بادشاہ کشتی کی سیر سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا مگر اس کے ایک غلام نے سارا مزہ کرکرا کر دیا۔ غلام اس سے پہلے کشتی میں کبھی سوار نہیں ہوا تھا۔ چاروں طرف پانی دیکھ کر خوف اس کے رگ و پے میں سما گیا۔ اس نے رونا اور چیخنا شروع کر دیا۔ کبھی کہتا مجھے واپس لے چلو‘ کبھی چیختا کہ میں پانی میں ڈوب جاؤں گا‘ میرے بچوں کا کیا ہو گا۔ کشتی ذرا سا ہچکولا کھاتی تو وہ ایک دلدوز چیخ مارتا اور اونچی آواز سے از سر نو رونا شروع کر دیتا۔ سب نے اسے تسلی دی مگر اسے کسی طور سکون نہ آیا۔ بادشاہ کے ساتھ ایک مردِ دانا بھی تھا۔ (ایسے ہی داناؤں کی وجہ سے حکومتیں چلتی تھیں!) اس نے جہاں پناہ سے اجازت چاہی کہ غلام کا مسئلہ حل کر دے۔ بادشاہ نے اجازت دے دی۔ دانا شخص نے حکم دیا کہ غلام کو دریا میں پھینک دیا جائے۔ ایسا ہی کیا گیا۔ غلام چند غوطے کھا چکا اور ہاتھ پاؤں مار چکا تو اسے کھینچ کر کشتی میں واپس لایا گیا۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور کشتی کے ایک کونے میں آرام اور سکون سے بیٹھ گیا۔ بادشاہ نے دانا شخص سے اس علاج کی تہہ میں چھپی حکمت پوچھی تو اس نے کہا کہ بے وقوف غلام کو کشتی کی عافیت کی قدر نہیں تھی۔ غوطے کھانے کے بعد اسے احساس ہوا کہ سلامتی کسے کہتے ہیں!
گلستانِ سعدی کی یہ حکایت کسی نہ کسی شکل میں اکثر لوگوں نے سنی ہوئی ہو گی۔ آج 14 اگست کے دن اس کی یاد یوں آئی کہ جب سے پاکستان کی کشتی وجود میں آئی ہے‘ کوتاہ بین لوگ چیخ و پکار میں مصروف ہیں اور رونا پیٹنا ڈالے ہوئے ہیں۔ وہ ان مسلمانوں کی طرف نہیں دیکھتے جو بھارت کے بپھرے ہوئے دریا میں غوطے کھا رہے ہیں۔ جن کی زندگیاں ہر وقت داؤ پر لگی ہیں۔ جو بکرے کا گوشت کھانے اور گھر میں رکھنے پر بھی مار دیے جاتے ہیں۔ جو گائے بیچنے کے لیے لے جا رہے ہوں تب بھی کچل دیے جاتے ہیں۔ جن کی شہریت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ جنہیں ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے نام بدلنا پڑتے ہیں اور جن کی بیٹیوں کے گھر بسنے میں ہزارہا ناگفتہ بہ رکاوٹیں حائل ہیں! یہ حلقے طوطے کی طرح ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ تین ملکوں میں بٹے ہوئے مسلمان‘ ایک ملک میں یعنی متحدہ ہندوستان میں ہوتے تو ایک بڑی طاقت ہوتے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی بیس کروڑ آبادی‘ اتنی کم بھی نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جائے مگر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں مسلمان نمائندوں کی تعداد دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بیس کروڑ کی آبادی کو کتنی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ساٹھ ستر کروڑ مسلمان بھی اقلیت ہی ہوتے اور ان کے ساتھ اقلیتوں جیسا سلوک ہی کیا جاتا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کا ادبی اور صحافتی مقام بلند ہے۔ اس سے انکار نہیں۔ تاہم ایک بات دلچسپ ہے کہ پاکستان کے بارے میں تو انہوں نے پیشگوئیاں کیں‘ جن کی پاکستان کے ''خیر خواہوں‘‘ نے خوب خوب تشہیر کی اور ہر تھوڑے عرصہ کے بعد اس باسی کڑھی میں ابال آتا ہے۔ کاش مولانا ہندوستانی مسلمانوں کے متعلق بھی اپنی مستقبل شناسی کے فن کو استعمال کرتے اور بتاتے کہ ایک بی جے پی آئے گی اور اس کے بعد ادتیا ناتھ‘ مودی اور امیت شاہ جیسے سانپ پٹاریوں سے باہر نکل آئیں گے اور بھارتی مسلمانوں کی زندگی جہنم بنا دیں گے۔ تقسیم کے بعد مولانا بھارت کے وزیر تعلیم بنائے گئے۔ انہوں نے سر توڑ کوشش کی کہ ہندی کے بجائے قومی زبان کا نام ہندوستانی رکھا جائے تاکہ سارے ہندوستان کے لیے قابلِ قبول ہو مگر مولانا کی کسی نے نہ سنی۔
کوئی مانے یا نہ مانے‘ 14 اگست ہمارے لیے ایک نئی صبح لے کر آیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت کو ایک جائے پناہ ملی۔ آج پاکستان ہے یا بنگلہ دیش‘ مسلمانوں کی اپنی صنعتیں ہیں‘ اپنی زراعت ہے۔ وزرائے خارجہ اپنے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان نوجوانوں کو ملازمت کے لیے ہندو اکثریت کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑتے۔ ان کے بچوں کو سکولوں میں بندے ماترم کا ترانہ نہیں گانا پڑتا۔ ان کی خواتین کو زندہ رہنے کے لیے نام نہیں بدلنا پڑتے۔ ہولی کے موقع پر انہیں مسجدوں کو نہیں ڈھانپنا پڑتا۔ آج بھارتی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ خزانہ میں کتنے مسلمان ہیں؟ کتنے بھارتی سفیر مسلمان ہیں؟ کتنے بھارتی مسلمان طلبہ و طالبات سکالرشپس پر مغربی ملکوں میں جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ بھارتی افواج میں کتنے مسلمان ہیں؟ کیا یہ سب کچھ مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے ہے؟ نہیں! جناب! نہیں! ہر گز نہیں! کسی شعبے میں بھی بھارتی مسلمانوں کو ان کی آبادی کے حساب سے حصہ نہیں مل رہا۔ ان کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں! ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ انہیں کرائے پر مکان نہیں ملتے۔ مسلمانوں کی اکثریت زیریں طبقے میں چلی گئی ہے۔ اکثریت بہت معمولی سطح کے روزگار سے زندہ رہ رہی ہے۔ فسادات کا خطرہ ہر وقت ان کے سر پر منڈلاتا ہے۔ اور جب بھی مسلمانوں کے خلاف فسادات کیے جاتے ہیں‘ پولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے۔
آج کا بنگلہ دیش بھی چودہ اگست ہی کا مرہونِ منت ہے۔ یاد رہے کہ 1905ء میں بنگال کو تقسیم کیا گیا تھا۔ بنگال اور آسام کے مشرقی حصوں کو الگ کرکے ڈھاکہ کو دارالحکومت بنایا گیا تھا۔ اس پر ہندوؤں نے شورِ قیامت برپا کر دیا تھا۔ اس لیے کہ مغربی بنگال نے معاشی لحاظ سے مشرقی بنگال کو مغلوب کرکے رکھا ہوا تھا۔ مسلمان اس تقسیم سے خوش تھے۔ ان کے لیے تعلیمی‘ اقتصادی اور انتظامی مواقع زیادہ ہو گئے تھے‘ مگر ہندو غالب آ گئے۔ چھ سال بعد 1911ء میں یہ تقسیم منسوخ کر دی گئی۔ مشرقی پاکستان الگ ہوا تو بھارت میں جو مسرت کی خبیث لہر اٹھی تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مشرقی بنگال اور سلہٹ‘ چودہ اگست کو مشرقی پاکستان بن گئے تھے۔ بھارتی سمجھے تھے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک اور 1911ء ثابت ہو گی۔ اور مشرقی پاکستان الگ ہو کر مغربی بنگال میں ضم ہو جائے گا۔ مگر بنگلہ دیش کا قیام 1947ء کے بعد بھارت کے لیے دوسرا بڑا صدمہ تھا۔ امیدیں خاک میں مل گئیں۔ آج بنگلہ دیش سر اٹھا کر‘ خم ٹھونک کر بھارت کے سامنے کھڑا ہے۔ وہی مشرقی پاکستان! نام بدل کر!
پاکستان کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ہم حقیقی جمہوریت سے ابھی تک دور ہیں۔ ہمارے اقتصادی مسائل ہیں۔ ہمیں دہشت گردی کا سامنا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو حل ہو سکتے ہیں اور ان شاء اللہ حل ہوں گے۔ مگر الحمدللہ! چودہ اگست نے ہمیں ایک کینہ پرور اکثریت کی غلامی سے بچا لیا۔ ہم ایک آزاد وطن کے شہری ہیں! آخر میں اپنے چند اشعار۔
یہی مٹی سونا چاندی ہے جیسی بھی ہے؍ یہی مٹی اپنی مٹی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی میں ہم بیج کی صورت جائیں گے؍ ہمیں اپنے اندر رکھتی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی سے ہم پھوٹیں گے کونپل بن کر؍ یہی مٹی ماں ہمیں جنتی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی نے ہمیں دودھ پلایا بڑے ہوئے؍ ہمیں پاؤں پاؤں چلاتی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی میں اجداد کی مٹی شامل ہے؍ یہی خون رگوں میں بنتی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی نے ہمیں بادل اور ہوائیں دیں؍ یہی چھو کے فلک کو آتی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی نے ہمیں شربت شہد شرابیں دیں؍ یہی ہونٹوں کی شیرینی ہے جیسی بھی ہے؍ اسی مٹی سے زیتون کے باغ اگائیں گے؍ یہی غرناطہ یہی سِسلی ہے جیسی بھی ہے!