نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور اُن کی کابینہ نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔کابینہ کے پہلے اجلاس سے جناب وزیراعظم نے خطاب فرمایا‘ تو الیکٹرانک میڈیا نے اسے لائیو نشر کیا۔وہ جن عوام سے مخاطب تھے‘ان کی بھاری اکثریت اُس زبان سے ہنوز ناواقف ہے جسے انگریزی کہتے ہیں۔خواص تک البتہ اُن کی بات اچھی طرح پہنچ گئی ہو گی۔کاکڑ صاحب کو اردو پر بھی قدرت حاصل ہے‘اقبال کے تو وہ عاشق اور حافظ ہیں‘خدا معلوم اُنہوں نے اس بے چاری کا انتخاب کیوں نہ کیا‘جسے قومی زبان کہتے ہیں‘ دستورِ پاکستان کے مطابق جسے سرکاری زبان بنایا جانا ہے‘اور جس کے نفاذ کے بارے میں سپریم کورٹ کے (اب سابق) چیف جسٹس جواد خواجہ واضح اور مفصل حکم بھی جاری فرما چکے ہیں۔بات بے بات سپریم کورٹ کی توہین کی دہائی دینے والے قانون دانوں اور سیاست کاروں کی توجہ خدا معلوم اس طرف کیوں نہیں ہوتی‘اور اردو زبان کو اس کا حق کیوں نہیں ملتا؟ انوار الحق کاکڑ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ سردار ہیں نہ وڈیرے‘تاریخ اور سیاسیات پر اُن کی نظر گہری ہے‘ برطانیہ سے تعلیم بھی حاصل کر چکے ہیں۔جنوبی ایشیا کے امور و مسائل اُن کے مطالعے کا خاص موضوع ہیں۔وہ ان گِنے چُنے سیاستدانوں میں شمار کئے جا سکتے ہیں جن کی گھریلو لائبریری کتابوں سے بھری ہوئی ہے‘اور ان کا مطالعہ بھی اُنہوں نے کر رکھا ہے۔ اس لیے اُن سے یہ توقع بے جا نہیں ہو گی کہ وہ اردو زبان کا نفاذ یقینی بنائیں‘ اور پہلے قدم کے طور پر سول سروسز کے امتحانوں میں اردو کو ذریعہ ٔ اظہار بنانے کی بھی اجازت دے دیں۔اُن کے پاس وقت کم ہے‘لیکن ان سے توقعات زیادہ ہیں‘ان کی نگران حکومت سے اُمیدیں لگائی گئی ہیں کہ وہ سیاست کے جھمیلوں سے آزاد رہ کر بہت کم وقت میں معیشت اور سماج کے استحکام کے لیے وہ کچھ کر سکتی ہے سیاسی مصلحتیں جو نہیں ہونے دے رہی تھیں۔
نگران کابینہ کی داد ملک بھر میں دی جا چکی ہے۔اس کے وزرا اپنے اپنے شعبوں کے ماہر اور اچھی شہرت کے مالک ہیں۔خارجہ‘ خزانہ‘ داخلہ سے شروع ہو کر تجارت اور آئی ٹی تک پہنچیں‘ تجربہ کار ماہرین دکھائی دیتے ہیں۔وزارتِ اطلاعات پر مرتضیٰ سولنگی جیسے باکردار میڈیا پرسن فائز ہیں‘ تو وزارتِ مذہبی امور معروف اور ممتاز سکالر انیق احمد کو سونپی گئی ہے جو ہر مکتبِ فکر میں مقبول و محترم ہیں‘ نئی نسل کے شاعر وصی شاہ کو سیاحت کا محکمہ سونپا گیا ہے‘ تو کشمیر کی تحریکِ آزادی کی بے باک ترجمان مشعال کو انسانی حقوق کے امور کا انچارج بنا کر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کشمیریوں کا دل اعتماد سے بھر دیا گیا ہے۔عمر سیف‘ احد چیمہ اپنی ذہانت اور دیانت کی پاداش میں معتوب ٹھہرے تھے‘ان کی صلاحیتوں سے بھی قوم کو استفادے کا موقع مل سکے گا۔
سندھ اور بلوچستان میں بھی اتفاقِ رائے سے وزرائے اعلیٰ کا انتخاب ہو چکا۔خیبرپختونخوا کی نگران کابینہ بھی غیر سیاسی بنائی جا چکی‘اُس کے وزرا کی پہلی کھیپ واپس گھروں کو ارسال کر دی گئی ہے۔ سب نگرانوں کو انتخابی عمل کو آزاد اور شفاف رکھنا ہے‘انتظامیہ کو کسی بھی جماعت کے حق میں یا خلاف کچھ نہیں کرنے دینا۔ لیکن انتخابات کا انعقاد ان کی ذمہ داری نہیں ہے ان کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کو کرنا ہے‘ جب تک وہ چاہے گا نگران ایوانِ اقتدار میں موجود رہیں گے۔
الیکشن کمیشن نے اعلان کر دیا ہے کہ کونسل آف کامن انٹرسٹ نئی مردم شماری کے نتائج کو نوٹیفائی کر چکی ہے‘ اس لیے اب آئین اور قانون کا تقاضا ہے کہ پہلے ازسرِ نو حلقہ بندیاں کی جائیں‘اس کے بعد یوم انتخاب کا تعین ہو۔ یوں نوے دن کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔اس پر وکلا اور میڈیا کے بعض حلقوں نے ہنگامہ اٹھا رکھا ہے‘سپریم کورٹ میں درخواستیں داغی جا رہی ہیں‘ آئین کی مقرر کردہ حد کو عبور کرنے کو گناہِ کبیرہ قرار دے کر الیکشن کمیشن کو سنگسار کرنے کے ارادے باندھے جا رہے ہیں۔اور تو اور وہ پیپلزپارٹی جس نے کونسل آف کامن انٹرسٹ میں بیٹھ کر نئی مردم شماری کو شرفِ قبول بخشا تھا‘ اس کے بعض رہنما بھی نوے دن کی گردان میں مبتلا ہیں۔الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ دستور کو ٹکڑوں میں بانٹ کر نہیں‘اکٹھا پڑھا جائے۔اس کی مختلف شقوں اور قانون کے تقاضوں میں تطبیق کی جائے‘ تو نوے روز کی پابندی ساقط ہو جاتی ہے۔نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں اور ان کے بعد انتخابی فہرستوں کی تیاری کا کام مقدم ٹھہرتا ہے۔مقامِ شکر ہے کہ نئی مردم شماری کے نتیجے میں صوبوں کے درمیان نشستوں کی تقسیم متاثر نہیں ہوئی‘ قومی اسمبلی کی نشستیں جوں کی توں رہیں گی‘ اگر انہیں بھی کم یا زیادہ کرنا پڑ جاتا تو پھر آئینی بحران جنم لیتا کہ آئین میں ترمیم کیے بغیر کسی صوبے کی نشستیں کم یا زیادہ نہیں کی جا سکتیں۔اس وقت معاملہ صوبائی حدود کے اندر ضلع وار نشستوں کا ہے‘ کہ کئی اضلاع کی آبادی کم یا زیادہ ہو چکی ہے‘اس لیے ان کی نشستیں کم یا زیادہ ہو سکتی ہیں۔یہ کام آئین میں ترمیم کے بغیر ممکن ہے‘ سو کیا جا رہا ہے۔
الیکشن کمیشن انتخابات کے ساتھ کیا کرے گا اور الیکشن کمیشن کے ساتھ وکلا اور سیاسی جتھے بذریعہ سپریم کورٹ کیا کریں گے‘ اس کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔نگران حکومتیں اس ہنگامے سے البتہ متاثر نہیں ہوں گی‘اُن کی مہلت دراز ہوتی جائے گی۔ کئی حلقے اس کی دعا مانگ رہے ہیں ؎
تیری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
میری دعا ہے کہ تیری آرزو بدل جائے
جڑانوالہ کا المیہ
جڑانوالہ میں مسیحی آبادی اور گرجا گھروں پر حملے کی خبروں نے اہل ِ پاکستان کو مضطرب کر دیا۔ ایک مسیحی نوجوان پر توہینِ قرآن کا الزام لگایا گیااور پھر لوگوں کو اُکسانے والے میدان میں کود پڑے۔وہ مناظر دیکھنے میں آئے جن کی مذمت کے لیے الفاظ نہیں مل رہے۔اس شر سے خیر یہ برآمد ہوئی کہ علمائے کرام‘ پادری صاحبان اور اہل ِ اقتدار نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر حالات پر قابو پایا۔ ڈیڑھ سو کے قریب افراد گرفتار ہو چکے ہیں۔پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے اعلان کیا ہے کہ تمام گرجے بحال ہوں گے‘اور ہر متاثرہ گھر کو فوری طور پر معاوضہ ملے گا‘ مستعد انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے موقع پر پہنچ کر امن بحال کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ نگران وزیراعظم نے بھی متاثرین کا براہِ راست جائزہ لینے جڑانوالہ جانے کا اعلان کیا ہے۔آئندہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی بنفس ِ نفیس وہاں پہنچے ہیں۔ پاکستانی قوم نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ نفرت کے سوداگروں کا مالِ تجارت بننے کو تیار نہیں ہے۔پاکستان پر اُس کے ہر شہری کا حق ہے‘کسی کی بھی جان‘ مال اور آبرو پر حملہ پاکستان پر حملہ ہے‘ ایسے حملہ آوروں کے دانت اور ہاتھ قانون کے ہتھوڑے سے توڑنا ہوں گے۔حکومت کو ملک بھر میں مسجد شماری بھی کرانی چاہیے‘ ائمہ اور مؤذنوں کے کوائف معلوم کیے جانے چاہئیں۔نیم یا غیر تعلیم یافتہ افراد کو مسجدوں کے معاملات نہیں سونپے جا سکتے۔ حیرت کی بات ہے کہ مسجدیں جود ارلامان ہیں‘ ان کے لائوڈ سپیکر لوگوں کو مشتعل کرنے اور اُکسانے کے لیے استعمال ہوئے۔ پاکستان کو جنگل بنا دیا گیا ہے‘جس میں طرح طرح کے درندے چھپے ہوئے ہیں‘اور جب چاہیں جس پر چاہیں جھپٹ سکتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)