نئے صوبے … میاں عامر محمود کی تجاویز

''بالائی طبقے سے تعلق رکھنے والے موجودہ سیاستدانوں کی موجودگی میں پاکستان دنیا میں اپنا جائز مقام کبھی حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ ایک مختصر ''خصوصی‘‘ کلب ہے جس کے ارکان اوسط درجے کی ذہانت رکھتے ہیں‘ ان کا ویژن محدود ہے‘ نااہل ہیں‘ دانش کے اعتبار سے کمزور اور اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ! یہ صرف ایک فن کے ماہر ہیں۔ اور وہ فن ہے اپنے مفادات کی حفاظت! پاکستان کے اَپر کلاس سیاستدان دو طبقوں میں منقسم ہیں۔ پہلا طبقہ حکمران خاندانوں پر مشتمل ہے۔ دوسرا طبقہ ان کے قریبی حواریوں پر۔ حکمران خاندانوں کے افراد اقتدار اور مراعات کے اولین دعویدار اور حقدار ہیں۔ دوسرے نمبر پر ان کے حواری ہیں جو ان ٹکڑوں پر پلتے ہیں جو حکمران خاندان ان کی طرف پھینک دیتے ہیں۔ لیڈر شپ مہیا کرنے والے اس سرچشمے کو بڑا کرنا پڑے گا۔ اس سرچشمے کو بڑا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ صوبوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ ایسا کرنے سے مقامی لیڈرشپ کو ابھرنے کے اتنے مواقع ملیں گے جن کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہی لیڈر شپ ہے جس کا راستہ موجودہ ''شاہی‘‘ خاندانوں نے روکا ہوا ہے‘‘۔
یہ نعرۂ حق میاں عامر محمود نے بلند کیا ہے۔ ان کی تصنیف: Pakistan 1947-2025: Why It Continues to Fail Its People? نے مجھے اس لیے اپیل کیا ہے کہ میں خود ایک مدت سے بھارت کی مثالیں دے دے کر لکھ رہا ہوں کہ پاکستان کو نئے صوبوں کی اشد ضرورت ہے۔ میاں صاحب کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ موجودہ ریاستی ڈھانچہ گورننس کی ناکامی کا سبب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گورننس کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔ اول: اچھی ایڈمنسٹریشن جو عوام کو ان کے حقوق دے سکے۔ دوم: مالی وسائل کا حصول تاکہ ایڈمنسٹریشن کے اخراجات پورے ہوں۔ ایڈمنسٹریشن دو عوامل پر منحصر ہے۔ رقبہ اور آبادی۔ رقبہ جتنا وسیع ہو گا اور آبادی جس قدر زیادہ ہو گی‘ ایڈمنسٹریشن اتنی ہی مشکل ہو گی۔ ایڈمنسٹریشن کا سیٹ اَپ اگر ایک ہو گا مگر آبادی زیادہ اور رقبہ وسیع و عریض ہو گا تو ایڈمنسٹریشن کے لیے ہر جگہ اور ہر فرد تک پہنچنا آسان نہیں ہو گا۔ یہاں پر ایک نکتہ اور اٹھایا گیا ہے کہ وفاق کی افادیت کم کیوں ہو جاتی ہے؟ یہ نکتہ مسئلے کی جڑ ہے۔ وفاق کی افادیت کم ہونے کی وجوہ تین ہیں۔ ان پر خوب غور ہونا چاہیے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اگر چھوٹی اکائیوں کے اختیارات کم ہوں اور سب کچھ مرکز کے ہاتھ میں ہو! دوسری وجہ یہ ہے کہ اکائیاں آبادی اور رقبے میں بہت بڑی ہوں۔ (پنجاب اور بلوچستان اس کی واضح مثالیں ہیں)۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اکائیاں باہمی طور پر غیر متوازن ہوں۔ جیسے بلوچستان اور پنجاب۔ ایک کی آبادی بہت زیادہ اور دوسرے کی بہت کم! سارے مسئلے کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ فیصلہ سازی کا مقام عوام کے لیے دور نہ ہو۔ کہاں شکارپور اور کہاں کراچی! کہاں اٹک اور کہاں لاہور! کہاں مانسہرہ اور ڈیرہ اسماعیل خان اور کہاں پشاور! کہاں گوادر اور لسبیلہ اور کہاں کوئٹہ! ان نامساعد فاصلوں کا حل ایک ہی ہے۔ اختیارات کی مقامی سطح پر تقسیم!!
