ہر چیز جوڑا جوڑا پیدا کی گئی ہے۔ خشکی ہے تو مقابلے میں تری ہے۔ روشنی ہے تو اندھیرا بھی ہے۔ رات کے ساتھ دن‘ بہار کے ساتھ خزاں‘ سردی کے ساتھ گرمی‘ خیر کے ساتھ شر‘ موت کے ساتھ زندگی! ایسا ہے تو کچے کے ڈاکوئوں کے ساتھ پکے کے ڈاکو بھی ہونے چاہئیں۔ مگر وہ کہاں ہیں؟ کچے کے ڈاکوؤں نے ڈراؤنی‘ بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوتی ہیں۔ مگر پکے کے ڈاکوؤں کی کیا نشانی ہے؟ کچے کے ڈاکو لمبی قمیضیں اور کھلے پائنچوں کی بھاری بھرکم شلواریں پہنتے ہیں اور چادر لپیٹتے ہیں۔ پکے کے ڈاکوؤں کا لباس کیا ہے؟ کچے کے ڈاکوؤں کے پاس بندوقیں‘ ریوالور‘ راکٹ اور گرنیڈ ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کرتے ہیں! پکے کے ڈاکوؤں کے پاس کون کون سے ہتھیار ہوتے ہیں؟ کچے کے ڈاکو لوگوں کے گھر لوٹ لیتے ہیں اور خاندانوں کو برباد کر دیتے ہیں! تو کیا پکے کے ڈاکو بھی یہی کچھ کرتے ہیں؟ کچے کے ڈاکو قانون سے بھاگتے پھرتے ہیں۔ بہت سے اشتہاری مجرم ہیں۔ کچھ کے تو سروں کی قیمت مقرر کی گئی ہے۔ تو کیا پکے کے ڈاکو بھی قانون کو مطلوب ہیں؟
کئی دن سوچتا رہا کہ پکے کے ڈاکو کہاں ہوں گے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ کہیں نہ ہوں کیونکہ ہر چیز جوڑا جوڑا پیدا کی گئی ہے۔ آخر انہیں کیسے ڈھونڈا جائے؟ رہنمائی کے لیے دیوانِ حافظ سے فال نکالی۔ فال میں یہ شعر نکلا:
مشکلِ خویش برِ پیرِ مغاں بردم دوش
کو بتائیدِ نظر حلِّ معمّا می کرد
میں اپنی مشکل کل پیرِ مغاں کے حضور لے گیا۔ وہ اپنی گہری نظر اور فراست سے بڑی بڑی پہیلیاں بوجھ لیتا تھا۔
اس رہنمائی کی روشنی میں پیرِ مغاں کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض گزار ہوا کہ پکے کے ڈاکو کہاں ملیں گے؟ اس نے دوسرے دن آنے کو کہا۔ دوسرے دن پھر حاضر ہوا۔ پیرِ مغاں پہلے سے تیار تھا۔ کچھ بتائے بغیر‘ مجھے ساتھ لیا اور چل پڑا۔ میں نے ہمت کر کے پوچھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ فرمایا: جو سوال تم نے کل کیا تھا اسی کا جواب تلاش کرنے جا رہے ہیں۔ بہرطور تم زیادہ سوال جواب نہ کرو۔ بس دیکھتے جاؤ! چلتے چلتے پیر مغاں ترقیاتی ادارے میں پہنچ گیا۔ اب اس نے زنبیل سے ایک مکان کا نقشہ نکالا اور متعلقہ اہلکار سے کہا کہ یہ نقشہ منظور کرانا ہے تا کہ مکان کی تعمیر ہو سکے۔ اہلکار نے نقشہ لیا اور دیکھے بغیر کاغذات کے بڑے سے ڈھیر کے اوپر رکھتے ہوئے دوسرے دن آنے کا کہا۔ دوسرے دن ہم گئے تو وہ چھٹی پر تھا۔ تیسرے دن بتایا گیا کہ نماز پڑھنے گیا ہے۔ ہم دفتر بند ہونے تک انتظار کرتے رہے مگر وہ نماز کے بعد اپنی سیٹ پر آیا ہی نہیں۔ چوتھے دن پتا چلا کہ وہ ایک اہم نوعیت کی میٹنگ میں گیا ہوا ہے۔ پانچویں دن معلوم ہوا کہ وہ بڑے صاحب کے ساتھ کسی دوسرے شہر گیا ہوا ہے۔ غرض ہم کئی دن جاتے رہے۔ بیس دن کے بعد ایک خوش قسمت دوپہر کو وہ مل ہی گیا۔ وہ ہمیں اپنے ساتھ ایک اور کمرے میں لے گیا۔ وہاں اس کا کوئی افسر ٹائپ بندہ بیٹھا تھا۔ اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے‘ لگی لپٹی رکھے بغیر‘ پوچھا: بزرگو! کوئی سفارش ہے؟ پیرِ مغاں نے کہاکہ خدا کے سوا کوئی سفارش نہیں۔ اس پر اُس افسر ٹائپ بندے نے کہا کہ پچاس ہزار دو تو دس بارہ دن میں نقشہ پاس ہو جائے گا۔ کل لینا چاہتے ہو تو ایک لاکھ لگے گا۔ پیرِ مغاں نے کہا کہ آپ کو اس کام کی حکومت سے تنخواہ ملتی ہے‘ آپ پر لازم ہے کہ پیسے لیے بغیر‘ اپنی ڈیوٹی ادا کریں اور نقشہ منظور کریں۔ اس پر افسر پیر مغاں کو بہت دیر غور سے دیکھتا رہا۔ پھر بہت ہی نرم اور مہربان لہجے میں کہا کہ اچھا پیسہ نہیں لیتے‘ چھ ماہ بعد آکر پتا کر لینا۔ پیر مغاں مجھے باہر لے آیا اور کہا کہ یہ تھا پکے کا ڈاکو!
اب پیر مغاں نے فیصلہ کیا کہ ادارے کے سربراہ کی توجہ اس افسوسناک صورت حال کی طرف مبذول کرانی چاہیے۔ چنانچہ وہ مجھے لے کر ادارے کے سربراہ کے دفتر چلا گیا۔ پی اے سے کہا کہ سربراہ کو ملنا چاہتے ہیں۔ اس نے وجہ پوچھی تو پیر مغاں نے تفصیل بتانے سے معذرت کی اور کہا کہ حساس معاملہ ہے‘ صرف بڑے صاحب کو بتائیں گے۔ پی اے نے پیر مغاں کا فون نمبر لیا اور کہا کہ جیسے ہی صاحب فارغ ہوں گے‘ پیر مغاں کو بلا لیا جائے گا۔ ہفتے مہینے گزر گئے۔کئی بار پوچھا بھی‘ ملاقات نہ ہو سکی۔ پھر پیر مغاں نے سربراہ کے نام خط لکھا۔ اس کا بھی جواب نہ آیا۔ ایک دن پیر مغاں نے بتایا کہ یہ بھی پکے کا ڈاکو ہے۔
اس شام پیر مغاں کے ایک پلاٹ پر ایک غنڈے نے قبضہ کر لیا۔ پیر مغاں نے مجھے ساتھ لیا اور تھانے لے گیا۔ تھانیدار تو موجود نہ تھا۔ ڈیوٹی پر جو محرر تھا اسے ناجائز قبضے کا بتایا اور مطالبہ کیا کہ ایف آئی آر لکھوانی ہے۔ محرر نے کہا کہ یہ اس کے اختیار میں نہیں۔ کل آؤ اور ایس ایچ او صاحب کو ملو۔ کئی دن کے بعد ایس ایچ او ہاتھ آیا۔ جب ایف آئی آر کا کہا تو لیت ولعل کرنے لگا۔ کبھی کہتا کہ صلح کر لو۔ کبھی کہتا کہ قبضہ کرنے والے کو ساتھ لاؤ۔ مہینوں پر مہینے گزر گئے۔ کوئی داد رسی نہ ہو سکی۔ ایک دن پیر مغاں نے اپنا فیصلہ سنایا کہ یہ بھی پکے کا ڈاکو ہے۔ یہاں بھی محکمے کے سربراہ سے ملاقات نہ ہو سکی۔ پیر مغاں نے اس کا نام بھی پکے کے ڈاکوئوں میں لکھ لیا۔
پیر مغاں مجھے لیے جگہ جگہ پھرتا رہا۔ پاسپورٹ آفس میں ارجنٹ والی فیس دی۔ پھر بھی اتنی ہی دیر لگی جتنی عام فیس دینے پر لگتی تھی۔ زرعی زمین کے انتقال کے لیے کچہری کے چکر لگائے۔ رشوت دی تب انتقال ہوا۔ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر سے ملنا چاہا۔ دھکے کھانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ملنا ناممکنات میں سے ہے۔ پیر مغاں نے مجھے سمجھانے اور بتانے کے لیے بندوق کا لائسنس حاصل کرنے کی کوشش کی‘ناکامی ہوئی۔ دوسری طرف ہر غنڈے اور ہر بدمعاش کے پاس لائسنس تھا۔ پیر مغاں گیس‘ پانی بجلی‘ اور کئی دوسرے محکموں میں لے کر گیا۔ کہیں بھی رشوت کے بغیر کام نہ ہوا۔ بازار میں گیا تو آٹا‘ دودھ‘ گاڑی میں ڈالا جانے والا تیل سب جعلی تھے۔ جس دن پیر مغاں کے ساتھ میرا آخری دن تھا‘ اس نے بٹھا کر بتایا کہ اسے معلوم تھا کہ کہیں بھی شرافت سے کام نہیں ہو گا۔ صرف مجھے سمجھانے کے لیے ہر جگہ لے کر گیا۔ اس نے کہا کہ کچے کے ڈاکو دُور سے پہچانے جاتے ہیں مگر پکے کے ڈاکو نہیں پہچانے جا سکتے۔ یہ عام لباس میں ہوتے ہیں۔ شلوار قمیض اور واسکٹ میں یا انگریزی سوٹ بوٹ میں۔ ان کے پاس اسلحہ نہیں ہوتا۔ کاغذ‘ قلم اور کمپیوٹر ہوتا ہے جس سے سائل کو ہلاک کرتے ہیں۔ پکے کے یہ ڈاکو قانون سے بھاگتے نہیں بلکہ قانون خود ان سے دور بھاگتا ہے۔ کچے کے ڈاکو خاندانوں کو برباد کرتے ہیں جب کہ پکے کے ڈاکو نسلوں کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ پکے کے ڈاکو دیکھنے میں ڈاکو نہیں لگتے۔ یہ بظاہر مذہبی بھی ہو سکتے ہیں۔ مغرب کے تعلیم یافتہ بھی ہو سکتے ہیں۔ تاجر بھی ہو سکتے ہیں‘ جاگیردار بھی‘ صنعتکار بھی اور افسر بھی! حکومتی عمائدین میں سے بھی ہو سکتے ہیں! اور ہاں یہ بھی یاد رکھو کہ کچے کے ڈاکو ملک کی دولت ملک سے نکال کر بیرونِ ملک کبھی نہیں لے جاتے۔ پیر مغاں نے مجھے رخصت کیا۔ میں نے اپنا دیوانِ حافظ کا نسخہ سنبھالا اور پناہ لینے کے لیے کچے کے ڈاکوؤں کی طرف چل پڑا۔