سابق وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں اخبار نویسوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر وہ ان سے بات کرنے پر آمادہ نہیں ہیں تو پھر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ شاید انہیں اپنا دشمن سمجھا جا رہاہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اپنے سابق دوست جنرل (ریٹائرڈ) قمر جاوید باجوہ پر ایک بار پھر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ انہوں نے جو روس مخالف تقریر کی تھی‘ اس پر ان کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔ اس سے قطع نظر کہ موجودہ آرمی چیف سے توقعات پوری ہوں گی یا نہیں‘ جہاں تک باجوہ صاحب کا تعلق ہے تو جس بیان پر آج ان کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کیا جا رہا ہے‘ وہ اس وقت دیا گیا تھا جب عمران خان وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز تھے۔ اس بیان کا جواز کیا تھا‘ کیا آرمی چیف کو خارجہ امور کے حوالے سے اس طرح اظہارِ خیال کرنا چاہیے تھا‘ کیا وزیراعظم کے دورۂ روس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں یہ بیان ریاستی مفادات کے تحفظ میں معاون ثابت ہوا یا انہیں نقصان پہنچا گزرا۔ یہ سوالات اس وقت بھی پیدا ہوئے تھے جب یہ بیان دیا گیا تھا لیکن وزیراعظم عمران خان کی خاموشی سے یہ تاثر ملا کہ شاید انہوں نے اس کی اجازت دی ہے یا یہ کہیے کہ اس پر معترض نہیں ہیں یا یہ کہ اپنے دورۂ روس سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا بالواسطہ ازالہ کرنا چاہتے ہیں لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان نے نہ صرف اس کی اجازت نہیں دی تھی بلکہ وہ اسے پاکستان کے مفاد کے خلاف بھی سمجھتے تھے۔ اگر ایسا تھا تو پھر انہیں بحیثیت وزیراعظم اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے تھا‘ جس کورٹ مارشل کا وہ اب مطالبہ کر رہے ہیں‘ اس وقت وہ بہ آسانی اس کا حکم جاری فرما سکتے تھے۔ اگر انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں ایسا نہیں کیا تو اب وزیراعظم شہباز شریف ان کے مطالبے پر کان دھر سکتے ہیں نہ آرمی چیف اس طرح کا کوئی اقدام کرنے کا تصور کر سکتے ہیں۔ بعد از مرگ واویلے سے عمران خان اپنی مشکلات میں اضافہ کرنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اگر وہ ماضی میں پھنسنے بلکہ دھنسنے کے بجائے مستقبل پر توجہ مرکوز رکھیں تو پاکستانی قوم تو کیا‘ ان کے اپنے حق میں بھی بہتر ہو گا۔ جنرل (ر) باجوہ اور عمران خان کے معاملات اب تاریخ کا حصہ ہیں‘ دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ جو کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دوسروں کے ساتھ جو کیا اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ جو ہوا‘ اس سے سبق تو حاصل کیا جا سکتا ہے‘ عبرت بھی پکڑی جا سکتی ہے لیکن اس کا بار بار ذکر کر کے جنرل عاصم منیر سے اپنے پیش رو کے نقش قدم پر چلنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ باجوہ صاحب سیاست میں دخل اندازی کا جو صلہ وصول کر رہے ہیں‘ اس کے بعد تو موجودہ آرمی چیف کا یہ فیصلہ ایک ہزار فیصد درست ثابت ہو جاتا ہے کہ سیاست سے دور رہنے ہی میں عافیت بلکہ عزت ہے۔ یہاں پگڑی اچھلتی ہے‘ اسے مے خانہ کہتے ہیں۔ جو بھی بہی خواہ ہو گا‘ وہ یہی مشورہ دے گا کہ سیاست اور سیاست دانوں سے بچ کر رہیں‘ ان کے گندے کپڑے دھوئیں نہ انہیں اپنے کپڑے گندے کرنے دیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق موجودہ قیادت کسی سیاست دان سے ملی ہے‘ نہ اس نے اس کا کوئی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے صدرِ پاکستان نے عمران خان سے ان کی ملاقات کرانے کی کوشش کی تھی لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اگر یہ درست ہے تو پھر داد کے ساتھ ساتھ ان کے لیے ثابت قدمی کی دعا بھی کی جانی چاہیے۔
عمران خان کی مقبولیت یا عوامی طاقت جو بھی ہو، ایک سیاست دان کے طور پر ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ براہِ راست معاملہ کریں۔ سیاسی معاملات سیاست دانوں کے درمیان طے ہونے چاہئیں۔ عمران خان اپنے حریفوں سے بات کرنے پر آمادہ ہیں‘ نہ ان کے حریفوں کی طرف سے ان کے لیے شاخِ زیتون لہرائی جا رہی ہے۔ فریقین ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں‘ جس طرح کی بمباری ہو رہی ہے‘ اس پر کانوں کو ہاتھ تو لگائے جا سکتے ہیں‘ خدا کی پناہ بھی مانگی جا سکتی ہے‘ مسرت کا اظہار کسی طور نہیں کیا جا سکتا۔ ملکی معیشت سسکیاں لے رہی ہے۔ پاکستانی عوام کو ایک طویل انتخابی مہم کی بھٹی میں جھونکا جا رہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام زور پکڑ رہا ہے لیکن اہلِ سیاست آنکھیں بند کر کے بگٹٹ دوڑ رہے ہیں۔ عمران خان ایک بڑے سیاسی لیڈر ہیں۔ انہیں اور ان کے حامیوں کو اپنی مقبولیت کا بھی زعم ہے۔ اگر یہ درست ہے تو پھر انہیں اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس کرنا چاہیے۔ قوم کو متحد کرنا‘ اس کے درمیان فاصلوں کو کم کرنا‘ اس کے لیے آسانیاں فراہم کرنا ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اگر وہ پیش قدمی کریں‘ بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ممکن ہو سکتے ہیں۔ ملکی معیشت کو سنبھالنے کی تدبیر کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کو ایک بڑے خلفشار سے بچایا جا سکتا ہے۔ آرمی کی قیادت کو اس کا کام کرنے دیا جائے‘ اس کو جنرل باجوہ بنانے کا خیال دِل سے نکال دیا جائے۔ اہلِ سیاست اپنا کام کریں‘ قوم کے حال پر نہیں تو اپنے حال ہی پر رحم کھائیں‘ قوم خستہ و خراب ہو گی‘ اس کے کندھے کمزور ہوں گے تو اس سے آپ کی وزنی قیادت کا بوجھ کیسے اٹھایا جائے گا؟
ڈاکٹر امجد علی ثاقب کی یادداشتیں
ڈاکٹر سید امجد علی ثاقب کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی عمر سرکاری افسروں کی تعلیم و تربیت میں گزری ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں علم سیاسیات کے استاد تھے کہ نپیا (نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک افیئرز) سے وابستہ ہو گئے‘ پھر یہی ادارہ ان کا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ پورے بتیس برس اس سے وابستہ رہے اور فیکلٹی کی سینئر ترین پوزیشن پر پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔ اب حیدر آباد میں علم کا چراغ جلائے بیٹھے ہیں ''یونیورسٹی آف الیٹ‘‘ کے وائس چانسلر ہیں۔ انہوں نے اپنی یاد داشتوں کو تحریری شکل دی ہے۔ ''دید و شنید‘‘ کے زیر عنوان‘ رائل بک کمپنی کراچی نے انہیں شائع کیا ہے۔ یہ یاد داشتیں متفرق مضامین کی شکل میں ہیں‘ مصنف کو مولانا ظفر احمد انصاری‘ ڈاکٹر اشتیاق قریشی‘ ڈاکٹر محمود حسین‘ ڈاکٹر منظور احمد‘ پروفیسر خورشید احمد اور ان جیسے کئی عبقریوں کی صحبت سے استفادے کا موقع ملا۔ ان سب کا اجمالی تذکرہ ڈاکٹر صاحب کے قلم نے محفوظ کر دیا ہے۔ کتاب کا انتساب انہوں نے متعدد شخصیات کے نام کیا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ممکن ہے یہ ہماری پہلی اور شاید آخری کتاب بھی ہو۔ اس لیے ہم اپنی چھ کتب میں جن چھ شخصیات کے نام انتساب رکھنا چاہتے تھے‘ وہ ایک ہی کتاب میں جمع کر دیا ہے۔ خلافِ روایت انتساب ان شخصیات کے نام بھی ہے جنہوں نے ہمیں اچھا انسان اور مسلمان بننے میں رہنمائی کی۔ یوں قائداعظمؒ سے معاملہ شروع ہو کر ان کے والد ڈاکٹر الطاف حسین شاہ اور والدہ محترمہ صغریٰ بیگم سے ہوتا ہوا‘ زوجہ محترمہ بیگم زہرا ثاقب تک پہنچ گیا ہے۔ وہ اپنے امریکی پروفیسر کو بھی نہیں بھولے جنہوں نے اپنے دفتر بلکہ پوری بلڈنگ کی چابیاں ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جب چاہیں جہاں چاہیں‘ بیٹھ کر اپنے مطلب کی کتابیں پڑھ سکتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)