صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے پورے پانچ سال ایوانِ صدارت میں گزار لیے ہیں۔اُن کو نامزد کرنے اور منتخب کرانے والے وزیراعظم عمران خان کو تو یہ شرف حاصل نہیں ہو سکا تھا کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کریں۔پانچ سال وزارتِ عظمیٰ سے دل بہلائیں اور پھر اُس کے بعد عوام کی عدالت میں پیش ہو جائیں۔ساڑھے تین سال بعد ہی اُن کا دھڑن تختہ ہو گیا کہ اُن کی مخلوط حکومت میں پھوٹ پڑ گئی۔ انہیں 2018ء کے انتخابات میں بلاشرکت غیرے اکثریت حاصل نہیں ہو پائی تھی۔تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی بن کر تو ابھری لیکن قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے اسے کئی چھوٹی جماعتوں کی معاونت حاصل کرنا پڑی۔ وزیراعظم قومی اسمبلی کی سادہ اکثریت سے منتخب ہوتا اور سادہ اکثریت ہی سے فارغ کیا جا سکتا ہے جبکہ صدرِ مملکت کی پوزیشن اس کے مقابلے میں بہت مضبوط ہے۔اختیارات جتنے بھی کم ہوں‘ایوانِ صدارت میں زلزلہ برپا کرنا آسان نہیں ہے۔ صدر کا حلقۂ انتخاب بھی وسیع ہے کہ سینیٹ‘ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں مل کر اُسے چنتی ہیں اور صدر کو ایوان سے نکال باہر کرنا بھی آسان نہیں ہے کہ اس کے لیے پارلیمنٹ (قومی اسمبلی+ سینیٹ) کے دو تہائی ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔صدر کو کسی ایک ایوان کی سادہ یا دوتہائی اکثریت بھی گھر بھجوانے کا اختیار نہیں رکھتی۔
عمران خان کی ایوانِ اقتدار سے رخصتی کے بعد شہباز شریف وزیراعظم بنے تو اُن کی پشت پر کثیر الجماعتی اتحاد کی طاقت تھی۔قومی اسمبلی کے چھوٹے بڑے گروپوں نے مل کر کابینہ بنائی‘ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بارہ‘ تیرہ جماعتوں نے بیک وقت وفاقی اقتدار سنبھالا اور کسی نہ کسی طور اپنی حکومت چلا کر دکھائی۔عمران خان اس صدمے کو برداشت نہ کر سکے اور قومی اسمبلی سے اپنے حامیوں سمیت مستعفی ہو گئے۔ایسا بھی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کوئی وزیراعظم منصب سے فارغ ہونے کے بعد ایوان میں بیٹھنے پر تیار نہ ہو اور قومی اسمبلی اپنے حریفوں کے سپرد کر کے سڑکوں پر طاقت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کرے۔ کئی وزرائے اعظم اقتدار سے محروم ہوئے لیکن کسی نے بھی قومی اسمبلی میں بیٹھنے سے انکار نہیں کیا۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو صدر کے صوابدیدی اختیار (جو اَب آئین سے خارج ہے) کی زد میں آ کر اپنے اپنے منصب سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن اُس کے بعد قانون کی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا یا انتخابات کا مزہ چکھا یعنی عوام کی عدالت سے فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ صدر عارف علوی البتہ ایوانِ صدر میں براجمان رہے‘اتحادی حکومت کے بس میں ہوتا تو انہیں ایک دن کی مہلت بھی نہ مل پاتی لیکن ادھوری قومی اسمبلی اور پوری سینیٹ کو جب ملایا جاتا تو صدرِ پاکستان کو الوداع کہنے کے لیے ووٹوں کی مطلوبہ تعداد اکٹھی کرنا ممکن نہ رہتا۔ صدرِ پاکستان اور اتحادی حکومت ایک دوسرے کے سینے پر مونگ دلتے رہے‘ایک دوسرے کو زچ کرتے رہے‘ایک دوسرے پر غصہ نکالتے رہے‘گھوریاں ڈالتے رہے لیکن ایک دوسرے کا بال بیکا نہ کر سکے۔نہ صدر کے بس میں تھا کہ حکومت کو چلتا کر سکے اور نہ حکومت کا بس چل رہا تھا کہ صدر کو خدا حافظ کہہ سکے۔دونوں ایک دوسرے کو بے بس کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہے یہاں تک کہ اسمبلیوں نے اپنے اپنے پانچ سال پورے کر لیے۔شہباز شریف نے وزیراعظم ہائوس خا لی کر دیا لیکن ڈاکٹر عارف علوی بدستور اپنی جگہ ہیں۔پانچ سال پورے ہونے کے باوجود اُنہیں کوئی ایوان سے باہر نہیں نکال سکتا۔عام انتخابات کا انعقاد ہو گا‘نئی اسمبلیاں نئے صدر کا انتخاب کریں گی تو پھر جنابِ صدر جگہ خالی کریں گے۔
کئی موثر اور غیر موثر حلقوں میں یہ اُمید لگائی جا رہی تھی‘اس خواہش کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ صدر صاحب پانچ سال پورے کر کے کراچی واپس چلے جائیں گے اور ان کا منصب سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی سنبھال کر عام انتخابات کا انتظار کرنے لگیں گے‘ لیکن ایسی کوئی اُمید پوری ہوئی نہ ہو سکتی تھی۔ اُن کے عہد ِ صدارت کا ناقدانہ جائزہ لینے والوں نے اُن کے کئی اقدامات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے‘سینیٹ کے سابق چیئرمین اور آئینی امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیٹر رضا ربانی نے ایک تفصیلی بیان میں صدر پر کئی آئینی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا ہے لیکن صدر کے حامی اسے سیاسی بیان قرار دے کر مسترد کر رہے ہیں۔یہ درست ہے کہ جنابِ صدر کے کئی اقدامات سے شہباز شریف کی اتحادی حکومت کو شکایات پیدا ہوئیں‘تحریک انصاف کے عہد میں جس طرح وزیراعظم کے مشوروں پر کھٹا کھٹ دستخط ہوتے رہے‘انواع و اقسام کے اقدامات کی منظوری دی جاتی رہی‘وہ سہولت شہباز حکومت کو حاصل نہیں رہی۔جنابِ صدر فائلیں واپس کرتے‘ نکتے اٹھاتے اور اڑچن ڈالتے رہے لیکن اپنے اقدامات کا جواز بھی پیش کرتے رہے۔اُن کا اصرار رہا کہ وہ جو کر رہے ہیں خلوصِ نیت کے ساتھ کر رہے ہیں۔ہمارے آئین میں اب صدر کے صوابدیدی اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں‘بہت کم معاملات میں وہ اپنی مرضی کر سکتا ہے۔اُسے بہرحال وزیراعظم کی رائے کے مطابق اقدام کرنا ہوتا ہے۔اگر عمرانی اور شہبازی اقتدار کے دوران جنابِ صدر کے اعتراضات اور اقدامات کی تعداد اور رفتار یکساں ہوتی تو آج اُن کے ایوانِ صدارت سے رخصت ہونے کی دعائیں مانگے والے بہت کم ہوتے۔ بہرحال وقت گزر چکا ہے‘آئندہ چند ماہ کے دوران جنابِ صدر کو اپنا ایوان خالی کرنا ہے۔تحریک انصاف کے حامی اور مخالف اُن کی حمایت اور مخالفت میں دلائل دیتے رہیں گے لیکن سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ پارلیمانی جمہوری ممالک میں صدر کو ہدفِ تنقید بنانے کی روایت مضبوط نہیں ہے۔صدر ریاست کے اتحاد اور اعتماد کی علامت ہوتا ہے اس لیے وہ نہ سیاست میں الجھتا ہے نہ اسے الجھایا جاتا ہے۔وزیراعظم کے مشورے پر کئے جانے والے فیصلے وزیراعظم ہی کی ذمہ داری قرار پاتے ہیں اور اسے ہی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔پاکستان کا چونکہ باوا آدم ہی نرالا ہے‘یہاں صدرِ پاکستان کے اختیارات گھٹتے بڑھتے رہے ہیں۔فیلڈ مارشل ایوب خان کے آئین کے تحت تو باقاعدہ صدارتی نظام قائم کر دیا گیا تھا۔ مارشل لاء لگانے والوں کو بھی بار بار صدر ہی کا منصب بھاتا رہا ہے اور انہوں نے اس پر قبضہ کر کے اپنے آپ کو اختیارات کا سرچشمہ بنائے رکھا ہے‘اس لئے صدر کے اختیارات‘ اقدامات اور معاملات کے حوالے سے الجھائو پیدا ہوتا رہتا ہے حالانکہ صدر کے نام پر جو فرمان جاری ہوتے ہیں‘اُن کے پیچھے وزیراعظم چھپا ہوا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی ایک پرانے سیاسی کارکن ہیں‘اُن کی سیاست کا آغاز جماعت اسلامی سے ہوا لیکن تحریک انصاف میں پہنچ کر اُس نے اپنا نقش جمایا۔تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کے طور پر ان کے پُرجوش ہتھکنڈوں کو بھلایا نہیں جا سکتا۔اس کا سوشل میڈیا بھی اُن کی نگرانی میں متحرک رہا۔وہ کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں۔جنوبی ایشیا کیا عالمی سیاست پر اُن کی نظر گہری ہے۔پابند ِ صوم و صلوٰۃ اور سماجی خدمت کے دلدادہ ہیں۔ تحریک انصاف کو اُن سے یہ توقع تھی (اور اب بھی ہے) کہ وہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیں‘الیکشن کمیشن کا یہ دعویٰ کہ یہ اختیار صرف اُس کے پاس ہے‘رد کر دیا جائے گا لیکن تادمِ تحریر یہ توقع پوری نہیں ہوئی کہ معاملہ صرف اعلان کا نہیں‘اُس پر عمل کرانے کا بھی ہے۔قوتِ نافذہ ڈاکٹر عارف علوی کے پاس نہیں ہے‘ وہ پیشے کے لحاظ سے ڈینٹسٹ ہیں لیکن ایوانِ صدارت میں بیٹھ کر وہ کسی کے دانت نکال سکتے ہیں‘ نہ انہیں کھٹاکر سکتے ہیں‘ صرف اپنے دانت دکھا سکتے ہیں‘سو وہ دکھا رہے ہیں۔مسکراہٹ اُن کے چہرے پر پھیلی پھیلی ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)