بھیڑیے اور میمنے کے مابین معاہدہ

بالآخر بھیڑیے اور میمنے کے مابین معاہدہ طے پا گیا۔
بھیڑیا میمنے کا پورا خاندان ہڑپ کر چکا تھا۔ میمنے کے ماں باپ‘ بہن بھائی‘ اعزّہ واقربا سب ختم ہو چکے تھے۔ اب میمنا ہی باقی تھا۔ بھیڑیے نے دیکھا کہ کھانے کے لیے صرف میمنا بچا ہے تو اس نے میمنے کے سامنے معاہدہ رکھ دیا۔ بھیڑیے نے اپنی غار میں جا کر آئینہ دیکھا۔ اپنے بڑے بڑے دانتوں کا معائنہ کیا۔ ان مہیب دانتوں کے لیے میمنا اسی طرح تھا جس طرح اونٹ کے منہ میں زیرہ! میمنے کو ہڑپ کرنا گناہِ بے لذت کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اس سے تو داڑھ بھی گیلی نہیں ہونی تھی۔ اس لیے بھیڑیے کو مناسب یہی لگا کہ میمنے سے معاہدہ کر لیا جائے۔ اس طرح کچھ وقت مل جائے گا۔
بھیڑیے اور میمنے کے درمیان یہ معاہدہ شیر نے کرایا ہے۔ شیر اور بھیڑیا ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ گوشت خور برادری! گوشت خور برادری ایک متحد اور منظم برادری ہے۔ بظاہر اونچ نیچ ہو جائے تو بھی گوشت خور اندر سے ایک ہی ہوتے ہیں۔ ہرن ہو یا بکری یا بھیڑ‘ نیل گائے ہو یا زرافے کا بچہ‘ سب گوشت خور برادری کی خوراک ہیں۔ گوشت خور مخلوق سیاست اور چالاکی میں اپنی مثال نہیں رکھتی۔ زرافے کے بچے کو کھانا ہو تو بکری اور گائے کو ساتھ ملا لیتے ہیں۔ پھر جب بکری اور گائے کو تر نوالہ بنانا ہو تو زرافے کے ساتھ معاہدہ کر لیتے ہیں۔ اس کیس میں بھی جب بھیڑیا میمنے کے خاندان کو ایک ایک کر کے ہڑپ کر رہا تھا‘ شیر دوسری طرف دیکھتا رہا۔ اس نے بھیڑیے کو روکا نہ اس کی امداد بند کی۔ اصل میں شیر کا شروع سے یہی پلان تھا کہ بھیڑیے کو عیش کرنے دو‘ جب کھا کھا کر تھک جائے گا اور کھانے کے لیے بچے گا بھی کچھ نہیں تو معاہدہ کرا دے گا۔ یہی ہوا۔ سبزی خور مخلوقات میں عقل کی کمی ہے۔ میمنے کے رشتہ دار معاہدے کی تعریفیں کر رہے ہیں۔
بات میمنے کے رشتہ داروں کی ہوئی ہے تو یہ قصہ بھی سن لیجیے۔ بھیڑیے کی ایک ہی غار ہے‘ وہ بھی چھوٹی سی۔ اکثریت جنگل میں میمنے کے رشتہ داروں کی ہے۔ بھیڑیے کے بھٹ کے اردگرد سارا علاقہ میمنے کے رشتہ داروں کا ہے۔ دور دور تک ان کے گھر ہیں۔ شیر نے چالاکی یہ کی کہ میمنے کے تمام رشتہ داروں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس نے میمنے کی پوری برادری کو یہ کہہ کر سبز باغ دکھائے کہ وہ‘ یعنی شیر ان کا خیر خواہ ہے۔ اس نے میمنے کے رشتہ داروں کے گھروں میں اپنے بچونگڑے بٹھا دیے۔ میمنے کے رشتہ دار شیر پر یقین کر بیٹھے۔ اپنا سارا دفاع شیر کے سپرد کر دیا‘ یہ سوچے بغیرکہ شیر کبھی ان کا ہمدرد نہیں ہو سکتا اور وہ اپنی‘ بڑے بڑے دانتوں والی‘ برادری کو کبھی پسِ پشت نہیں ڈالے گا۔
مسئلوں کی طرح معاہدے بھی تین طرح کے ہوتے ہیں۔ اگر مسئلہ ایک بڑی طاقت اور ایک چھوٹے ملک کے درمیان پیدا ہو تو چھوٹا ملک غائب ہو جاتا ہے۔ اگر دو چھوٹے ملکوں کے درمیان مسئلہ اُٹھے تو مسئلہ بذاتِ خود غائب ہو جاتا ہے۔ اور اگر دو بڑے ملکوں کے مابین نزاع پیدا ہو جائے تو اقوام متحدہ درمیان سے غائب ہو جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح معاہدہ دو بڑی طاقتوں کے درمیان ہو تو وہ دیرپا ہوتا ہے کیونکہ دونوں برابر کے چودھری ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ اگر معاہدہ دو چھوٹے ملکوں کے مابین ہو تو معاہدہ درمیان سے غائب ہو جاتا ہے یہاں تک کہ لڑتے لڑتے ایک کی چونچ اور دوسرے کی دُم گُم ہو جاتی ہے۔ سب سے مزیدار اور عبرتناک منظر وہ ہوتا ہے جب معاہدہ ایک بڑی طاقت اور ایک چھوٹی طاقت کے درمیان ہو۔ اس معاہدے کی عمر دنیائے فانی کی طرح ناپائیدار ہوتی ہے۔ اگر چھوٹا ملک معاہدے سے رو گردانی کرے تو بڑی طاقت اس کے ہوش ٹھکانے لگا دیتی ہے۔ اور اگر بڑی طاقت خود معاہدے کی بے حرمتی کرے تو چھوٹی طاقت کچھ بھی نہیں کر سکتی! یہ معاہدہ جو بھیڑیے اور میمنے کے درمیان ہوا ہے اور شیر نے کرایا ہے‘ یہ کچے دھاگے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ سچ یہ ہے کہ بھیڑیا اور شیر اصل میں ایک ہیں۔ بھیڑیا معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو میمنا کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ میمنا شیر کے پاس جا کر ممیائے گا۔ شیر اس وقت نہ جانے کس موڈ میں ہو! بہت کم امکان ہے کہ شیر بھیڑیے کو سزا دے گا! شیر کو یہ اطمینان ہے کہ میمنے کے تمام رشتہ دار شیر کی نام نہاد حفاظت میں ہیں۔ خود کچھ نہیں کر سکتے۔ مکمل طور پر شیر کے محتاج ہیں۔ میمنے کی انہیں مطلق پروا نہیں! میمنے کا ایک رشتہ دار جس کا نام قاف سے شروع ہوتا ہے‘ مطمئن تھا کہ شیر اس کی حفاظت کرے گا۔ اس کے ہاں شیر کے کئی بچونگڑے مقیم تھے۔ وہ اس زعم میں تھا کہ علاقے میں وہ بڑا چودھری ہے اور شیر کا دستِ راست ہے۔ مگر ہوا یوں کہ بھیڑیے نے اس پر حملہ کر دیا۔ اسے تو مزاحمت کرنے کی تاب ہی نہ تھی مگر المیہ یہ ہوا کہ شیر نے بھیڑیے کو کچھ بھی نہ کہا۔ قاف کی چودھراہٹ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی! یہ ایک زبردست دلیل ہے اس دعوے کی کہ شیر اور بھیڑیا اندر سے ایک ہیں! سبزی خور سبزی خور ہے اور گوشت خور‘ گوشت خور!
یہ کہنا کہ جنگلوں میں بھی کوئی دستور ہوتا ہے‘ جنگلوں سے مکمل ناواقفیت کی دلیل ہے۔ جب سے یہ دنیا بنی ہے‘ شہر ہوں یا جنگل یا قصبے اور بستیاں‘ یا پہاڑ اور سمندر‘ اصول ایک ہی ہے کہ اختیار اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں دو چیزیں ہوں۔ طاقت اور ہمت! طاقت کم ہو تو ہمت اس کی کمی پوری کر دیتی ہے جیسا کہ قرنِ اول کے مسلمانوں کے پاس طاقت کم تھی مگر ہمت بلند تھی۔ ان کا سامنا بڑی طاقتوں سے تھا۔ ان بڑی طاقتوں کے پاس ہتھیار تھے مگر ہمت مفقود تھی۔ میمنے کا المیہ یہ ہے کہ اس کے جتنے رشتہ دار ہیں اور جو سب بھیڑیے کے بھٹ کے اردگرد رہتے ہیں‘ طاقت رکھتے ہیں نہ ہمت! میمنے کے ان رشتہ داروں کے پاس بے پناہ دولت ہے مگر اس دولت کو وہ عسکری خود کفالت کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ انہیں بس سونے سے بنی ہوئی گاڑیاں چاہئیں اور ایسے ہوائی جہاز جو اندر سے محلات کی طرح ہوں۔ ہتھیار وہ شیر سے خریدتے ہیں۔ دوسری طرف بھیڑیا اپنے دانت تیز رکھنے کے لیے نت نئے سائنسی طریقے دریافت کرتا ہے۔ اسے سنہری کاریں درکار ہیں نہ محل نما ہوائی جہاز! وہ تو بس اپنے دانت اور اپنے پنجے تیز کرتا رہتا ہے۔ رہی ہمت تو میمنے کے رشتہ داروں میں ہمت مکمل طور پر مفقود ہے۔ وہ لڑنا چاہتے ہیں نہ مرنے کے لیے تیار! جنگاہِ ہستی میں زندگی انہیں ملتی ہے جو مرنے کے لیے تیار ہوں! کرائے کے ہتھیار اور کرائے کے سپاہی کبھی کام نہیں آتے۔ آزادی ٹھیکے پر نہیں ملتی! ٹینکوں کے نیچے لیٹنا پڑتا ہے اور بم بنانے کے لیے گھاس کھانا پڑتی ہے۔ میمنے اور بھیڑیے کے مابین جو معاہدہ ہوا ہے اس پر بغلیں بجائیں یا ڈھول‘ اگر یہ معاہدہ پکا ہے تو شیر کی کامیابی ہے۔ میمنے کی نہیں! مگر سوال یہ ہے کہ کیا چیونٹی اور ہاتھی کے درمیان‘ شکاری اور ہرن کے درمیان‘ جال اور پرندے کے درمیان‘ بڑی مچھلی اور چھوٹی مچھلی کے درمیان کبھی معاہدہ ہوا ہے؟؟ ویسے تو یہ لطیفہ ہے کہ راستے میں شیر مل گیا تو کیا کرو گے؟ جواب دیا: جو کچھ بھی کرے گا شیر ہی کرے گا! مگر آج کے منظرنامے میں سب سے بڑی حقیقت بھی یہی ہے کہ جو کچھ کرنا ہے شیر نے کرنا ہے اور یاد رکھیے! شیر اور بھیڑیا دونوں ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں! گوشت خور برادری!!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں