اس قصے کو فی الحال رہنے دیجیے کہ صوبے کا سربراہ کسی دوسرے ملک سے اپنے طور پر معاملات طے کر سکتا ہے یا نہیں‘ اس بات پر غور کیجیے کہ اگر گنڈا پور صاحب افغانستان سے مذاکرات کریں گے تو کون سا معاملہ طے کریں گے اور کیسے؟
اب تو اس حقیقت میں کسی کو شک نہیں کہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی اصل میں دونوں ایک ہیں۔ جب بھی حکومتِ پاکستان افغانستان کو کہتی ہے کہ ٹی ٹی پی کے حملے افغانستان سے ہو رہے ہیں‘ تو افغان حکومت جواب میں دو باتیں کہتی ہے۔ اول: وہ یہ مانتی ہی نہیں کہ دہشت گردی میں افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ دوم: اس کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے‘ وہ خود ٹی ٹی پی سے بات کرے۔ منطقی طور پر افغان حکومت یہی جواب گنڈا پور صاحب کو بھی دے گی۔ اب اگر گنڈا پور صاحب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرتے ہیں تو کیا وہ ٹی ٹی پی کے مطالبات مان لیں گے؟ ٹی ٹی پی کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ سابقہ قبائلی علاقوں کی پرانی پوزیشن بحال کی جائے۔ اس سے ٹی ٹی پی کو ایک بیس مل جاتی ہے۔ جہاں وہ امارت اسلامیہ قائم کر سکتے ہیں۔ کیا گنڈا پور صاحب یہ مطالبہ مان لیں گے؟ اور اگر ٹی ٹی پی یہ مطالبہ منوائے بغیر‘ صرف گنڈاپور صاحب کی خاطر‘ یعنی تحریک انصاف کی خاطر پاکستان پر حملے بند کر دیتی ہے تو اس سے اس بات پر مُہرِ تصدیق ثبت ہو جائے گی تحریک انصاف اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو تحریک انصاف کی حکومت میں ٹی ٹی پی کے ہزاروں افراد اور ان کے خاندانوں کو پاکستان میں کیسے آباد کیا گیا؟ تحریک انصاف آج تک وضاحت نہیں کر سکی کہ یہ افراد جو لائے گئے‘ مسلح تھے یا غیر مسلح؟
اب ایک اور نکتے پر غور کیجیے۔ عمران خان صاحب نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''جب تک افغانستان سے تعلقات درست نہیں کریں گے دہشت گردی میں پھنسے رہیں گے‘‘۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ دہشت گردی میں افغانستان ملوث ہے۔ اگر افغانستان ملوث نہیں ہے تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی ختم کرنے کے لیے افغانستان سے تعلقات درست کرنا ضروری ہے۔ عمران خان صاحب کا یہ بیان افغان حکومت کے مؤقف سے متصادم ہے۔ افغان حکومت کا اصرار ہے کہ افغانستان کی سر زمین کسی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو رہی اور یہ کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ افغان حکومت کو چاہیے کہ یہ بات عمران خان کے بالواسطہ الزام کے جواب میں بھی کہے!
سچ کیا ہے؟ سچ یہ ہے کہ دہشت گردی ہماری اپنی تلوّن مزاجی کا نتیجہ ہے۔ افغانستان اور طالبان کے حوالے سے ہماری پالیسیاں اتنی بار بدلی ہیں کہ شمار سے باہر ہے۔ ہم طالبان کے ساتھ تھے بھی اور نہیں بھی۔ اسی طرح ہم امریکہ کے حامی بھی رہے اور درپردہ مخالف بھی۔ امریکہ نے الزام بھی لگایا کہ ہم درپردہ طالبان کے حامی رہے۔ دوسری طرف ہم نے جو سلوک مُلا عبد السلام ضعیف کے ساتھ کیا‘ اسے کون بھلا سکتا ہے۔ ہم نے اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح وضع کی۔ جنہیں ہم اچھے طالبان کہتے رہے آج وہ بھی ہمارے مخالف ہیں۔ ایک صاحب کو فاتح جلال آباد کا لقب بھی دیا گیا۔ جلال آباد فتح تو نہیں ہوا مگر ہماری ''خوش نیتی‘‘ کا علم افغانستان کو ضرور ہو گیا۔ افغانستان کے بارے میں پاکستان کی بدلتی پالیسیاں سیاسی حکومتوں کے اختیار میں بھی نہیں رہیں۔ پالیسیاں بناتا کوئی ہے اور منسوب کسی سے ہوتی ہیں۔ پہلے ہم اپنا گھر تو ٹھیک کریں!
رہی یہ بات کہ ایک صوبائی حاکم‘ وفاق کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک دوسرے ملک سے معاملات طے کر سکتا ہے یا نہیں تو جہاں تک عمران خان صاحب کا تعلق ہے انہوں نے گنڈا پور صاحب کی اس ضمن میں حمایت کی ہے۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ کل کو جب عمران خان وزیراعظم ہوں گے اور پنجاب کا کوئی حاکم بھارت سے کشمیر کے مسئلے پر بات چیت کرے گا اور سندھ کا حاکم بھارتی حکومت سے اپنے سرحدی مسائل کے حوالے سے بکھیڑے سلجھائے گا تو وزیراعظم عمران خان کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ انہوں نے ایک اصول طے کر لیا ہے کہ صوبے اپنے پڑوسی ملکوں سے معاملات وفاق کو خاطر میں لائے بغیر‘ خود طے کر سکتے ہیں! کل کو جب وہ‘ ان شاء اللہ‘ وزیر اعظم بنیں گے تو حکم صادر فرمائیں گے کہ ایران کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی بلوچستان کا حاکم طے کرے گا۔ خارجہ پالیسی کا بہت سا بوجھ وفاق کے کندھوں سے اُتر جائے گا۔ اللہ اللہ خیر سلّا!
جو واقعہ کوئٹہ میں پیش آیا ہے اس کی مثال پاکستان کے علاوہ کسی اور مسلمان ملک میں نہیں ملتی۔ توہینِ مذہب کا ایک مبینہ ملزم ایک تھانے کی حوالات میں بند تھا۔ تھانے پر ہجوم نے حملہ کر دیا۔ ملک کے مؤقّر ترین انگریزی اخبار کے مطابق یہ ہجوم مذہبی جماعتوں پر مشتمل تھا۔ اخبار نے ایک خاص مذہبی جماعت کا نام بھی لکھا ہے۔ ملزم کو ہجوم سے بچانے کے لیے ایک اور تھانے میں منتقل کر دیا گیا۔ وہاں ملزم کو ایک پولیس کانسٹیبل نے اپنے ذاتی پستول سے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ توہینِ مذہب کے حوالے سے باقاعدہ قانون ہے۔ ملزم کو سزا دینا عدالتوں کا کام ہے اور ریاست کا۔ ایک مدت سے یہ ذمہ داری پاکستانی عوام نے اپنے سر لی ہوئی ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ ملزم کو سزا عدالت نے نہیں دی۔ اس صورتحال کی ذمہ داری سو فیصد ریاست پر آرہی ہے۔ریاست نے آج تک ایسے اقدامات نہیں کیے جو اس ہجوم گردی کو روک سکیں۔ کسی مجرم کو کبھی سزا نہیں ملی۔ زیادہ تر ایسے واقعات میں مسجدوں کے لاؤڈ سپیکر استعمال ہوتے ہیں جن کے ذریعے ہجوم کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے بھی کوئی پالیسی نہیں بنی‘ نہ ہی کوئی قانون سازی ہوئی ہے۔
عوام کا یہ مائنڈ سیٹ کیسے بنا؟ کون اس ذہن سازی کا ذمہ دار ہے؟ اس کا تدارک کیسے کیا جائے؟ ان تین سوالوں کے جواب حکومتوں کو دینے چاہیے تھے مگر کسی حکومت نے اس ضمن میں اپنے فرائض نہیں ادا کیے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کابینہ کی یا پارلیمنٹ کی کوئی کمیٹی‘ کوئی کمیشن اس پر کام کرے‘ تحقیق کر کے ان تینوں سوالوں کا جواب دے اور اس سلسلے میں تجاویز بھی پیش کرے۔ ان تجاویز پر کابینہ میں یا پارلیمنٹ میں بحث ہو اور پھر فیصلے کیے جائیں۔ پے در پے ہونے والے ایسے واقعات کی وجہ سے پاکستان کا جو امیج دنیا میں بن گیا ہے وہ قابلِ رشک ہر گز نہیں۔ ہر نئے دن کے ساتھ یہ امیج زیادہ گہرا ہو رہا ہے۔ اس امیج میں کبھی سیالکوٹ رنگ بھر رہا ہے‘ کبھی جڑانوالہ‘ کبھی سرگودھا اور کبھی سوات!! الجزیرہ سے لے کر بی بی سی تک عالمی میڈیا ان واقعات کو رپورٹ کرتا ہے۔ پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ ایک طرف مذہب کے نام پر ہم قتل و غارت کر رہے ہیں دوسری طرف ہم ہر اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں جس کے بارے میں تصور کیا سکتا ہے۔ پچھلے سال ایک ارب 23کروڑ روپے کی بجلی چوری ہوئی۔ برآمد کیے جانے والے کھُسّوں سے منشیات پکڑی گئی ہیں۔ یو اے ای نے شکوہ کیا ہے کہ پاکستان سے بھکاری آرہے ہیں۔ پاکستانیوں کو ویزے دینے سے انکار پر انکار ہو رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ جون ایلیا نے یہ شعر پاکستان ہی کے حوالے سے کہا:
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں