آئی ایم ایف کے ایک وفد نے لاہور میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملاقات کی جو ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی۔ اس میں تحریک انصاف کے کئی رہنما ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔ملاقات کے بعد تحریک کے ترجمان مزمل اسلم نے دعویٰ کیا کہ آئی ایم ایف تحریک انصاف کو پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت سمجھتا ہے۔اس سے قطع نظر کہ اس ملاقات کی ضرورت کیوں پیش آئی‘ اِس میں کیا کچھ زیر بحث آیا اور تحریک انصاف کے چیئرمین سے کیا کہا گیا اور کیا سنا گیا‘جناب مزمل اسلم کا دعویٰ بہت دلچسپ ہے۔انہیں اپنی جماعت کو بڑا ثابت کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے کندھے پر بندوق رکھنا پڑی ہے‘ آئی ایم ایف کا وفد ظاہر ہے جناب خان اور اُن کے رفقا کو یہ اطلاع دینے کیلئے ان سے نہیں ملا ہو گا کہ وہ انہیں پاکستان کی سب سے بڑی جماعت سمجھتا ہے‘اس کا فیصلہ پاکستان کے عوام نے کرنا ہے‘ وہ اگر تحریک انصاف کو بڑی تعداد میں ووٹ دیں گے تو اس کی بڑائی کو کسی دوسری مہر کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آئی ایم ایف کے وفد نے جناب چیئرمین سے ملاقات کی کوشش اس لیے کی ہو گی کہ وہ قرض کا جو معاہدہ حکومت ِ پاکستان سے کرنے جا رہا ہے‘اُسے کسی سیاسی جماعت (یا جماعتوں) کے ساتھ معاہدہ نہیں سمجھنا چاہیے۔تحریک انصاف جو کہ پاکستانی سیاست کی(تاحال) ایک بڑی سٹیک ہولڈر ہے‘ اُس کو بھی اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔پاکستان اگر بالفعل ایک دستوری ریاست ہوتا اور اس کے معاملات اُسی طرح چلائے جا رہے ہوتے‘جس طرح دوسری دستوری ریاستوں کے چلائے جا رہے ہیں‘ تو آئی ایم ایف کے وفد کو کسی سیاسی جماعت سے تبادلہ ٔ خیال کی ضرورت نہیں تھی۔ حکومت ِوقت سے کیے گئے معاملے کو ریاست کے ساتھ طے پا جانے والا معاملہ سمجھا جاتا‘اور آنے (یا جانے) والی ہر حکومت اپنے آپ کو اس کا پابند سمجھتی۔ہمارا چونکہ باوا آدم ہی نرالا ہے‘اس لیے مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں تو کجا ایک ہی حکومت بھی اپنے عہد کا پاس نہیں کر پاتی‘ تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو کچھ طے کیا تھا خود ہی اس کی خلاف ورزی کر ڈالی‘اور دستخط شدہ کاغذوں کو ہوا میں اڑا دیا‘ نتیجتاً ہمیں آگے جا کر پیچھے ہٹنا پڑا۔ اتحادی حکومت قائم ہوئی اسے خود کو ریزہ ریزہ اکٹھا کرنے پر لگانا پڑا۔مفتاح اسماعیل ریزے اکٹھے کر رہے تھے کہ ان کی وزارت ختم ہو گئی‘ریزے پھر ادھر اُدھر ہو گئے۔خدا خدا کر کے انہیں سنبھالا گیا تو پاکستانی معیشت نے سکھ کا سانس لیا‘ آئی سی یو سے باہر نکال کر اُسے وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا لیکن مریض ہنوز توجہ طلب ہے۔
ہماری بکھری ہوئی سیاست نے آئی ایم ایف کو تحریک انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور کیا‘اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے ایک وفد سے بھی ملاقات کر لی گئی تھی تاکہ اس سلسلۂ ملاقات کو وسیع تر قرار دیا جا سکے۔ پیپلزپارٹی تو حکومت کا حصہ ہے اس نے کابینہ میں بیٹھ کر آئی ایم ایف کے حق میں انگوٹھا ثبت کر رکھا ہے‘ اس کے باوجود اس نے اپنی یقین دہانی کو دہرانا مناسب سمجھا‘عمران خان چونکہ مختلف راگ الاپتے رہتے ہیں‘اس لیے بنیادی اہمیت ان سے ملاقات ہی کی تھی‘ایک عرصے بعد انہوں نے ڈھنگ کی بات یہ کی کہ آئی ایم ایف سے حکومتی مفاہمت کو متنازع نہیں بنایا‘ یقین دلایا کہ وہ اس کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔تحریک انصاف کے رہنمائوں نے آئی ایم ایف کے وفد سے جو گفتگو کی‘اس سے یہ امید بھی پیدا ہوئی کہ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاقِ معیشت طے پا سکتا ہے‘معیشت کو سنبھالنے اور توانا کرنے کے لیے کسی مشترکہ پروگرام پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ یہ بہت دور کی کوڑی ہے‘لیکن کوڑی دور کی ہو یا قریب کی‘ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود رہے گی کہ پاکستانی معیشت کو اگر سنبھالا نہیں جائے گا تو سیاست کیا ریاست کو بھی سنبھالا نہیں جا سکے گا۔
پاکستان تحریک انصاف اور اس کے مخالفین گزشتہ کئی سالوں سے ایک دوسرے سے الجھتے چلے آ رہے ہیں۔تحریک انصاف نے مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کے خلاف جو محاذ بنایا‘ اور جس طرح انہیں ایوانِ اقتدار سے نکلوایا‘2018ء کے انتخابات میں اپنی جیت کو یقینی بنوایا‘ اس کی تفصیلات چھپی نہیں رہیں‘اس واردات کے کردار خود بول اٹھے ہیں‘ ان کے ہاتھ پر لگا لہو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ دستانے بھی ان میں سے کئی نے خود ہی اتار پھینکے ہیں۔نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ اب وہ لپٹتا نظر آ رہا ہے‘ احتساب عدالت کے ایک فاضل جج نے چند ہی روز پہلے اپنے فیصلے میں لکھ ڈالا ہے کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔نواز شریف کو تاحیات سیاست سے بے دخل کرنے والے اب منہ چھپاتے پھر رہے ہیں‘پکیّ اشارے مل رہے ہیں کہ وہ واپس آ کر اپنی اننگ وہیں سے شروع کر سکیں گے جہاں ختم ہوئی تھی۔لیکن عمران خان اور ان کی تحریک انصاف اب کٹہرے میں ہیں‘ان کو حساب دینا پڑ رہا ہے‘مقدمات قائم ہو رہے ہیں‘حامی ٹوٹ رہے ہیں‘کل تک ان کا دم بھرنے والے آج انگلیاں اٹھا کر وہ کچھ بتا رہے ہیں جو مخالف بھی کہہ نہیں پا رہے تھے۔عمران خان کو ابھی تک عدالتوں سے ر یلیف مل رہا ہے۔ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی آسان اور ہموار نہیں ہے۔ راستے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ آن کھڑی ہوتی ہے‘ان کے حریف ہاتھ ملتے اور دانت کچکچاتے رہ جاتے ہیں۔عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ کون‘ کس طرح کیا کر گزرے گا‘اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں‘لیکن کچھ نہ کچھ نہیں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ان کے راستے میں بچھی کہکشاں اب خوردبین سے بھی ڈھونڈی نہیں جا سکتی‘ دور سے سب کچھ دیکھنے والے‘ یہ خواہش تو البتہ ظاہر کر سکتے ہیں (اور ان میں سے کئی کر بھی رہے ہیں) کہ تاریخ کو دہراتے چلے جانے سے کہیں بہتر ہے کہ اس سے سبق حاصل کر لیا جائے اور سبق حاصل کرنے کیلئے لازم ہے کہ دوسروں کو سبق سکھانے والے اپنے اپنے گریبان کو ٹٹولیں‘اس میں منہ ڈالیں اور اپنے اپنے حصے کا اعتراف کر لیں‘ اپنے اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر اپنا اپنا بوجھ ہلکا کریں‘ تاکہ زندگی کسی قاعدے‘ قرینے اور ضابطے کے مطابق گذاری جا سکے۔یا یہ کہیے کہ اس کا آغاز کیا جا سکے۔کب تک ہم حامد کی پگڑی کے لیے محمود کے سر اور محمود کی پگڑی کے لیے حامد کا سر تلاش کرتے رہیں گے!!!
پروفیسر وارث میر مرحوم کیلئے دعا
9جولائی مرحوم دوست پروفیسر وارث میر کا یومِ وفات ہے‘ جو چھتیس برس پہلے صرف اڑتالیس سال کی عمر میں اس دنیا سے منہ موڑ گئے تھے۔ان کا تعلق جامعہ پنجاب کے شعبۂ صحافت سے تھا‘ لیکن قومی صحافت اور سیاست میں بھی ان کی گونج سنائی دیتی تھی۔ اپنے دبنگ لہجے کی بدولت وہ ممتاز تھے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں اُن کی جرأتِ اظہار نے خود کو منوایا‘ اور انہیں اونچا اڑایا۔ ان کے مضامین (اور انٹرویوز) کا مجموعہ ''ضمیر کے اسیر‘‘ کے زیر عنوان اُن کے ہونہار صاحبزادے عامر میر نے مرتب کیا ہے جو دنیائے صحافت میں اپنی شان اور آن بان رکھتے ہیں‘حسن ِ اتفاق سے اس وقت پنجاب کی نگران حکومت کے وزیر اطلاعات بھی ہیں۔ پاکستان کے ایک ممتاز ترین اینکر پرسن اور دانشور حامد میر بھی اپنے والد کی تصویر ہیں۔پروفیسر وارث میر مرحوم کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کیلئے دعا فرمایئے کہ
مائیں بچے جنتی ہیں ایسے بہادر خال خال
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)