برج نرائن چکبست کا مشہور شعر ہے:
اس کو ناقدریٔ عالم کا صلہ کہتے ہیں؍ مر گئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
مگر انور مسعود کے بچوں نے ایسا نہیں ہونے دیا! انور مسعود صاحب نوّے برس کے ہوئے تو ان کے بچوں اور بچوں کے بچوں نے ایک یادگار تقریب منعقد کی۔ اس میں اسلام آباد کی ادبی اور سماجی شخصیات تو مدعو تھیں ہی‘ لاہور سے سہیل احمد (عزیزی) بطورِ خاص تشریف لائے۔ انور صاحب کے فرزند‘ کالم نگار اور میڈیا پرسن‘ عمار مسعود نے شگفتہ انداز میں نظامت کی۔ شنیلہ عمار مسعود نے اپنے بابا کے فن پر ڈاکیومنٹری پیش کی۔ دوسری بہو‘ روشین عاقب‘ جو امجد اسلام امجد کی صاحبزادی ہیں‘ اس تقریب کے انتظام وانصرام میں پیش پیش تھیں! انور صاحب کی زبان ذکرِ الٰہی سے تر رہتی ہے۔ ان پر خدا کا خصوصی کرم ہے۔ دنیا بھر میں مقبولیت تو ہے ہی‘ ان کے بچے‘ بہوئیں اور داماد ان پر جان چھڑکتے ہیں! میرا اعزاز کہ اس تاریخی فنکشن میں مَیں بھی شریک تھا اور جن چند افراد نے انور مسعود کے حوالے سے گفتگو کی ان میں بھی شامل تھا!! والد گرامی مرحوم‘ حافظ محمد ظہور الحق ظہور فارسی کے شاعر استاد اور سکالر تھے۔ اس حوالے سے ان کے انور مسعود صاحب سے بہت اچھے مراسم تھے۔ مجھ بے بضاعت پر بھی انور مسعود صاحب ہمیشہ سے شفقت اور محبت کرتے آئے ہیں۔
انور مسعود صاحب کی شاعری‘ علم اور شخصیت کی بہت سی جہات ہیں! ہر جہت پر بات کی جائے تو بہت سے صفحات اور بہت سا وقت درکار ہو گا! پروفیشن کے اعتبار سے وہ فارسی زبان وادب کے استاد ہیں۔ ان کی اہلیہ مرحومہ بھی فارسی کی پروفیسر تھیں۔ ان کی ایک دختر نیک اختر بھی اسی شعبے سے منسلک ہیں۔ ''فارسی ادب کے چند گوشے‘‘ انور مسعود صاحب کی معروف تصنیف ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ ہماری قدیم روایت کے عین مطابق وہ بہت اچھے خطّاط بھی ہیں۔ انور صاحب لفظوں کی ساحری کرتے ہیں۔ اس ساحری میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ ساحری ہی ان کی شاعری کی اصل بنیاد ہے۔ چار زبانوں پر عبور ہے اور چاروں زبانوں سے اس طرح کام لیتے ہیں جیسے زبانیں نہ ہوں‘ زرخرید کنیزیں ہوں! یہ کنیزیں ان کے حضور دست بستہ کھڑی رہتی ہیں اور حکم کی منتظر!! ایران کے سفر کے دوران ان کے لباس پر دہی گر پڑا۔ ایرانی میزبانوں کو فوراً کہا ''از ماست کہ بر ماست‘‘۔ پہلے ماست کا معنی دہی ہے۔ ''برماست‘‘ کا مطلب ''ہمارے اوپر‘‘ ہے۔ ایسی نکتہ وری شاید اہلِ زبان بھی نہ دکھا سکیں! ایک قطعہ دیکھیے‘ کس طرح لفظوں سے کھیلتے ہیں اور لفظ لفظ معنی نکالتے جاتے ہیں:
اگر ہیں تیغ میں جوہر‘ جواہر میں خمیرے ہیں
ادھر زور آزمائی ہے‘ اُدھر طاقت کے نسخے ہیں
مطب میں اور میدانِ وغا میں فرق اتنا ہے
وہاں کُشتوں کے پُشتے ہیں‘ یہاں پُشتوں کے کُشتے ہیں
(وغا جنگ کو کہتے ہیں)۔ ایک اور قطعہ ملاحظہ کیجیے۔ نان اور Non commitment کو کس ذہانت‘ کس مہارت اور کس چابک دستی سے استعمال کرتے ہیں۔
جنت سے نکالا ہمیں گندم کی مہک نے؍ گوندھی ہوئی گیہوں میں کہانی ہے ہماری
روٹی سے ہمیں رغبت دیرینہ ہے انورؔ؍ یہ نان کمٹمنٹ پرانی ہے ہماری
دوسرے مصرعے کی چستی اور خوبصورتی پر غور کیجیے اور سر دھنیے۔
انور مسعود صاحب کا اصل کمال یہ ہے کہ اپنی پنجابی شاعری کے ذریعے انہوں نے اُس اصل پنجابی ثقافت کو زندہ کرنے اور زندہ رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے جو بدقسمتی سے ہمارے ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہے۔ مشرقی پنجاب کی پنجابی کے برعکس ہماری پنجابی کے خیمے میں اردو اور انگریزی کا اونٹ گھس چکا ہے۔ ایک المیہ تو یہ ہے کہ سندھیوں اور پٹھانوں کے بر عکس‘ پنجابی اپنے بچوں کے ساتھ پنجابی بولنے سے مکمل پرہیز کرتے ہیں۔ اس کالم نویس کے بچے اسلام آباد میں پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے اور گھر میں پنجابی بولتے ہیں۔ میرے پوتیاں پوتے بھی‘ جو دساور میں پیدا ہوئے اور وہیں رہتے ہیں‘ گھر میں پنجابی بولتے ہیں۔ کم ازکم مجھے ابھی تک کوئی پنجابی خاندان اسلام آباد میں ایسا نہیں ملا جس کے بچے گھر میں پنجابی بولتے ہوں۔ پوچھا جائے تو پھسپھسے لہجے میں لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ''بچے پنجابی سمجھ لیتے ہیں‘‘۔ اس پنجابی کُش ماحول میں انور مسعود نے غضب کی پنجابی شاعری کی اور اس شاعری کے ذریعے ڈوبتی پنجابی ثقافت کو بچانے کی کوشش کی۔ تنور ہمارے کلچر کا ایک اہم حصہ تھا۔ میری نسل کے لوگ بچپن میں گھر سے گُندھا ہوا آٹا لے کر جاتے تھے اور محلے کے تنور سے روٹی پکوا کر لاتے تھے۔ تنور والی (ماچھن یا ڈھینوری Dheenwri) معاوضے میں ایک پیڑا رکھ لیتی تھی۔ تنور پر آئی ہوئی عورتوں کی گفتگو کمال کی ہوتی تھی۔ انور صاحب کی نظم ''تندور‘‘ ادب اور ثقافت کا ایک شہکار ہے۔ مشہور نظم ''پنچایت‘‘ انہوں نے بی اے میں کہی تھی۔ سنا ہے ایک ''لڑکے‘‘ کی کہی ہوئی اس نظم نے مشاعرے کو تلپٹ کر کے رکھ دیا تھا۔ بڑے بڑے پرانے برج الٹ گئے تھے۔ داد سے چھت اُڑ گئی تھی۔ مجھے نہیں معلوم یہ نظم پنجابی کے بی اے اور ایم اے کے نصاب میں شامل ہے یا نہیں! یہ نظم ہمارے گمشدہ پنجابی کلچر کا انسائیکلوپیڈیا ہے! اس میں لڑائی بھی ہے‘ کھیتی باڑی بھی ہے‘ حوالات بھی ہے‘ پنجابی کی بددعائیں اور طعنے بھی ہیں اور گاؤں کا لینڈ سکیپ بھی ہے! میری طرح کے جو پنجابی اپنے گاؤں اور کھیت کھلیان چھوڑ کر شہروں میں آبسے ہیں ان کیلئے اس عظیم الشان نظم میں آنسو‘ آہیں اور کراہیں ہیں اور ناسٹلجیا کی شدید ضربیں! میں یہ نظم بیسیوں مرتبہ سن چکا ہوں۔ ہر بار میرے سینے سے ہُوک اٹھتی ہے۔ انور مسعود اگر اور کچھ بھی نہ لکھتے تو یہ ایک نظم ہی انہیں ادب میں زندہ رکھنے کیلئے کافی تھی! بقول ہمارے دوست معین نظامی کے ''حد ہے اور بے حد ہے‘‘! اس نظم میں ہمارے گمشدہ کھیلوں کا ذکر ہے۔ گولی پلّا‘ گجی چارہ اور گلی ڈنڈا کے نام ہیں۔ فارسی محاورے ''کاسہ از آش گرم تر‘‘ کا انور صاحب نے کیا خوبصور ت ترجمہ کیا ہے۔ ساگ نالوں بھانڈا تتا اے!! قوتِ اظہار کو اوجِ کمال پر دیکھیے:
''پرسوں دی گل اے‘‘ پیشی ویلے ڈنگراں نوں‘ پانی شانی لّا کے
امبیاں دے بوٹے تلے‘ واری پیا لاندا ساں میں‘ حقہ شقہ پا کے
باجرے دے اوہلے اوہلے‘ لب لئی جے چودھری جی؟ او جیڑھی تھاں اے
کھوہ جتھے وگدا اے‘ میلہ جتھے لگدا اے‘ تے پِپلے دی چھاں اے
اس کے بعد بچوں کی آپس میں لڑائی ہو جاتی ہے۔ نظم کا ایک کردار بچوں کو چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ چھڑانے کا منظر دیکھیے:
انہاں نوں چھڑاندیاں‘ رولا رپا پاندیاں‘ ہوئی کیہڑی گھٹ اے
نیل میرے متھے اُتے‘ روڑ میرے سر وچ‘ پٹ اُتے پھَٹ اے
یعنی ماتھے پر نیل پڑ گیا‘ سر میں سوجن ہو گئی اور ران پر زخم آ گیا! ایک ہی مصرعے میں سب کچھ جامعیت سے سمو دیا! واہ! انور صاحب! یہ آپ ہی کا حصہ ہے! آگے چلنے سے پہلے دو لفظ سمجھ لیجیے۔ وسطی پنجاب میں ناشتے کے وقت کو ''چھا ویلا‘‘ کہتے ہیں اور دن کے کھانے کے وقت کو ''بھتا ویلا‘‘ کہا جاتا ہے! بھتا ابلے ہوئے چاولوں کو بھی کہتے ہیں۔ (بنگالی میں بھات کھانے کیلئے بولا جاتا ہے)۔ اب پنچایت نظم کا شعر پڑھیے:
لوکی اے سمجھدے نے‘ گوانڈیاں دے پنڈ وچ‘ جِن بھوت نچدا اے
چھا ویلے‘ بھتے ویلے‘ دیگر ویلے‘ شام ویلے‘ روز جنگ مچدا اے
آپ دوسرے مصرعے کو روانی سے پڑھیے! کیا طمطراق‘ شکوہ اور گرینجر (grandeur) ہے! غرض یہ نظم اپنے اندر اتنا کچھ لیے ہوئے کہ ایک مختصر مضمون بیان کرنے سے قاصر ہے (جاری)