''آخر پاکستان کی قومی ایئر لائن آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے پاکستانیوں سے کیوں ناراض ہے؟ کیا ہی اچھا ہو اگر آسٹریلیا میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر وضاحت کر دیں کہ اس ضمن میں سفارت خانے نے اب تک کیا کوششیں کی ہیں اور آئندہ کا پلان کیا ہے؟‘‘۔ یہ سطور ہم نے گزشتہ کالم میں لکھی تھیں۔ آسٹریلیا میں تعینات پاکستانی سفیر جناب زاہد حفیظ چودھری نے فون کر کے وضاحت کی ہے کہ تقریباً دو سال پہلے تمام کارروائی مکمل ہو چکی تھی۔ آسٹریلیا کے محکمہ ہوا بازی کی کچھ Requirements تھیں‘ کچھ التزامات تھے‘ کچھ لوازمات تھے۔ بدقسمتی سے ہماری قومی ایئر لائن یہ التزامات اور لوازمات پورے نہ کر سکی۔ یوں سفارت خانے کی تمام کو ششو ں پر پانی پھر گیا۔ گویا:میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا
بھارت کو تو چھوڑیے‘ آسٹریلیا کے شعبۂ ہوا بازی کے جو التزامات اور لوازمات سری لنکا ایئر لائن پورے کر رہی ہے‘ بنگلہ دیش ایئر لائن پورے کر رہی ہے‘ وہ ہماری قومی ایئر لائن پوری کرنے سے قاصر ہے۔ وجہ ظاہر ہے نااہلی اور نالائقی ہے۔ یہی پی آئی اے تھی جو ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان کی قیادت میں دنیا بھر کی فضاؤں پر چھائی ہوئی تھی‘ آج ایک تہمت کے سوا کچھ نہیں۔ کبھی اسے یورپ سے دیس نکالا ملتا ہے کبھی اس پر امریکہ میں پابندی لگتی ہے۔ کبھی اس کے جہاز ملائیشیا میں روک لیے جاتے ہیں۔ دو سال تک انہیں اُڑنے کی اجازت نہیں ملتی یہاں تک کہ ہماری قومی ایئر لائن چھبیس ملین ڈالر کی خطیر رقم ادا کر کے یہ جہاز چھڑواتی ہے۔ دوسری طرف اس کے ملازمین عیش کر رہے ہیں۔ جہاز نہیں ہیں مگر جہازوں کا عملہ برقرار ہے۔ نصف درجن یونینیں راج کر رہی ہیں۔ کسی کو نکالنے نہیں دیتیں۔ کسی کے خلاف ایکشن نہیں لینے دیتیں۔ مراعات بارش کی طرح برس رہی ہیں۔ تنخواہیں اتنی کہ خلقِ خدا رشک کرے۔ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ ایئر لائن کو بیچ دیا جائے گا مگر سب جانتے ہیں کہ گروہی مفادات کی وجہ سے بیچی نہیں جا رہی۔ مستقبل قریب میں اس سفید ہاتھی کے بکنے کے کوئی آثار نہیں۔ ظاہر یہ کیا جائے گا کہ فروخت کی جا رہی ہے مگر کبھی اس وجہ سے اور کبھی اُس وجہ سے فروخت نہیں ہو گی۔ یہ ایک لمبا قصہ ہے مگر فوری مسئلہ یہ ہے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں رہنے والے لاکھوں پاکستانی ڈائریکٹ فلائٹ کے ذریعے اپنے وطن کب روانہ ہوں گے۔ کیا قومی ایئر لائن کے موجودہ سربراہ قوم کو مطلع فرمائیں گے کہ آسٹریلیا کی عائد کردہ کون سی Requirements پوری نہیں کی جا رہیں؟ کون ذمہ دار ہے؟ صورت حال کب تبدیل ہو گی۔ اس مقصد کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟
ہم نے جنگ میں بھارت پر برتری حاصل کر لی۔ اس لیے کہ ہماری مسلح افواج منظم ہیں‘ مستعد ہیں اور اپنے پیشہ ورانہ فرائض چابکدستی سے سرانجام دے رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ باقی شعبوں کی کیا حالت ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم کرپشن کی جان لیوا دلدل میں گلے گلے تک دھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے سول شعبوں کی اکثریت پرلے درجے کی نااہلی کا شکار ہے۔ پولیس‘ کچہری‘ کسٹم‘ ترقیاتی ادارے‘ ہر جگہ بدعنوانی کا رواج ہے۔ صرف رشوت نہیں‘ نالائقی بھی عروج پر ہے۔ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ راولپنڈی اور جہلم کے درمیان میرے ایک قریبی دوست نے زرعی فارم بنایا ہے۔ زندگی بھر کی جمع پونجی اس میں لگائی۔ بجلی لگوانا تھی تو بھاری ''نذرانہ‘‘ طلب کیا گیا۔ خیر دوڑ دھوپ کر کے بجلی نذرانہ دیے بغیر لگوا لی۔ گرداوری کرانے کا وقت آیا تو ضلعی محکمہ مال نے چار لاکھ روپے مانگے۔ تحصیلوں اور ضلعوں میں غدر مچا ہوا ہے۔ حکمرانوں کو چیلنج ہے کہ عام شہری کی حیثیت میں کسی بھی کچہری یا تحصیل میں جائداد یا زمین کا انتقال رشوت دیے بغیر کرا کے دکھائیں۔ کل ایک ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ماہرِ امراضِ قلب ہیں۔ تعلق بلوچستان سے ہے۔ بیرونِ ملک رہتے ہیں اور پاکستان میں فلاحی کام کرنے کی دُھن سوار ہے۔ ایک بس میں انہوں نے سفری (متحرک) یعنی چلتا پھرتا ہسپتال قائم کیا ہے۔ اس کا ہیڈ کوارٹر بارہ کہو میں ہے۔ یہ متحرک ہسپتال ساہیوال اور جنوبی پنجاب تک جاتا ہے۔ بس میں لیبارٹری بھی ہے اور ڈاکٹر بھی۔ ڈاکٹر صاحب بیرونِ ملک سے طبی مشینیں یا آلات لاتے ہیں تو ان سے ہوائی اڈوں پر جو سلوک ہوتا ہے اس کی تفصیل سن کر رونگٹے بھی کھڑے ہوئے اور شرم سے زمین میں گڑ جانے کو بھی دل چاہا۔ دل میں پڑنے والے سٹنٹ باہر سے لائے۔ ایک بڑے ایئر پورٹ پر انہیں گھیر لیا گیا۔ گھیرنے والے نے بتایا کہ وہ بھی بنیادی طور پر ڈاکٹر ہے۔ (ڈاکٹر حضرات سی ایس ایس کر کے کسٹم اور سول سروس کے دوسرے شعبوں پر نازل ہوتے رہتے ہیں) ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پوچھا: ان سٹنٹس کا کیا کریں گے؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ یہ مستحق مریضوں کو مفت لگائے جائیں گے۔ مطالبہ ہوا کہ ایک سٹنٹ نذرانے میں پیش کر دیجیے۔ نیک دل ڈاکٹر پہلے تو حیران ہوا‘ پھر انکار کر دیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ان سے بطور محصول کیا لیا گیا ہو گا؟ پندرہ لاکھ روپے! جی ہاں! پندرہ لاکھ روپے محصول عائد کیا گیا۔ کراچی بندرگاہ سے لے کر ہوائی اڈوں تک‘ غنڈہ ٹیکس کی‘ بھتے کی‘ جگا ٹیکس کی‘ جو نام دینا چاہیں دے لیجیے‘ سینکڑوں ہزاروں داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ کیا بات ہے ہماری لیاقت کی اور استعدادِ کار کی۔ افراد تو بائی پولر بیماری Bipolar Disorder کا شکار ہوتے ہی ہیں‘ لگتا ہے ہم بطورِ قوم اس مرض کا شکار ہیں۔ بائی پولر بیماری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
Cycles of extreme mood and energy levels, ranging from periods of intense highs to periods of extreme lows.
یعنی ایسی بلندی‘ ایسی پستی۔ بس فرق یہ ہے کہ ہم نیچے جانے کے بعد پھر اوپر نہیں آتے۔ قومی ایئر لائن کہاں تھی‘ اب کہاں ہے! ریلوے انگریزوں سے وراثت میں جب ملی تھی تو کیسی تھی اور آج کس حال میں ہے! ریلوے کی وسیع وعریض زمینیں اور جائدادیں کن کن کے جبڑوں میں جکڑی ہوئی ہیں؟ ہے کوئی جو نام لینے کی بھی جرأت کرے؟ (میں بھی یہ جرأت نہیں کر رہا) سٹیل مل ماسکو سے چلی تھی تو تندرست وتوانا تھی‘ آج ایک ایسا مردہ ہے جو بے گور وکفن پڑا ہے۔ دنیا کی تمام جمہوریتوں میں ضلعوں‘ تحصیلوں اور ان کے نیچے بستیوں کے امور منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ پاکستان عجیب جمہوری ملک ہے جہاں انگریزوں کا قائم کردہ ضلعی اور تحصیلی ڈھانچہ بالکل اسی طرح زندہ ہے جیسے ڈیڑھ سو سال پہلے تھا۔ وہی ڈپٹی کمشنر‘ امرت دھارا‘ ہر مرض کا علاج! وہی کمشنر وہی اے سی! کہاں ہیں ضلع اور تحصیل سطح پر منتخب نمائندے؟؟ ایک ایک روپیہ‘ ایک ایک پیسہ لاہور‘ کراچی‘ پشاور سے مانگنا پڑتا ہے۔ یہ جمہوریت ہے یا لارڈ کرزن اور لارڈ ویول کا زمانہ؟ ملک کے دارالحکومت تک کو منتخب میئر نصیب نہیں! کیوں؟ اس لیے کہ منتخب میئر ہاتھ باندھ کر جی سر! جی سر کہے گا نہ رکوع میں جائے گا۔ چیف کمشنر یا ترقیاتی ادارے کے چیئرمین کو اپنی اگلی ترقی اور اگلی تعیناتی کی گارنٹی لینی ہے۔ وہ شہریوں سے‘ شکایت کنندگان سے‘ سائلوں سے کیوں ملے گا؟
جسے معلوم ہے اسے معلوم ہے‘ جسے نہیں معلوم وہ سن لے کہ صرف عسکری میدان کی برتری سے کام نہیں بنے گا! عساکر نے اپنا فرض ادا کیا! سول کے کھڑپینچ کہاں ہیں؟ کب جاگیں گے؟ سول انتظامیہ ڈیڑھ دو سو سال پہلے کے ملبے کے نیچے سے کب نکلے گی؟ چیف سیکرٹری‘ وزیراعلیٰ سے کب کہے گا کہ حضور! بیرونِ ملک آپ کا دورہ سرکاری نہیں ہے۔ میں آپ کے ہمراہ نہیں جا سکتا!! ذہنی پختگی کے اس سٹیج تک پہنچنے کیلئے کتنا عرصہ درکار ہو گا؟؟
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ! ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی