تارکینِ وطن کے رویے!!

''میں پچھلے 30 برسوں سے یورپ و انگلستان میں مقیم ہوں۔ یورپ کے ہر ملک میں آج سے پچیس تیس سال قبل بھی تارکینِ وطن کے خلاف نفرت موجود تھی لیکن یہ بہت محدود تھی۔ گزشتہ بیس برسوں میں یہ نفرت اور بے زاری باقاعدہ تحریکوں کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ اگلے بیس برسوں کا سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ چند دن پہلے لندن میں تارکینِ وطن کے خلاف ڈیڑھ لاکھ کے قریب عوامی اجتماع نے مظاہرہ کیا جس میں ایلون مسک نے بھی خطاب کیا۔ انگلستان میں تقریباً 16 لاکھ پاکستانی و کشمیری آباد ہیں۔ انڈین اور بنگالی بھی بیس لاکھ سے زائد ہیں‘ اور بھی دیگر چھوٹی بڑی کمیونٹیز ہیں لیکن جو رنگ ڈھنگ ہماری کمیونٹی کے ہیں وہ کسی اور کے نہیں حالانکہ دوسری کمیونٹیز کے لوگ بھی مسلمان ہیں۔ یہاں مختلف حوالوں سے جائزہ لیتے ہیں تو ہماری کمیونٹی کا آبادی کے تناسب سے جو حجم بنتا ہے‘ پرابلم اس سے کہیں زیادہ ہے۔ سماجی حوالے سے پچاس پچاس‘ ساٹھ ساٹھ سال گزار کر بھی ابھی تک برادری ازم اور فرقہ واریت میں بری طرح گرفتار ہیں۔ آج سے دس برس پہلے جب میں لندن کے ایک معروف اخبار میں ہفتہ وار کالم لکھتا تھا‘ اس وقت بھی متعدد بار لکھا کہ یہاں کی مساجد اور عبادت گاہوں میں بچوں کو جو تعلیم دی جا رہی ہے وہ ہمارے اپنے آبائی ممالک میں بھی مشکلات پیدا کر رہی ہے اور ان مغربی ممالک میں تو ہمارے مستقبل کیلئے زہرِ قاتل ہے۔ مثلاً بچوں کو یہ پڑھایا جا رہا ہے کہ نجاست کی کتنی قسمیں ہیں۔ جواب میں لکھا ہے نمبر 1: کتا۔ 2: خنزیر۔ 3: کافر۔ یعنی کتا‘ خنزیر اور انسان برابر ہوئے۔ عربی برقعوں اور مردانہ بدوی جبوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک برطانوی مصنفہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں اپنے شہر میں ایسی برقع پوش عورتوں اور جبہ بردار مردوں کو گھومتے پھرتے دیکھتی ہوں جو غیرمحرموں سے بات نہیں کرتے تو پریشان ہو جاتی ہوں کہ ہمارے آباؤ اجداد نے صدیوں کی جدوجہد سے جو انسانی تہذیب پروان چڑھائی تھی وہ یوں برباد ہو رہی ہے۔ اب تو محرم کے جلوس‘ ذوالجناح کے ساتھ ساتھ عید میلاد النبی کے جلوس بھی برآمد ہو رہے ہیں اور شریعت نافذ کرنے کے مطالبات کے پمفلٹ اور سٹیکر تقسیم ہوتے ہیں۔ میں نے لندن کے سٹوروں میں دیکھا کہ باریش نوجوان کسٹمرز کو خوراک میں شامل غیرشرعی اجزا کی ملاوٹ کی نشاندہی اور تعلیم دیتے ہیں۔ مساجد سے مختلف عقائد کے لوگوں کی نمازِ جنازہ کا انکار دیکھ رکھا ہے۔ مشرقی لندن کی ایک امام بارگاہ کے اندر صحن میں زنجیر زنی دیکھ کر ڈبل ڈیکر بس میں سوار دو بوڑھی انگریز عورتیں بے ہوش ہو گئی تھیں۔ پھر کہا گیا کہ تم یہ رسم کینوپی کے اندر کرو اور 18سال سے کم عمر بچے اس سے دور رہیں۔ اب یہ رسم بڑے خیموں کے اندر منائی جاتی ہے۔ ہر جمعہ کو ہر مسجد کے باہر غیرقانونی پارکنگ پورے محلے اور گرد و نواح کے لیے پرابلم ہوتی ہے۔ نوجوان نسل میں تعلیم کا رجحان کم اور جرائم کا بڑھ رہا ہے۔ منشیات فروشی اور گینگز میں ہماری کمیونٹی دوسری کمیونٹیز کو لیڈ کر رہی ہیں۔ اس وقت عید‘ شبِ برأت یا کوئی میچ جیتنے پر ڈھول باجوں کے جلوس پورے علاقے کا سکون غارت کر رہے ہوتے ہیں۔ راہ چلتے زیبرا کراسنگ اور سرخ بتی کی پروا کم ہی کی جاتی ہے۔ جوس‘ کولا اور فاسٹ فوڈ کے ڈبے استعمال کے بعد سڑک پر ہی پھینک دینا ہماری کمیونٹی کا طرۂ امتیاز ہے۔ بیچ سڑک کے گاڑی پارک کر کے باہر نکل جانا ہمارے نوجوان اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پیچھے سے کوئی ہارن دے یا اعتراض کرے تو غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ انشورنس سے لے کر دیگر حقوق پر فیک کلیم کے ماہرین ہر محلے میں دستیاب ہیں۔ یقین جانیے ہماری اپنی کمیونٹی کے مہذب لوگ اب ان رویوں سے اتنے پریشان ہیں کہ سر پیٹتے ہیں تو گوروں کی کیا فیلنگز ہوں گی؟ پیدل چلتے ہوئے‘ گاڑی پارک کرتے ہوئے‘ قانون اور دوسرے انسانوں کی پروا تو ہماری تعلیم و تربیت میں شامل ہی نہیں ہے۔ میں آپ کو برمنگھم کے پاکستانی و کشمیری محلوں کے گلی کوچوں اور پارکوں میں بکھرے ہوئے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر دکھاؤں تو آپ کو اپنے پاکستان کے گلی کوچے کچھ بہتر دکھائی دیں۔ گورے پورے پورے محلے چھوڑ کر ہجرت کر گئے ہیں وہاں سے۔ میں پہلے پہل جس گلی میں آ کر رہا وہاں دو سو گھروں میں صرف دو بزرگ گورے رہ گئے تھے۔ معمول کے مطابق گلیوں اور چوراہوں کی صفائی کونسل نے چھوڑ دی تھی۔ گوروں کے علاقوں میں چوراہوں پر رنگ برنگے پھول دکھائی دیتے ہیں اور ہمارے علاقوں میں چھوٹے چھوٹے شاپروں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ نسل پرستی اور اسلامو فوبیا بڑھ رہا ہے‘ نہ جانے کیوں؟ میں سوچتا ہوں کہ ہمیں جو سماجی و مذہبی حقوق ہمارے آبائی ملکوں میں نصیب نہیں تھے وہ سب ہم نے یہاں کے جمہوری معاشروں میں انجوائے کیے لیکن ہم نے ان معاشروں کا شکر گزار شہری بن کر کبھی نہیں سوچا‘‘۔
یہ تحریر ہمارے لکھاری دوست جناب سبط حسن گیلانی کی ہے۔ چکوال سے نکلے اور برطانیہ جا ٹھہرے۔ تارکینِ وطن کے رویوں پر کُڑھتے ہیں مگر جنوبی ایشیا کے ڈی این اے کو بدلنا نا ممکن ہے۔ جس دلسوزی سے انہوں نے تارکینِ وطن کی ''ذہنی پختگی‘‘ کا ماتم کیا ہے اس پر دل چاہتا ہے وہ پاس ہوں اور ان سے بغل گیر ہو کر وہ شعر پڑھوں:
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گُل پکار میں چلاؤں ہائے دل!
میں پہلی بار 2010ء میں آسٹریلیا گیا۔ اسی سال آسٹریلیا کی ایک ریاست (یعنی صوبے) کی اسمبلی میں حجاب پر پابندی لگانے کا بل پیش ہوا۔ اس بل کو خود سفید فام‘ غیرمسلم ارکان نے مسترد کر دیا۔ بجائے اس کے کہ آسٹریلیا والوں کے اس عمل کی تعریف و تحسین ہوتی‘ سڈنی کے علاقے ''لکھمبا‘‘ میں مسلمانوں کا بہت بڑا اجتماع ہوا۔ اس اجتماع میں آسٹریلیا کے سماج کو انحطاط پذیر قرار دیا گیا اور مذہب کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیا۔ اس پر کچھ آسٹریلویوں نے برملا جواب دیا۔ وہ جو پنجاب کے گاؤں میں کہا جاتا ہے ''ہم نے کوئی نائی بھیجا تھا آپ کو بلانے کے لیے؟؟‘‘ آسٹریلیا کے لوگوں نے بھی ایسا ہی کہا۔ یہ بھی کہا کہ یہاں سے تشریف لے جائیے۔ ہم مسلمان بھی عجیب ہیں۔ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک‘ اپنے ملکوں سے تنگ آکر مغربی ملکوں میں جا بستے ہیں۔ بس جانے کے بعد کوشش شروع کر دیتے ہیں کہ مغربی ممالک‘ ہمارے ان ملکوں کی طرح ہو جائیں جہاں سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ ابھی سڈنی کے محلے لکھمبا کی بات ہوئی ہے۔ میں کئی بار اس محلے میں گیا ہوں۔ یوں لگتا ہے راجہ بازار آگئے ہیں۔ صفائی کا معیار ناقص۔ جگہ جگہ خالی شاپنگ بیگ اور استعمال شدہ ڈبے پڑے ہیں۔ یہی حال میلبورن کے ان دو علاقوں ( ٹارنِیڈ اور چُگ نینا) کا ہے جہاں بھارتی اور پاکستانی تارکینِ وطن کی اکثریت آباد ہے۔ سفید فام آسٹریلویوں نے اپنا بوریا بستر اٹھایا اور ان علاقوں سے رخصت ہو گئے۔ ان علاقوں میں ٹریفک سسٹم بدترین ہے۔ صفائی کا معیار برا ہے۔ زیادہ مسائل مقامی آبادی کو بھارتی تارکینِ وطن سے ہیں۔ آسٹریلیا میں پاکستانی تارکینِ وطن ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہیں جب کہ بھارتیوں کی تعداد نو لاکھ سے زیادہ ہے۔ آسٹریلیا کے عوام بھارتیوں کے رویے سے خوش نہیں مگر آسٹریلیا کی حکومت پاکستانیوں کے بجائے بھارتیوں کو بہت زیادہ تعداد میں ویزے دیتی ہے۔ اب جب امریکہ نے بھارتیوں کو آنکھیں دکھانا شروع کی ہیں تو کیا عجب‘ آسٹریلیا بھی بھارت سے آنے والے انسانی سیلاب کو روکے! ہم مسلمان بھی کچھ کم نہیں! میں جس مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرتا ہوں وہاں ہر بار‘ مصری مولوی صاحب نمازیوں کی منت کرتے ہیں کہ گاڑیاں گیٹوں اور دروازوں کے سامنے پارک نہ کیا کریں مگر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مقامی لوگ پریشان ہی رہتے ہیں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں