کچھوا‘ بچھو اور طالبان

افغانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لڑائی کرنے کے علاوہ انہیں اور کچھ آتا نہیں۔ غلام محمد قاصر مرحوم کا یہ شعر زبان زدِ خاص و عام ہے:
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
افغان ہمیشہ کسی نہ کسی سے برسرِ پیکار رہتے ہیں۔ کوئی اور میسر نہ ہو تو آپس میں جنگ شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ان کی فطرت ہے۔ بچپن میں ایک فارسی حکایت پڑھی تھی۔ بچھو نے دریا پار کرنا تھا۔ تیرنا اسے آتا نہیں تھا۔ سوچنے لگا کیا کروں؟ اتنے میں دیکھا کہ کچھوا آ رہا ہے۔ پوچھا: بھائی کچھوے! دریا کے پار جا رہے ہو تو مجھے پیٹھ پر بٹھا لو۔ کچھوا کہنے لگا: تم نے مجھے ڈنک مارا تو میں مر جاؤں گا۔ بچھو نے بڑی مضبوط دلیل پیش کی۔ کہنے لگا: ڈنک مارنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لیے کہ تم مر گئے تو میں بھی تو ڈوب جاؤں گا۔ کچھوا مطمئن ہو گیا۔ اس نے بچھو کو پیٹھ پر بٹھایا اور دوسرے کنارے کی طرف چل پڑا۔ دریا کے عین درمیان میں بچھو نے اپنے محسن‘ کچھوے کی پیٹھ پر ڈنک مارا۔ کچھوا درد سے بلبلا اٹھا اور چلایا: ظالم یہ تُو نے کیا کیا۔ بچھو عاجزی سے کہنے لگا کہ کچھوے بھائی! میں نے اپنے آپ کو اس کام سے بہت روکا مگر ڈنک مارنا میری فطرت میں ہے۔ افسوس! میں رُک نہ سکا۔ حکایت کا خاتمہ اس شعر پر ہوتا تھا:
نیشِ عقرب نہ از رہِ کین است ؍ اقتضائے طبیعتش این است
یعنی بچھو کینہ پروری کی وجہ سے ڈنک نہیں مارتا بلکہ یہ اس کی فطرت اور مزاج کا تقاضا ہے۔ افغانوں کی عادت بالکل بچھوؤں کی طرح ہے۔ اور کوئی نہ ملے تو اپنے محسنوں ہی پر وار کر دیتے ہیں۔ وہ سینکڑوں ہزاروں برسوں سے یہی کام کرتے آئے ہیں۔ آئندہ بھی یہی کچھ کریں گے۔
افغانوں کا بالعموم اور افغان طالبان کا بالخصوص دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے عوام کی فلاح وبہبود سے انہیں کوئی غرض نہیں! ان کے عوام بھوک سے مریں یا بیماری سے‘ وطن چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں یا مر جائیں‘ طالبان حکومت کی بلا سے! ان کے نزدیک معاشی ترقی‘ تعلیم وتربیت‘ سائنس اور ٹیکنالوجی‘ صنعت وحرفت‘ زراعت میں جدت‘ تجارت‘ آئی ٹی‘ صحت کی سہولتیں‘ بینکاری‘ سب بے معنی چیزیں ہیں! بجائے اس کے کہ وہ پاکستان سے بات چیت کرتے کہ آپ ہمیں کارخانے لگانے میں‘ آئی ٹی پارک قائم کرنے میں‘ فائیو سٹار ہوٹل تعمیر کرنے میں‘ یونیورسٹیوں کی عمارات بنانے میں‘ پولیس فورس کو منظم کرنے میں‘ پوسٹل سسٹم کے قیام میں‘ ہسپتال بنانے میں اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں مدد کریں‘ انہوں نے جنگ وجدل پر کمر باندھ لی! قندھار میں بیٹھی ہوئی ان کی قیادت کا مائنڈ سیٹ دیکھیے کہ اس کے نزدیک سب سے اہم کام انٹرنیٹ پر پابندی لگانا ہے۔ عوام کے حوالے سے ان کا ایک ہی (خود ساختہ) فریضہ ہے کہ وہ اُس اسلام پر سختی سے عمل پیرا ہوں جو فقط طالبان کی نظروں میں درست اسلام ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پورے عالم اسلام میں صرف وہی ہیں جو اسلام کو سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے مقامی کلچر پر اسلام کا لبادہ ڈال دیا ہے۔ تمام حقوق سے عورتوں کی محرومی‘ ایک خاص وضع کی پگڑی‘ ایک مخصوص لباس‘ شٹل کاک برقع‘ یہ اور بہت سے دیگر مظاہر اصل میں ان کے مقامی کلچر کا حصہ ہیں۔ ان کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ مگر انہوں نے اس سارے بہی کھاتے کو اسلام قرار دیا ہوا ہے۔
