پی آئی اے کے 26 فیصد حصص بیچنے کے حکومتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک وزیر با تدبیر نے کہا ہے کہ ہم نجکاری نہیں کر رہے۔ انہوں نے اپنے ایک اخباری بیان کے ذریعے قوم کو خوش خبری سنائی ہے کہ ہماری حکومت کے اس عمل سے قومی فضائی کمپنی کو منا فع بخش ادارہ بنا دیا جائے گا۔ ان کی اس بات پر عربی کی ایک پرانی لیکن مشہور کہاوت جو اپنی اردو کی کتاب میں اکثر پڑھا کرتے تھے سامنے آگئی۔ عرب بدو کے خیمے اور اونٹ کا قصہ آپ کو یاد ہوگا۔ رات کو سخت سردی اور بارش سے بچنے کے لیے اپنے مالک سے صرف منہ خیمے کے اندر لے جانے کی ابتدائی درخواست بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ آخر کار مالک خیمے سے باہر بارش اورسردی میں کانپ رہا تھا اور اونٹ پورے کا پورا خیمے کے اندر گھس کر مزے سے اس میں رکھا ہوا چارا کھا کر جگالی کر رہا تھا۔ پی آئی اے کے چھبیس فیصد حصص کی ابتد ا اس کی مکمل نج کاری کی طرف پہلا قدم ہے کیونکہ بار بار چین کے دورے کرنے کے بعد مائوزے تنگ کے اس قول کی سب کو سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے کہ کسی بھی منزل‘ وہ ایک ہزار میل کے فاصلے پرہی کیوں نہ ہو‘ پر پہنچنے کے لیے پہلا قدم اٹھا نا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ پی آئی اے کی مکمل نج کاری کی منزل تک پہنچنے کے لیے بھی پہلا بھر پور قدم اٹھا لیا گیا ہے۔ انتظار فرمائیں سب کچھ سامنے آنے والا ہے۔ ’’ با کمال لوگ لا جوا ب پرواز‘‘… پی آئی اے کی ابتدا اسی دعوے سے ہوئی تھی۔ ہر پاکستانی اپنی قومی فضائی کمپنی کی مثالی کار کرد گی پر فخر محسوس کرتا تھا۔ \'\'Guess who taught thirty other airlines how to fly\'\'..... دس الفاظ پر مشتمل یہ اشتہار دنیا بھر کے اخبارات و رسائل میں شائع ہوا کرتا تھا۔ آج حالت یہ ہو چکی ہے کہ دنیا کی تیس سے زائد فضائی کمپنیوں کو اپنے مسافروں کے آرام و سکون کے لیے ہنر سکھانے والی ایئر لائن خود ہر طرح کے ادب آداب سے محروم ہے۔ آج سے کوئی 33برس قبل اپریل1980ء میں پاکستان کے ایک اخبار میں پی آئی اے کی جانب سے دیا جانے والا اشتہار ملاحظہ فرمائیں ’’پاکستان کی اقتصادی خوش حالی کا دارو مدار ایسے اداروں پر ہے جو خود کفیل بھی ہوں اور ٹیکس اداکرنے والوں پر اور قومی خزانے پر بوجھ بھی نہ ہوں اور اپنے مصارف اپنی آمدنی سے پورے کرتے ہوں اور پی آئی اے یقینا ایسا ہی ایک ادارہ ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کی کامیابی کی بدولت آج ہم اس قابل ہیں کہ اپنا منافع قومی ترقی کے لیے وقف کردیں اور ہمارا دائرہ پرواز ملک کے دور افتادہ علاقوں تک پھیل جائے اور آج ہمارا شمار دنیا کی ان چند گنی چنی فضائی کمپنیوں میں ہوتا ہے جو اپنی اندرون ملک پروازوں کے لیے جمبو طیارے استعمال کر رہی ہیں۔ بین الاقوامی منڈی میں ہماری ساکھ اس قدر مستحکم ہو چکی ہے کہ ہم نے اپنے ہی وسائل سے بوئنگ747 جیسے دیو قامت طیارے خریدے ہیں‘‘۔ اس اشتہار کی عبارت کا ایک ایک حرف اپنی سچائی کی گواہی دے رہا ہے ا ور آج صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کچھ عرصہ قبل پی آئی اے کے ایک سربراہ کہہ رہے تھے\'\'We technically gone bankrupt\'\'- پی آئی اے‘ جس پر فخر کیا جاتا تھا‘ آج ندامت کا نشان بن چکی ہے۔ اس کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں‘ مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کسی بھی پرواز کی پانچ سے دس گھنٹے تاخیر سے روانگی معمول بن چکی ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی پروازوں میں مسافروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بھر دیا جاتا ہے اور دوران سفر انہیں ناقص خوراک مہیا کی جاتی ہے۔ وہ پی آئی اے‘ جو کل تک قوم پر بوجھ نہیں تھی‘ آج اپنے بے پناہ قرضوں اور خساروں کی وجہ سے ملکی معیشت پر بوجھ بن چکی ہے۔ اسے اس حال میں کس نے پہنچایا؟ ملک کے اس ادارے کو‘ جو با کمال تھا‘ زوال کی طرف کس نے دھکیلا؟ پی آئی اے میں بربادی کا آغاز اس وقت ہوا جب وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے ایک حکم سے اس میں447 سیا سی تقرریاں کی گئیں۔ ان کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے نومبر1988ء میں عنان حکومت سنبھالی تو ان کے حکم خاص سے592 افراد کو بھرتی کرنے کے علا وہ ان کے والد مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت (1972-76ء) کے دوران سیاسی بنیاد پر بھرتی کئے گئے ان افراد‘ جنہیں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا ریگولیشن نمبر54 کے ذریعے برخاست کر دیا تھا‘ کو بحال کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے بعد جب میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو انہوں نے اگلے پچھلے سب ریکارڈ توڑتے ہوئے3901 ملازمین کا مزید بوجھ پی آئی اے کی کمر پر لاد دیا۔ اس کے انتظامی جنرل منیجرز‘ جن کی تعداد1985ء تک61 تھی‘ 92ء91-ء میں473ہوگئے۔ اُس وقت پی آئی اے میں سیا سی بھرتیوں کی وجہ سے صورت حال یہ تھی کہ تمام ایشائی ایئر لائنوں میں فی ایئر کرافٹ سٹاف کی تعداد320 تھی جبکہ پی آئی اے کی تعدادفی ایئر کرافٹ580 ہو چکی تھی۔ حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ اپنی38 سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ پی آئی اے کو مالی سال 1991ء میں333.89 ملین روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر اسی سال قومی فضائی کمپنی کو میاں نواز شریف کے حکم خاص کے ذریعے اس سال کے ٹیکس کی ادائیگی سے مبرا کرنے کی چھوٹ نہ دی جاتی تو اس کا مجموعی خسارہ733.89 ملین روپے ہوجاتا۔ قوم نے ٹیکس کی یہ کمی بجلی ،گیس اور پانی کے بلوں میں اضافے کی صورت میں پوری کی۔ حضور والا! آج آپ پی آئی اے کی زبوں حالی پر اسے نجکاری کی منزل کی طرف لے جا رہے ہیں تو اس میں قصور کسی ایک کا نہیں سب کا ہے۔ یہ حادثہ یک دم نہیں ہوا۔ دنیا کی فضائی رینکنگ میں دسویں نمبر پر آنے والی ہماری یہ فضائی کمپنی ساٹھویں درجے تک پہنچ چکی ہے۔ اسے کس کس نے کس طرح لوٹا‘ اس کی کہانی اوپر بیان کی گئی ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال بھی ملاحظہ کریں۔ سینیٹ کمیٹی نے پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سے سوال کیا: ’’ہماری اطلاع کے مطا بق پی آئی اے کی1100 ٹرالیاں گم ہو گئی ہیں۔ کیا آپ ہمیں بتانا پسند فرمائیں گے کہ یہ سب ٹرالیاں کہاں گئیں؟ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان؟ ‘‘یہ سوال سننے کے بعد پی آئی اے کے ذمہ دار افسر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’’جناب والا سینیٹ کمیٹی کو کسی نے غلط اور جھوٹی اطلاع دی ہے۔ ہماری گیارہ سو نہیں بلکہ صرف آٹھ سو ٹرالیاں گم ہو ئی ہیں‘‘۔