"MSC" (space) message & send to 7575

حکومتوں کے ہتھکنڈے

انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا‘ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انداز میں سرگرم ہیں۔کہیں امیدواروں کی فہرست کو آخری شکل دی جا رہی ہے‘تو کہیں امیدواروں کو نااہلی سے بچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔تحریک انصاف اور عمران خان پر وہی (بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ) افتاد آن پڑی ہے‘جو گزشتہ انتخابات کے موقع پر مسلم لیگ(ن) کا جینا حرام کیے ہوئے تھی۔ آج عمران خان پس ِ دیوارِ زنداں ہیں‘ان کا سیاسی مستقبل بے یقینی کے بھنور میں ہے۔ سپریم کورٹ‘الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کی تمام تر فعالیت کے باوجود بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے‘جو نہیں ہونا چاہئے۔ایسا کیوں ہو رہا ہے‘اور کون کر رہا ہے‘ ہمارا مستقبل اس کے صحیح جواب سے بندھا ہے۔آج پرانی فائلوں کی چھان پھٹک کر رہا تھا کہ فروری2020ء میں لکھا ہوا ایک کالم سامنے آ گیا‘ دل میں آیا کہ اسے ایک بار پھر نذرِ قارئین کر دیا جائے کہ ع نہ تم بدلے‘ نہ دل بدلا‘نہ دل کی آرزو بدلی۔
...............
چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے‘ اور جاوید ہاشمی کوٹ لکھپت جیل میں جرمِ بغاوت کی سزا بھگت رہے تھے۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے کئی افراد جیل کی سلاخیں توڑ کر جدہ جا چکے تھے۔جاوید ہاشمی مسلم لیگ(ن) کے قائم مقام صدر بنائے گئے۔راجہ ظفر الحق کو چیئرمین کا منصب سونپا گیا‘ دونوں اپنے اپنے رنگ میں اپنا اپنا نقش جمانے لگے۔جاوید ہاشمی جلد ہی گرفتارِ بلا ہو گئے۔وہ براہِ راست جنرل پرویز مشرف کی زد میں تھے‘ اور ان کے ساتھ ہمدردی یا تعلق کا اظہار موصوف کو ناگوار گزرتا تھا۔انہی کے اقتدار کے دوران جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔یہ واردات لاہور کے ایک تھانے میں ہوئی‘ اور شنید یہ تھی کہ اس کی نگرانی ایک باوردی افسر کر رہے تھے۔جنرل پرویز مشرف لاہور آئے تو گورنر ہائوس میں میڈیا کے ارکان سے ملاقات کا اہتمام بھی کیا گیا۔مَیں نے اس جسمانی تشدد کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ‘پہلے تو انہوں نے آئیں بائیں شائیں سے کام چلانے کی کوشش کی‘ لیکن میرے الفاظ اور جذبات کی شدت پر ان کے منہ سے نکل گیا‘یہ بھی تو دیکھیں وہ کیا کر رہے تھے؟...اس طرح یہ راز آشکار ہو گیا کہ جنابِ صدر اپنی ''رعایا‘‘ کے معاملات سے بے خبر نہیں ہیں۔میرے الفاظ سے وہ بدمزہ تو ہوئے لیکن پھر معاملے کو سنبھال لیا‘ اور بات دوسرے موضوعات کی طرف مڑ گئی۔
جاویدہاشمی کی بیٹی کی شادی ہو رہی تھی‘لیکن وہ کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے۔رات گئے خیال آیا کہ اگر اُنہیں رہا کر دیا جائے تو وہ اپنی بیٹی کو رخصت کرنے کے لیے ملتان پہنچ سکتے ہیں‘اور یوں باپ اور بیٹی کو آسودگی کے چند لمحات میسر آ سکتے ہیں۔ میں نے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو ٹیلی فون کر کے گذارش کی کہ اگر پیرول پر رہائی کا حکم جاری کر دیا جائے تو کل صبح لاہور سے روانہ ہو کر ملتان پہنچا جا سکتا ہے۔چودھری صاحب نے پہلے تو اس بات پر خفگی کا اظہار کیا کہ یہ خیال رات گئے کیوں سوجھا ہے؟ دفتری اوقات میں اگر ان کی توجہ اس طرف مبذول کرا دی جاتی تو فیصلہ آسان ہوتا۔وہ ایک طاقتور وزیراعلیٰ تھے‘ لیکن جاوید ہاشمی کو کوئی سہولت فراہم کرنے کے لیے جنرل پرویز مشرف کی رضا مندی حاصل کرنا ضروری تھا‘انہیں اندیشہ ہوا کہ تاخیر ہو چکی ہے‘اب شاید صدر صاحب سے رابطہ ممکن نہ ہو پائے‘اس کے باوجود انہوں نے انتظارکرنے کے لیے کہا۔چند ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ ان کا فون آیا‘جنرل پرویز مشرف کو وہ اعتماد میں لے چکے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ جاوید ہاشمی کے پیرول پر رہائی کے احکامات جاری کیے جا رہے ہیں وہ علی الصبح لاہور سے روانہ ہو کر بآسانی دوپہر کو ملتان پہنچ کر اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں رخصت کر سکیں گے۔
جنرل پرویز مشرف ہی کے دور میں لندن سے یہ خبر عام ہوئی کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز جو وہاں رہتے ہیں‘ ایک پیچیدہ اعصابی بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ یہ 2006ء کے آغاز کی بات ہے۔نواز شریف کو جدہ رہتے ہوئے پانچ سال ہو چکے تھے‘اور کہا یہ جاتا تھا کہ انہیں دس سال تک وہیں رہنا ہے۔ان کا پاسپورٹ بھی ضبط کیا جا چکا تھا۔جب حسن نواز کی بیماری کی خبر اسلام آباد پہنچی تو یہاں بھی ہل چل مچ گئی‘ جنرل پرویز مشرف نواز شریف کو اپنا حریف ِ اول سمجھتے تھے‘ ان کا اقتدار ختم کر کے ہی موصوف نے اپنا جھنڈا گاڑا تھا۔ نام نہاد ہائی جیکنگ کیس بنوا کر اس میں عمر قید کی سزا دلوائی تھی۔یہ اور بات کہ بعدازاں حالات سے مجبور ہو کرانہیں سعودی عرب بھجوانا پڑ گیا۔ اس کے باوجود ان کے اندر کا انسان جاگا‘اور انہوں نے نواز شریف صاحب کو لندن جانے کی اجازت دے دی۔
آج جب مریم نواز کو ان کے بیمار والد کی عیادت کے لیے لندن جانے کی اجازت دینے کی بات ہوتی ہے تو اس پر تحریک انصاف کے وزیروں اور رہنمائوں کی طرف سے جس ردعمل کا اظہار ہوتا ہے‘ اس پر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔دنیا اس سے واقف ہے کہ نواز شریف کی صحت کا معاملہ دگرگوں ہے۔مریم نواز ان کی صاحبزادی ہیں‘ اپنے والد کے ساتھ ان کی محبت اور کمٹمنٹ کے لیے کسی کو کوئی دلیل لانے کی ضرورت نہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر وہ چند ماہ کے لیے بیرون ملک چلی جائیں اور اپنے والد کی دلجوئی کر پائیں تو اس سے کون سی قیامت برپا ہو جائے گی؟ بدتمیزی کا ایک طوفان ہے جو اس حوالے سے اُٹھایا جا رہا ہے۔مریم نواز کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ ایک بار ملک سے باہر چلی گئیں تو پھر واپس نہیں آئیں گی‘پاکستانی سیاست سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔یہ خود کشی کا راستہ ہو گا‘اور ظاہر ہے وہ اس کا ارتکاب نہیں کر سکتیں۔اگر وسیع الظرف لوگ اقتدار کی صفوں میں موجود ہوتے تووہ فوراً آواز اٹھاتے کہ مریم نواز کو اپنے والد کے پاس بھجوا دیا جائے۔سیاست میں دوست اور دشمن بدلتے دیر نہیں لگتی۔عمران خان صاحب کے آج کئی حلیف ایسے ہیں‘ جنہیں ایک زمانے میں وہ اپنا جانی دشمن سمجھتے تھے‘ اسی طرح ان کے مخالفین میں ایسے افراد بھی شامل ہیں‘جو کل انہیں مسیحا قرار دیتے تھے۔ای سی ایل سے نام نکلوانے کے لیے مریم نواز کی درخواست عدالت میں زیر سماعت ہے‘وہاں سے جو بھی فیصلہ آئے‘وہ اپنی جگہ لیکن اس تکلف میں پڑنے کی ضرورت کیا ہے۔ حکومت کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ کسی بھی شہری کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی ختم کر دے۔ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے ذریعے بنیادی حقوق کا مذاق بنانا کسی جمہوری حکومت کو زیب نہیں دیتا۔یہ تو آمرانہ حکومتوں کے ہتھکنڈے ہیں‘جو وہ استعمال کرتی رہی ہیں لیکن ان کا نتیجہ ان کے حق میں بھی کوئی اچھا برآمد نہیں ہوا۔یہ سب کچھ ہماری تاریخ کے اوراق پر سیاہ دھبوں کی صورت میں موجود ہے۔ ہر شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ آزادیاں چھیننے والوں نے ہماری قومی ساکھ کو مجروح کرنے کے علاوہ کوئی اور کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔اربابِ حکومت کو ایسے اقدامات سے گریز نہیں کرنا چاہئے جن سے تلخیاں کم ہوں‘ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘ اگر اسے مان لیا جائے تو بھی سیاستدانوں کے سینے میں تو دل بہرحال ہونا چاہیے‘اور اسے اپنی موجودگی کا احساس بھی دلاتے رہنا چاہیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں