کتاب پر تبصرہ پڑھا تو منہ میں پانی بھر آیا۔
یہ رونا تو کئی بار رویا جا چکا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کتابوں کی تجارت نہیں ہو رہی۔ رہی اُن کتابوں کی بات جو امریکہ یا یورپ میں شائع ہوتی ہیں تو جب تک کوئی کتاب ہمارے ملک میں پہنچتی ہے اس وقت تک اس موضوع پر دس اور کتابیں وہاں چھپ چکی ہوتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ مغرب سے آنے والی کتاب اب بہت مہنگی پڑتی ہے۔ ڈالر اور پاؤنڈ کے مقابلے میں روپے کی جو قدر ہے‘ اس نے پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ چار پانچ ہزار سے کم میں شاید ہی کوئی درآمد شدہ کتاب آتی ہو۔ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی ایک بی بی نندینی داس نے‘ جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے‘ تھامس راؤ کے قیامِ ہندوستان پر ایک تفصیلی کتاب لکھی ہے (ہم جانتے ہیں کہ تھامس راؤ برطانوی سفارت کار کی حیثیت سے شہنشاہ جہانگیر کے دربار سے وابستہ رہا تھا)۔ چند ہفتے پہلے لاہور کی ایک معروف کتابوں کی دکان سے یہ کتاب خریدی تو ساڑھے چار ہزار روپے میں پڑی۔ اب ان حالات میں گنجی نہائے کیا اور نچوڑے کیا۔ روپے کی ناقدری نے پاکستان کو کہیں کا نہیں رکھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکمرانوں‘ وزیروں‘ امیروں اور سرکاری عمائدین کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ آئے دن مغربی ملکوں کی یاترا کو جاتے ہیں اور خریداری کے ریکارڈ توڑ کر آتے ہیں۔ دوسری طرف ہم اور ہمارے جیسے عامی ہیں‘ جو صرف کتابیں خریدنے کا شوق رکھتے ہیں مگر روپے کی مسلسل پسپائی کے سبب یہ فقیرانہ شوق بھی پورا نہیں کر سکتے۔ کیا روپیہ اپنی حیثیت بحال کر پائے گا؟ بظاہر تو سرنگ میں دور دور تک روشنی کی کوئی کرن نہیں نظر آرہی۔ جنوبی ایشیا میں رُسوا ترین حالت اس وقت پاکستانی روپے ہی کی ہے۔ آج کی صورتحال کے مطابق ایک امریکی ڈالر 278.68 پاکستانی روپے کا ہے۔ یہی امریکی ڈالر بھارت کے 84 روپوں میں آجاتا ہے۔ بنگلہ دیشی 119 ٹکے ایک ڈالر کے برابر ہیں۔ اور تو اور 70 افغانی ایک ڈالر کے برابر ہیں اور ہمارا منہ چڑا رہے ہیں! ہمارے معاشی جادوگروں کو‘ جو لندن میں رہ کر زیادہ خوش رہتے ہیں‘ ملکی معیشت کی فکر کم ہے اور اپنے مقدمے سیدھے کرانے کی فکر زیادہ ہے۔ یوں بھی اگر آدھا دبئی جیب میں ہو تو روپے کی ناقدری سے کیا تعلق رہ جاتا ہے! دو افراد سفر کے دوران دوست بن گئے۔ ان میں سے ایک کنویں میں گر گیا۔ دوسرے نے اوپر سے جھانک کر کہا ''جہاں رہو خوش رہو‘ میں تو چلا‘‘۔ تو ہم عوام کنویں میں ہیں اور حکمران اوپر سے جھانک کر تسلی دیتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا!
تحریر کے آغاز میں عرض کیا ہے کہ کتاب پر تبصرہ پڑھا تو منہ میں پانی بھر آیا۔ یہ کتاب ایک امریکی خاتون پروفیسر کیرولین ایلکنز (Caroline Elkins) نے لکھی ہے۔ اس کا موضوع برطانوی استعمار کی چیرہ دستیاں ہیں جو اس نے محکوم قوموں پر ڈھائیں۔ اس سفید فام خاتون نے افریقہ‘ خاص طور پر کینیا میں کیے گئے برطانوی مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ کتاب پر جو تبصرہ نظر سے گزرا ہے اس کی رُو سے کیرولین ایلکنز نے ان مظالم کا بھی تذکرہ کیا ہے جو انگریزی تسلط نے بر صغیر پر کیے۔ اس سے پہلے معروف بھارتی سکالر اور پارلیمنٹیرین ششی تھرور نے اسی موضوع پر ایک معرکہ آرا کتاب لکھی جس کا نام ''تاریکی کا دور‘‘ ہے۔ یہ 2016ء میں چھپی تھی۔ اُس وقت بھارت اور پاکستان میں کتابوں کا دو طرفہ تبادلہ ممکن تھا۔ یہ کتاب پاکستان میں خاصی مقبول ہوئی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ کیرولین ایلکنز کی کتاب کیسے اور کہاں سے حاصل کی جائے؟؟ مجھے آسٹریلیا جانا تھا۔ وہاں کی چار پانچ لائبریریوں کا ممبر ہوں۔ ممبر شپ مفت ہے۔ آپ مقامی ہیں یا غیر ملکی‘ صرف نام اور مقامی ایڈریس بتا کر لائبریری کے ممبر بن سکتے ہیں۔ اور یہ ممبر شپ پانچ منٹ سے کم وقت میں حاصل ہو جاتی ہے۔ بیک وقت 30 کتابیں جاری کرا سکتے ہیں۔ اللہ کا نام لے کر ایک لائبریری کو‘ جو قیام گاہ کے قریب ہے‘ ای میل کی اور درخواست کی کہ یہ کتاب لائبریری میں نہیں ہے تو ازراہِ کرم خریدی جائے۔ دوسرے دن ای میل کی رسید موصول ہو گئی۔ دو اڑھائی ہفتے پہلے جب میلبورن پہنچا تو دوسرے ہی دن لائبریری میں جا موجود ہوا۔ گمان غالب یہ تھا کہ کتاب ایک ای میل کے نتیجے میں کہاں منگوائی جا سکتی ہے! لائبریرین سے استفسار کیا تو اس نے سامنے پڑی ہوئی طلسمی مشین پر کلک کی۔ صرف کتاب کی مصنفہ کا نام پوچھا اور چند ثانیوں کے بعد مجھے میرا نام بتا کر آگاہ کیا کہ آپ کی ای میل ملی تو ہم نے کتاب کا آرڈر کر دیا تھا اور یہ کہ کتاب آنے والی ہے۔ جیسے ہی آئی آپ کو اطلاع کر دی جائے گی۔
ان ترقی یافتہ ملکوں میں ایسی سہولتیں اور آسانیاں ایک حساس پاکستانی کو خوشی اور اطمینان نہیں دیتیں بلکہ نیزے کی اَنی کی طرح چبھتی ہیں! فوراً دل میں یہ حسرت جاگ اُٹھتی ہے کہ ایسی کارکردگی ہم پاکستانیوں کو اپنے ملک میں کیوں نہیں حاصل؟ کیا ہے ہمارا گناہ؟ ہم بھی انسان ہیں! لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے پاکستانی انسان نہیں ہیں‘ Sadist ہیں۔ دوسروں کو اذیت پہنچانے سے مسرت کشید کرتے ہیں۔ چھوٹے سے کام میں بھی ایسی ایسی رکاوٹیں ڈالتے ہیں کہ بندہ ان کی منفی سوچ اور شیطانی ذہانت پر اَش اَش کر اٹھتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر گز شتہ ایک ماہ میں دو تجربے ہوئے۔ سی ڈی اے میں ایک چھوٹا سا کام تھا۔ اس کام کی فیس دس ہزار روپے تھے۔ دس ہزار کا پے آرڈر جمع کرا دیا۔ ایک ہفتے بعد سی ڈی اے سے ایک صاحب کا فون آیا کہ پے آرڈر پر آپ کے دستخط نہیں ہیں۔ آکر دستخط کیجیے تاکہ آپ کا کام کیا جا سکے۔ سرکاری برآمدوں میں طویل عرصہ کی آوارہ گردی نے ایک خاص قسم کا غیر خوشگوار اعتماد بخشا ہے۔ پوچھا کہ جب سی ڈی اے نے اپنے اکاؤنٹ میں یہ پے آرڈر جمع کرایا یا کرانا چاہا تو کیا بینک نے میرے دستخط مانگے؟ ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ جس قانون کی رو سے میرے دستخط پے آرڈر پر ہونے لازم ہیں‘ اس قانون کا حوالہ وٹس ایپ کر دیجیے تاکہ حاضر ہو کر قانونی تقاضا پورا کر سکوں۔ اس غیر متوقع جواب پر پکے کا یہ ڈاکو خاموش ہو گیا اور بغیر کچھ کہے فون رکھ دیا۔ ملک سے آتے وقت کتابوں کی وجہ سے سامان زیادہ تھا۔ زائد سامان کی پاداش میں کچھ پیسے دینے پڑے۔ کریڈٹ کارڈ دیا۔ مشین سے رقم کی رسید نکلی۔ میرے سامنے رسید رکھتے ہوئے کاؤنٹر والا کہنے لگا اس پر دستخط کیجیے۔ میں چونک پڑا۔ پوچھا کیوں؟ بھلا کریڈٹ کارڈ کی جو رسید مشین سے نکلتی ہے‘ اس پر کبھی کسی نے دستخط کیے؟ یہ سن کر اس سیہ دل کے چہرے پر سیاہی کا بادل سا آیا اور رسید اس نے میرے آگے سے ہٹا لی۔یہ رویہ‘ غیرضروری اور غیرقانونی مطالبات پیش کرنے کا یہ منحوس رویہ پاکستان کی جڑوں تک پھیلا ہوا ہے اور زہر پھیلا رہا ہے۔ بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ سائل کو سہولت نہیں بہم پہنچانی بلکہ نانی یاد دلانی ہے۔ جس لائبریری کا ذکر اوپر کیا ہے‘ اس کے کاؤنٹر پر کسی پاکستانی کو بٹھا کر دیکھ لیجیے۔ سب سے پہلے تو وہ تحریری درخواست مانگے گا۔ پھر شناختی کارڈ۔ پھر آپ جس گھر میں رہ رہے ہیں‘ اس کے کاغذات۔ پھر ایک فارم بھروائے گا کہ میں لائبریری کے قوانین کی پابندی کروں گا۔ پھر کہے گا کہ اس فارم کو کسی سرکاری افسر سے Attest کرا کر لائیے۔ آپ دوسرے دن یہ بھی کرا لائیں گے۔ پھر وہ کہے گا کہ ایک ہفتے کے بعد آئیے۔ آج ملک کی جو حالت ہے‘ یونہی نہیں ہوئی۔ اس حالت تک پہنچنے کے لیے ہم نے بہت محنت کی ہے!