نانیاں دادیاں گیت گاتی رہیں:
وڈے دی موٹر‘ نِکّے دی کار ضرور ہووے
اور جب پوتے اور نواسے موٹریں اور کاریں لائے تو وہ منوں مٹی کے نیچے جا چکی تھیں۔
کیسے مشکل وقت تھے جو ہمارے بزرگوں نے بسر کیے۔ دمکتی گاڑیوں میں بیٹھ کر سکول جانے والی‘ گھروں میں برگر ڈلیور کروانے والی نسل کو کیا معلوم کہ زندگی کیا تھی اور کیسی تھی۔ آج اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سردیوں میں ہیٹر تھے نہ گرمیوں میں پنکھے! پنکھیاں جھلتی بانہیں پتلی تھیں مگر شیر خوار پوتوں اور نواسوں کو گھنٹوں نہیں‘ پہروں دستی پنکھی کی ہوا دیتے یہ پتلی باہیں تھکتی نہ تھیں۔ جاڑوں میں بچی کھچی آگ کے انگارے انگیٹھی میں ڈال کر اندر لے آتیں۔ بچوں کو کبھی کھیس میں لپیٹتیں کبھی لحاف میں۔ اُس وقت کوکنگ رینج کے نخرے ناپید تھے۔ مٹی کے چولہوں میں لکڑیاں جلاتیں یا اُپلے۔ آگ جلانے کیلئے منہ سے پھونکیں دیتیں! آنکھیں دھویں سے اَٹ جاتیں۔ مگر اپنے بچوں کے لیے پراٹھے‘ انڈے‘ حلوے‘ زردے‘ پلاؤ‘ مرغ‘ مرنڈے اور کیا کیا پکوان پکاتی رہتیں!
کیا انتھک تھیں ہماری دادیاں نانیاں! دیواروں کے ساتھ چارپائیاں رکھ کر مکانوں کی لپائی کرتیں۔ بکریوں اور گائیوں کے دودھ دوہنے سے لے کر دہی بلونے اور مکھن تیار کرنے تک‘ ہر کام کرتیں! فصلیں دیکھنے کھیتوں میں جاتیں۔ ماتموں اور شادیوں پر تقریبات میں شرکت کرتیں۔ دوسری بستیوں کے سفر کرتیں۔ گھوڑی کی سواری نہ ہوتی تو پیدل چلتیں‘ مہمانوں کی خدمت کرتیں۔ خود سب سے آخر میں کھانا کھاتیں۔ اگر اپنے لیے گھی میں تلی ہوئی روٹیاں پکاتیں تو کوئی روک ٹوک کرنے والا نہ تھا مگر پہلے‘ بچی ہوئی باسی روٹی ختم کرتیں۔ کوئی بھی سوغات ہوتی تو تعطیلات میں واپس آنے والے بچوں کے لیے سینت سینت کر رکھتیں! تاروں بھرے آسمانوں والی راتوں کو اٹھتیں۔ سردیوں میں ٹھنڈے یخ پانیوں سے وضو کرتیں‘ طویل سجدوں کے درمیان بیٹوں بیٹیوں اور ان کے بچوں کے لیے دعائیں مانگتیں! دور دراز کے شہروں میں نوکریاں کرنے والے بیٹے تحائف لاتے تو ان کے ذہنوں میں ایک ہی خیال آتا کہ ان تحائف پر بیٹے کی خون پسینے کی کمائی خرچ ہوئی ہے۔ یہ وہ مائیں تھیں جن کی ترجیحات واضح تھیں۔ گھر‘ شوہر اور بچے! صرف گھر‘ شوہر اور بچے! یہی اول تھا اور یہی آخر! کمیٹی پارٹیاں تھیں نہ ریستورانوں کے کھانے! سوشل میڈیا تھا نہ سوشل لائف! آج کی ماؤں کو کیا معلوم کہ ڈائپر نامی چیز کا وجود ہی نہ تھا۔ یہ مائیں دن بھر کے کاموں کے بعد راتوں کو پوتڑے بھی دھوتی تھیں! عید آتی تو بچوں کے بیدار ہونے سے پہلے سویّاں‘ حلوے اور شیر خرما تیار کر دیتیں!
یہ کیسی مائیں تھیں! ان کے لیے ہسپتال تھے نہ لیبر روم! بچے کو پیٹ میں لیے سارے کام بدستور کرتی رہتیں! دوران حمل ان کا بلڈ پریشر کبھی نہ ماپا جاتا۔ بیڈ ریسٹ کا نخرہ تب ایجاد ہی نہ ہوا تھا۔ فولک ایسڈ کی گولیاں دی جاتیں نہ و ٹامن کے کیپسول! شوہر ان کے لیے پھل لاتے نہ یخنی تیار کرائی جاتی! بچے کو جنم دینے کے دوسرے دن معمول کے کام کرنے لگتیں!
یہ عجیب زمانہ تھا۔ خواتین کو پڑھنا سکھایا جاتا مگر لکھنا نہیں! اس کی کیا وجہ تھی؟ شاید خواتین پر اعتماد نہ تھا۔ شاید مرد احساسِ کمتری کا شکار تھے۔ مگر جو کچھ بھی تھا‘ مرد ہر معاملے میں خواتین کے محتاج تھے۔ مکمل طور پر محتاج! فیصلوں کے اعلان خواہ مرد ہی کرتے مگر فیصلوں کی پشت پر عورتیں ہوتیں۔ کون سی گائے فروخت کرنی ہے؟ مکان کی تعمیر کس ڈیزائن پر ہونی ہے؟ رشتے ناتے کن سے طے کرنے ہیں اور کب؟ ان تمام معاملات میں خواتین ہی رہنمائی کرتیں! ان بظاہر نیم تعلیم یافتہ‘ نیم خواندہ خواتین کے ذہن یکسو تھے‘ دماغ اُجلے تھے‘ طور طریقے شائستہ تھے۔ ان کے خیالات میں صدیوں کے تجربوں کا نچوڑ تھا۔ ان کی گفتگو میں لٹریچر کی جھلک تھی۔ دل پر وہ منظر آج بھی کھُدا ہوا ہے جب میں اپنے گاؤں کی گلی میں جا رہا تھا۔ سامنے سے ایک خاتون آ رہی تھی۔ میری امی جان کی دوست! رُک کر میری پیٹھ پر ہا تھ پھیرا! اور کہا ''میرا بچہ آ گیا۔ پھُل کھِڑ پین! چن نکل آیا!‘‘ یعنی میرا بچہ آ گیا ہے‘ پھول کھل اٹھے ہیں‘ چاند نکل آیا ہے! کوئی مانے یا نہ مانے‘ مگر سچ یہ ہے کہ ادب اور آداب‘ لٹریچر‘ مہمان نوازی‘ باہمی انحصار‘ ان تمام اقدار کا خمیر گاؤں سے اٹھا ہے۔ شہر میں‘ اپنی گلی میں واقع ہونے والی موت کی خبر اخبار کے ذریعے ملتی ہے جبکہ اس گئے گزرے افراتفری اور نفسا نفسی کے زمانے میں بھی کسی ایک گھر میں موت واقع ہو جائے تو پورا گاؤں حرکت میں آ جاتا ہے۔ سب کام رک جاتے ہیں۔ مکان کی تعمیر ہو رہی ہو یا فصل کاٹی جا رہی ہو‘ وہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر جب جنازہ پڑھ لیا جاتا ہے اور مہمان رخصت ہو جاتے ہیں تو زندگی دوبارہ معمول پر آتی ہے۔ یہی اصل تہذیب ہے اور اصل اخلاقِ عالیہ ہے! تہذیب کا چُونے گچ مکانوں اور ڈیزائنر ملبوسات سے کوئی تعلق نہیں! تہذیب یہ نہیں کہ ڈنر سیٹ قیمتی ہے۔ تہذیب کا بیرو میٹر برتاؤ ہے! برتاؤ اور صرف برتاؤ! مہمانوں کے ساتھ کیسا برتاؤ ہے؟ اجنبیوں کے ساتھ کیسا ہے؟ عزیزوں اور احباب کے ساتھ کیسا ہے؟ خُدّام کے ساتھ کیسا ہے؟ محل میں رہنے والا کروڑ پتی اگر اپنے خدمت گاروں کے ساتھ فرعونیت کا برتاؤ کرتا ہے تو وہ مہذب نہیں بلکہ غیر مہذب ہے! وحشی ہے! مہذب وہ ہیں جو اپنے مزارعوں اور نوکروں سے بغل گیر ہوتے ہیں۔ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہیں اور ان کے حقوق پورے کرتے ہیں!
کیا آج کی مائیں عظیم ہیں جن کے بچے ملازموں کے رحم وکرم پر ہیں؟ جنہیں ماؤں کا دودھ ملتا ہے نہ لمس! جنہیں ماؤں کے ہاتھ کا پکا ہوا گرم‘ تازہ کھانا ملتا ہے نہ ہی وہ خود انہیں پڑھاتی ہیں۔ یا وہ مائیں عظیم تھیں جن کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بچوں کی پرورش‘ تہذیب اور تربیت تھی ؟ یہی ان کی اوّلین ترجیح تھی۔ اُن ماؤں کے بچے باپ کے گھر آنے پر کھڑے ہو جاتے تھے۔ بڑوں کے سامنے آہستگی اور نرمی سے بولتے تھے۔ ماں باپ کی ناپسندیدہ بات پر بھی خاموش رہتے تھے اور سر جھکا دیتے تھے۔ سفر پر نکلتے وقت ماں باپ کی اور بزرگوں کی قدم بوسی کرتے تھے۔ دعا کراتے تھے۔ ماں باپ کے حکم کی تعمیل میں آدھی رات کو بھی گھر سے نکل پڑتے تھے۔ آج کی ماؤں کے بچے باپ کے گھر آنے پر‘ اُٹھنا تو درکنار‘ سکرین سے نظر ہٹا کر اس کی طرف دیکھتے تک نہیں! ہاتھ سے سامان پکڑ لینا‘ بیٹھنے کے لیے جگہ خالی کر دینا اور فوراً تعمیلِ حکم کرنا تو دور کی بات ہے! ان سے یہی کہا جا سکتا ہے:
تم ہمیں کیا نئی منزل کی بشارت دو گے
تم تو رستہ نہیں دیتے ہمیں چلنے کے لیے
ہم حدِّ فاصل ہیں! ہم وہ آخری نسل ہیں جس نے ان عظیم ماؤں‘ نانیوں‘ دادیوں کو دیکھا ہے۔ ہم نے اس اولاد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جو ماں باپ‘ دادا دادی اور نانا نانی کے سامنے ادب کی وجہ سے خاموش رہتے تھے۔ ان کے جوتے سیدھے کرتے تھے۔ ان کے ہاتھ دھلاتے تھے۔ بیماری میں انہیں وضو کراتے تھے۔ ان کا حکم بجا لانے کے لیے دوڑ پڑتے تھے۔ ہمارے بعد ان کا تذکرہ کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔ ہمارے بعد نئی نسل کو کوئی نہیں بتائے گا کہ ماں باپ کے ساتھ کیسا رویہ رکھنا چاہیے اور بزرگوں کے کیا حقوق ہیں! ہم وہ نسل ہیں جو دیکھ رہی ہے کہ یہاں بھی اولڈ ہومز بننے کو ہیں۔ یہاں بھی بچے ماں باپ کو عید کے موقع پر ہی آکر ملیں گے۔ اور پھر ان کے بچے تو شاید عید پر بھی نہ ملاقات کریں!