ان کا تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ غیرت کے بلند بانگ‘جھوٹے دعووں کے باوجود ان میں عزتِ نفس کی کمی ہے اور شدید کمی ہے! یہ محض الزام نہیں‘ اس کا ثبوت دن کے اجالے کی طرح روشن ہے اور نظر آ رہا ہے۔ لاکھوں افغان دہائیوں سے پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ طالبان حکومت آئی تو تاثر یہ دیا کہ افغانستان نے اپنی منزل پا لی ہے۔ یہی وہ حکومت ہے جس کی ضرورت تھی۔ یہی ارضِ موعود (Promised Land) ہے۔ اگر ایسا تھا تو ان کی عزتِ نفس کا تقاضا تھا کہ سب سے پہلے پاکستان میں پناہ گزین مہاجروں کو واپس بلاتے! کہتے کہ دنیا کی بہترین حکومت قائم ہو چکی ہے‘ واپس اپنے گھروں کو آ ؤ اور ملک کی ترقی میں حکومت کا ہاتھ بٹاؤ۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہیں اس بات پر شرمندگی ہے نہ افسوس کہ ان کے لاکھوں ہم وطن پاکستان میں مہاجر بن کر رہ رہے ہیں۔ عزتِ نفس کی شدید کمی کی دوسری مثال ملاحظہ کیجیے کہ جب پاکستان نے ان نام نہاد مہاجرین کو نکالنا شروع کیا تو طالبان حکومت گڑگڑانے لگ گئی کہ خدا کے لیے انہیں مت نکالیے۔ الجزیرہ نے یکم نومبر 2023ء کو خبر دی کہ طالبان حکومت پاکستان کی خدمت میں درخواست کر رہی ہے کہ مہاجرین کو نہ نکالیے۔ روزنامہ ڈان نے یکم اپریل 2025ء کو خبر دی کہ طالبان حکومت کے وزیر برائے مہاجرین نے انسانی سلوک کی اہمیت پر زور دیا اور ایران اور پاکستان کی خدمت میں التماس کی کہ افغان مہاجرین کو واپس نہ بھیجیں بلکہ انہیں رضاکارانہ طور پر واپس آنے کا موقع دیں! واہ! کیا بات ہے وزیر صاحب کی!! رضاکارانہ واپسی!! بہت خوب!! کوئی ایک افغان مہاجر بھی ایسا نہیں جو اپنی مرضی سے‘ اپنی خوشی سے واپس جانا چاہتا ہے۔ جو جنت آپ نے کابل سے ہرات تک اور بدخشاں سے قندھار تک بنا رکھی ہے اس جنت کی حقیقت تمام افغان مہاجرین پر واضح ہے۔ ارے بھائی! ان کا بس چلے تو یہ ساری زندگی پاکستان نہ چھوڑیں۔ ان کیلئے تو پاکستان بہشت سے کم نہیں۔ کاروبار کر رہے ہیں۔ بجلی اور گیس والے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ بچے ان کے سکولوں کالجوں میں زیر تعلیم ہیں۔ علاج کی سہولتیں میسر ہیں! اس کے مقابلے میں افغانستان میں ان کیلئے کیا رکھا ہے؟ راکھ اور مٹی!! ذرا سادگی تو دیکھیے طالبان وزیر کی کہ افغان مہاجرین کو ''رضاکارانہ‘‘ واپسی کا موقع دیجیے۔ بس کیجیے وزیر صاحب!! آپ کی دانش پر ہنستے ہنستے پیٹ میں بل نہ پڑ جائیں! اور انسانی سلوک کی بات آپ کر رہے ہیں؟ آپ؟ کیا افغان خواتین اور بچیوں کے ساتھ آپ کا اپنا سلوک انسانی ہے؟؟ کیا دہشت گردوں کو پناہ دے کر آپ انسانی حقوق کے تقاضے پورے کر رہے ہیں؟
بات ان کی عزتِ نفس کی ہو رہی تھی! جس پاکستان پر یہ حملے کر اور کرا رہے ہیں‘ اسی پاکستان میں لاکھوں بیمار افغانوں کا علاج ہو رہا ہے۔ ہر روز ہزاروں مریض افغانستان سے پاکستان کے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں! ایک اندازے کی رُو سے پاکستان کی تیس فیصد طبی سہولتیں افغانوں پر صرف ہو رہی ہیں! طالبان حکومت میں عزتِ نفس ہوتی تو ان مریضوں کو بھارت بھیجتی جہاں جا کر ان کے وزیر خارجہ نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور یاوہ گوئی کی!!
افغانوں کا چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے احسان فراموشی میں ان کا ثانی کوئی نہیں! یہ حد درجہ طوطا چشم ہیں! ان کی تاریخ کا دوسرا نام احسان فراموشی کی تاریخ ہے۔ یہ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں۔ بلا کے محسن کُش ہیں۔ اہلِ پاکستان سے زیادہ ان کی طوطا چشمی کا تجربہ کس کو ہو سکتا ہے۔ تقریباً نصف صدی سے پاکستان انہیں روٹی کھلا رہا ہے‘ لباس مہیا کر رہا ہے۔ ان کی تین نسلیں یہاں پیدا ہو کر جوان ہو چکی ہیں۔ لاکھوں اس ملک کے پاسپورٹ کے حامل ہیں مگر اس سب کے باوجود پاکستان اور اہل پاکستان کے دشمن ہیں! پاکستان نے ان کی پرورش کی ہے اور یہ پاکستان پر غرا رہے ہیں۔ جھپٹ رہے ہیں۔ احسان فراموشی کا دوسرا نہیں‘ پہلا اور اصل نام طالبان ہے!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں