو بھی خیرباد کہہ دیا ہے۔ اپنے ارد گرد غور سے دیکھیے۔ کتنے پنجابی بچے‘ پنجابی زبان میں بات چیت کرتے ہیں؟ میرے ناقص حساب سے بمشکل پندرہ‘ بیس فیصد! خاص طور پر شہروں اور قصبوں میں! مجھے پختون بھائیوں کی یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ پختون جرنیل بن جائے یا بڑا افسر‘ اپنی زبان نہیں چھوڑتا اور اپنے گاؤں سے تعلق نہیں توڑتا۔ سندھی برادری کو بھی کوئی احساسِ کمتری نہیں۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ سندھی بولتے ہیں۔ ہم پنجابی یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ زبان ایک ہتھیار‘ ایک اثاثہ‘ ایک دولت ہے۔ بچے کو ایک زبان سے محروم کر دینا اس کا نقصان کر دینا ہے۔ میرے لیے ممکن ہوتا تو اپنے بچوں کو پشتو اور سندھی بولنا بھی سکھاتا۔ اس ملک میں اگر نظامِ تعلیم میں عقل کا عمل دخل ہوتا تو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پشتو اور سندھی پڑھائی جاتی۔ اسی طرح سندھ‘ کے پی اور دیگر اکائیوں میں دوسرے صوبوں کی زبانیں پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔ مگر تعلیمی نظام کیا‘ کسی بھی نظام میں ہمارے ہاں عقل کی کارفرمائی نہیں ہے۔ پلاننگ ہے نہ مستقبل بینی‘ بس ایک کھٹارہ بس کی طرح ملک چلے جا رہا ہے۔
تھوڑی بہت پنجابی جو ہم بہت بڑا احسان کر کے بولتے بھی ہیں‘ کون سی پنجابی ہے؟ ہم نے پنجابی بولنی ہو تو کہتے ہیں ''میرے پیٹ چے درد اے‘‘ پیٹ پنجابی کا لفظ ہے نہ درد۔ پنجابی میں تو پیٹ کو ڈِھڈ اور درد کو پِیڑ کہتے ہیں۔ دروازے کو بُوا اور کھڑکی کو باری کہتے ہیں۔ چارپائی کو منجی اور لاٹھی کو ڈانگ کہتے ہیں۔ نمک کو لُون کہتے ہیں (سندھی میں بھی لُون ہی کہتے ہیں)۔ مینڈک کو ڈڈو اور کوّے کو کاں کہتے ہیں۔ آج کل ملکو کا گانا بہت وائرل ہو رہا ہے۔ ''نَک دا کوکا‘ ڈِٹھا رتوکا‘‘ رتوکا کسے کہتے ہیں؟ ہماری پٹی میں یعنی پنجاب کے مغربی اضلاع میں پرسوں کو اتروں کہتے ہیں۔ اور اتروکا یا رتوکا کا مطلب ہوا ''پرسوں سے‘‘۔ مگر رتوکا کا ایک اور معنی بھی ہے اور وہ ہے ''رات سے‘‘! اور سرائیکی اور وسطی پنجاب میں یہی مطلب لیا جاتا ہے۔ یعنی کوکا رات سے گُم ہے۔ اسی طرح یہ گیت ہر مرد و زن اور ہر بچے بوڑھے نے سنا ہے۔ چَن کِتھاں گزاری ائی رات وے‘ مینڈا جی دلیلاں دے وات وے! تو یہاں وات کا کیا مطلب ہوا؟ وات پنجابی میں دہانے کو یعنی منہ کو کہتے ہیں۔ دلیلاں سے مراد وسوسے ہے۔ یعنی تم نے رات کہاں گزاری ؟ میرا دل وسوسوں کے منہ میں یعنی وسوسوں میں گھِرا ہوا ہے!
اردو بلاشبہ ہماری قومی زبان ہے مگر ہماری علاقائی زبانیں ہمارا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ بچہ اپنی مادری زبان سیکھے تو اس سے اس کی تخلیقی صلاحیتوں پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ بچے کو اپنی زبان سے محروم کرنا زیادتی ہے۔ علامہ اقبال‘ فیض صاحب‘ منیر نیازی‘ حفیظ جالندھری‘ احمد ندیم قاسمی‘ صوفی تبسم‘ ظفر علی خان‘ اشفاق احمد‘ ممتاز مفتی‘ شورش کاشمیری‘ سب اردو ادب کے بڑے نام ہیں اور یہ سب پنجابی بولتے تھے۔ پنجابی بولنے کی وجہ سے ان کی اردو تحریر و تقریر پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔ ماضی میں پنجاب کے طول و عرض میں جو مدارس تھے اور جن میں سے ہر مدرسہ وقعت میں یونیورسٹی کے برابر تھا‘ ان میں ذریعۂ تعلیم (میڈیم آف انسٹرکشن) پنجابی زبان ہی تھی۔ فارسی اور عربی علوم پنجابی کے ذریعے پڑھائے جاتے تھے۔ خیبرپختونخوا اور افغانستان میں یہی علوم پشتو کی مدد سے پڑھائے جاتے تھے۔ میں علامہ اقبال کے خطوط پڑھ رہا تھا۔ اپنے دوست گرامی پر‘ جو فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے‘ ایک شعر پر بحث کے دوران اپنا موقف پنجابی کی مدد سے واضح کر رہے تھے۔ اظہار کا بہترین ذریعہ مادری زبان ہی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو اگر ہم پنجابی بولیں تو پنجابی پنجابی ہی میں بولیں! اس میں اردو اور انگریزی کے پیوند نہ لگائیں!!