میاں عامر محمود اس تضاد کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ تحصیلوں‘ ضلعوں اور ڈویژنوں کی تعداد تو ہم بڑھاتے گئے۔ تقسیم کے وقت پنجاب کے اضلاع کی تعداد 16 تھی‘ اب 41ہے۔ تقسیم کے وقت پورے ملک میں چھ ڈویژن تھے‘ اب 30سے زیادہ ہیں۔ مگر دوسری طرف صوبوں کی تعداد اتنی ہی رہی۔ سرحد پار بھارت میں تقسیم کے وقت ریاستوں (صوبوں) کی تعداد نو تھی‘ آج 28ہے۔ نو علاقے جو مرکز کے پاس ہیں‘ ان کے علاوہ ہیں۔ امریکہ کی ریاستیں آزادی کے وقت بارہ تھیں آج پچاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں وہی چار صوبے چلے آرہے ہیں جو تقسیم کے وقت ملے تھے۔
میاں عامر محمود صوبوں کے موجودہ ڈھانچے کے نقصانات بھی گنواتے ہیں۔ ایک صوبہ اتنا بڑا ہے کہ پورے ملک کی آبادی کے 53 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔ باقی تمام صوبوں کی آباد ی 47 فیصد ہے۔ یہ انتہا درجے کا عدم توازن ہے۔ ایک صوبہ پورے ملک پر غالب ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ تمام چھوٹے صوبے پنجاب سے شاکی ہیں۔ پنجاب کو چھوٹے صوبوں میں تقسیم اس لیے نہیں ہونے دیا جا رہا کہ موجودہ سائز قومی سطح پر چودھراہٹ کا ضامن ہے۔ میاں عامر محمود کی تجویز یہ ہے کہ ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دے دیا جائے۔ پنجاب کے صوبے دس ہونے چاہئیں۔ ان کی تفصیل یوں ہے: 1۔لاہور (لاہور‘ قصور‘ شیخوپورہ‘ ننکانہ صاحب) 2۔ گوجرانوالہ (گوجرانولہ‘ سیالکوٹ‘ نارووال)۔3 ۔ فیصل آباد (فیصل آباد‘ جھنگ‘ چنیوٹ‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ )۔ 4۔ سرگودھا (سرگودھا‘ میانوالی‘ بھکر‘ خوشاب)۔ 5۔ساہیوال (ساہیوال‘ اوکاڑہ‘ پاکپتن) 6۔ راولپنڈی (راولپنڈی‘ اٹک‘ جہلم‘ چکوال )۔ 7۔ ڈی جی خان (ڈی جی خان‘ راجن پور‘ لیہ‘ مظفر گڑھ) 8۔ملتان (ملتان‘ وہاڑی‘ خانیوال‘ لودھراں)۔ 9۔بہاولپور (بہاولپور‘ بہاولنگر‘ رحیم یار خان) 10۔ گجرات (گجرات‘ منڈی بہاء الدین‘ حافظ آباد)۔ سندھ کے سات صوبے ہوں گے: کراچی‘ حیدرآباد‘ لاڑکانہ‘ بے نظیر آباد‘ سکھر‘ میر پور خاص اور بھمبور۔ خیبر پختونخوا کے بھی سات صوبے بنیں گے: ڈیرہ اسماعیل خان‘ بنوں‘ ہزارہ‘ کوہاٹ‘ مالاکنڈ‘ مردان اور پشاور۔ بلوچستان کے مجوزہ صوبے آٹھ ہیں: نصیر آباد‘ سبی‘ ژوب‘ قلات‘ مکران‘ کوئٹہ‘ رخشان‘ لورالائی۔
میاں عامر محمود کا مؤقف ہے کہ آئین میں نئے صوبوں کی تشکیل کا طریقِ کار مشکل بلکہ بہت مشکل ہے۔ آرٹیکل 239کے مطابق پہلے متعلقہ صوبہ تجویز کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرے‘ پھر پارلیمنٹ میں بھی دو تہائی اکثریت ہونی لازم ہے۔ چنانچہ آئین نئے صوبوں کی تشکیل میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 48کی رُو سے ریفرنڈم کرایا جائے اور عوام سے نئے صوبوں کے معاملے میں رائے لی جائے۔ ہمارے آئین کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ چار صوبوں کے ناموں کی تخصیص کر دی گئی ہے۔ یوں صوبوں کی تعداد پر ایک قسم کی مہر لگا دی گئی ہے۔ بھارتی اور امریکی آئین میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ میاں عامر محمود اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ نئے صوبے لسانی بنیاد پر بنیں گے نہ نسلی یا سیاسی بنیادوں پر۔ نئے صوبوں کی بنیاد اور مقصد ایک ہی ہو گا۔ صرف ایک۔ اور وہ ہے گڈ گورننس! مزید یہ کہ نئے صوبوں کے لیے بجٹ کی تنگی کا مسئلہ نہیں پیش آئے گا۔ چاروں صوبوں کے موجودہ بجٹ نئے صوبوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں۔ نصف آبادی کی بنیاد پر اور بقیہ نصف رقبے کی بنیاد پر۔ رہا یہ سوال کہ کیا بیورو کریسی کی موجودہ افرادی قوت کافی ہو گی یا نہیں! تو اس حوالے سے سچ یہ ہے کہ بیورو کریسی کی تعداد میں اضافہ ہمیشہ بیورو کریسی کے مفاد میں کیا گیا تا کہ بیورو کریسی کو مواقع اور اسامیاں پہلے سے زیادہ ملیں۔ یہ اضافہ عوامی مفاد میں کبھی نہیں کیا گیا۔ جب ہر صوبے کو منتخب نمائندے چلائیں گے تو بیورو کریسی کی تعداد اور بادشاہت‘ دونوں کی ضرورت پہلے سے کم پڑے گی۔
میاں عامر محمود کی تصنیف کا یہ ایک مختصر تعارف ہے۔ سچ یہ ہے کہ تختِ لاہور‘ تختِ کراچی‘ تختِ پشاور اور تختِ کوئٹہ کی اجارہ داری کو ختم کرنے کیلئے یہ تجاویز بہترین ہیں اور وقت کی آواز ہیں۔ اس کالم نگار کا تعلق ضلع اٹک سے ہے۔ ہم سے بہتر کون جانتا ہے کہ لاہور جا کر کام کرانا کتنا کٹھن ہے۔ ہمارے صوبے کا دارالحکومت راولپنڈی ہو تو قسمت مسکرا اٹھے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ضلعی حکومتیں بنیں تو کچھ آرام ملا۔ مگر پھر ضلعی حکومتوں کا نظام لپیٹ دیا گیا۔ اختیارات کی تقسیم نچلی سطح پر نہ ہو تو جمہوریت‘ جمہوریت نہیں کچھ اور ہے۔ میاں عامر محمود کا تعلق لاہور سے ہے اور المیہ یہ ہے کہ ان کی تجاویز کی سب سے زیادہ مخالفت بھی شاید لاہور ہی سے ہو!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں