تحریک انصاف پنجاب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بڑے بڑے عوامی اجتماعات کی صورت میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنجاب سے قدم بڑھاتے ہوئے 21 نومبر کو سندھ کی سیا ست کے سب سے اہم ضلع لاڑکانہ میں اپنے سیا سی وجود کا احساس دلانے جا رہی ہے ۔ سندھ کے سیا سی پنڈت اس وقت قیاس آرائیوں میں مصروف ہیں کہ عمران خان لاڑکانہ سے خالی ہاتھ جائے گا یا اپنے ساتھ بہت سے ہاتھ کھڑے کروا لے گا؟۔
لاڑکانہ جو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی مقبولیت اور عظمت کا میراث ہے‘ لاڑکانہ جس کے نام کی تشبیہ دیتے ہوئے پنجاب کے مختلف شہروں کو بھٹو اور پیپلز پارٹی کی مقبولیت کی انتہا بتانے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے کیا اب کی بار تاریخ کو دھراتے ہوئے کسی پنجابی کو اسی طرح سر پر بٹھائے گا جس طرح پنجاب نے سندھ کے بیٹے بھٹو اور بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو بٹھائے رکھا تھا؟۔ کیا سندھی عوام کا دل بھی ا سی طرح کی وسعت پنجاب کیلئے سامنے لائے گا جس طرح کئی برسوں تک پنجاب کے لوگوں نے اپنے دلوں کو ان کیلئے کھولے رکھا؟۔ عمران خان تو شائد نہ جان سکیں لیکن ان کی جماعت کی سندھ کی قیا دت اور شاہ محمود قریشی یقیناََ سندھ کی سیاست کے اس انداز کو جانتے ہوں گے جہاں وڈیرہ ، زمیندار، جاگیردار، تعلقہ دار، صوبیدار اور پتھاریدار کی حکومت ہوتی ہے جن کے سامنے سندھ کا ہاری اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتا۔ جہاں کسی ہاری کو اس لئے بھی درخت سے باندھ کر اڑا دیا جاتا ہے کہ اس نے وڈیرے کے حکم کی تعمیل کرنے میں چند لمحوں کی تاخیر کیوں کی تھی۔
کون نہیں جانتا کہ جمہوریت اور آئین کی مالا جپنے والے وڈیرے جمہوریت اور ''پارلا منٹ ‘‘کی بالا دستی کیلئے سندھ کے ہاریوں کو آزادی اظہار اور رائے کا حق اپنی مرضی سے دینے کو قطعاًتیار نہیں ہو تے۔ سندھ کے ہاری اور مزدور کی جمہوریت اور انسانی حقوق کی آزادی کا مستقبل اسی جماعت اور گروہ کیلئے وقف ہو کر رہ جاتا ہے جس کا جھنڈا اس وڈیرے اور جاگیردار نے اپنی محل نما حویلی پر لگایا ہوتا ہے ۔ہاری کا ووٹ قوم کی مقدس امانت نہیں بلکہ اسی پارٹی کا حق اور مقدر بن کر رہ جاتا ہے اور ان ہاریوں کے طرف سے دیئے جانے والے ووٹ کے نتیجے میں ہاری کو تو کچھ بھی نہیں ملتا لیکن اس کا وڈیرہ اس کے بدلے میں بڑی بڑی نوکریوں، قومی یا صوبائی اسمبلی کی رکنیت اور قیمتی پرمٹوں اور سرکار دربار میں بیٹھنے کیلئے بڑی بڑی کرسیوں ، اپنی ہی کچہریوں اور جیلوں کے ساتھ ساتھ تعلقہ دار اور صوبیدار کو حکم دینے کا حق حاصل کرلیتا ہے۔ حکومت وقت کی خوشامد اور بدلے میں اسے قانون پر بالا دستی حاصل ہو جاتی ہے اور اپنی جاگیر کی حدود میں وہ ''آئین کا خالق اور محافظ‘‘ بن کر عوام پر عملداری کا حقدار بن کر بیٹھ جاتا ہے ۔سندھ کا ہاری جتنا مظلوم ہے اتنا شائد دنیا کا کوئی مزدور بھی نہیں ہوتا ۔ان ہاریوں کی با قاعدہ غلاموں کی طرح خریدو فروخت بھی ہوتی ہے۔ ایک زمیندار کسی دوسرے زمیندار سے ہاری کا ''حاصل کردہ قرض‘‘ ادا کر کے اسے خرید لیتا ہے اور یہ ایسا قرض ہوتا ہے جو اس ہاری کی نسلیں بھی ادا نہیں کرپاتیں اور عمر بھر کیلئے زمیندار کے پاس گروی ہو کر رہ جاتی ہیں ۔ہاری دن رات کام کرتا ہے اور اس کے بچے وڈیرے کا مال مویشی چراتے ہیں۔ ان کی عورتیں گھاس کاٹتی اور چنائی کرتی ہیں۔ اس کے با وجود ان کی معاشی حالت اس قابل نہیں ہو پاتی کہ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی ضروریات ہی پوری کر سکیں۔ اسے مبالغہ آرائی سمجھا جائے لیکن یہ سچ ہے کہ چولستان کی طرح سندھ کے بھی بہت سے علا قوں میں ہاری جوہڑوں کا پانی پینے اور کھانا پکانے کے کام میں لاتے ہیں۔ بعض زمینداروں نے اپنی حویلی کی ایک طرف نلکا لگوایا ہوتا ہے جہاں سے ان ہاریوں کی عورتیں پانی لینے کیلئے آ سکتی ہیں لیکن اس سہولت کی آڑ میں زمیندار اور اس کے کارندے جوکھیل کھیلتے ہیں وہ ان
بدنصیب ہاریوں کے مقدر میں لکھا ہوا ہوتا ہے ۔کچھ سال ہوئے سندھ کے دیہی علاقوں میں انتخابی صورت حال کا تجزیہ کرنے کیلئے جانے کا اتفاق ہوا ۔کچھ ہاریوں سے ان کے پسندیدہ امیدوار اور ان کے ووٹ کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا'' سائیں خود ہی ووٹ ڈال دے گا‘‘میں نے ہاری کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ووٹ تو خفیہ طریقے سے مہر لگا کر دیا جاتا ہے ۔اس دفعہ وڈیروں کے ظلم کے تمام حصاروں کو توڑتے ہوئے اپنی مرضی سے ووٹ ڈالو شائد اس طرح کوئی اچھا شخص کامیاب ہو جائے تو وہ ہاری ہنس کر بولا: سائیں، سب ایک جیسے ہوتے ہیں اگر میں یہ جرأت کر بھی لوں لیکن جب ہمارا وڈیرہ دیکھے گا کہ اس کے خلاف اتنے ووٹ پڑ گئے ہیں تو وہ ''مشکوک‘‘ ہاریوں کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دے گا ،کسی کی چوریاں کرا دے گا ، کسی پر جھوٹے مقدمے درج کرا کر صوبیدار سے مار پڑوائے گا اور کسی کو اپنی زمینوں پر بنے ہوئے گھروں سے بے دخل کر دے گا۔۔۔سائیں آپ شہر کا لوگ ہے۔ ہم جو ہاری لوگ ہے نا ان سے تو وڈیرے کا کتا زیا دہ بہتر زندگی گزارتا ہے۔
آج سے کوئی د س پندرہ سال پہلے تک پنجاب میں بھی یہی حالت تھی لیکن اب اس میں کافی حد تک کمی آ چکی ہے لیکن ابھی بھی جنوبی پنجاب کے چار پانچ اضلاع میں مزارعوں اور کمیوں کے ساتھ جانوروں جیسا ہی سلوک کیا جاتا ہے ۔فرق یہ ہے کہ پنجاب بھر میں
میڈیا نے انہیں شعور اور زبان دینی شروع کر دی ہے ۔ابھی اس کی رفتار قدرے کم ہے لیکن ابتدا ہو چکی ہے ۔سندھ کے ہاریوں کی جھونپڑیوں نما کچے مکانات موسم کا مقابلہ کرنا تو کجا ،برسات بھی ان کیلئے عذاب بن کر رہ جاتی ہیں ۔ہاری کے بچے تعلیم یافتہ ہو کر زمیندار کی غلامی سے نہ نکل جائیں ،اس کیلئے زمینداروں اور وڈیروں نے خصوصی انتظامات کئے ہوتے ہیں ۔وہ اپنے گوٹھوں میں سکول ضرور بنواتے ہیں اور اپنے منشی اور ان جیسے خاص کارندوں کو ان سکولوں میں نوکریاں بھی دلواتے ہیں لیکن یہ نام کے سکول ہوتے ہیں ۔حقیقت میں ان سکولوں کی عما رتیں وڈیروں کی اوطاق یا گودام کا کام دیتی ہیں، چند بڑے گوٹھوں کو چھوڑ کر80 فیصد دیہات میں بنائے گئے سرکاری اسکول تعلیم گاہوں کی بجائے وڈیرے کی ملکیت نظر آتے ہیں۔ اس لئے ہاریوں کے بچے تعلیم نہ ہونے سے بصیرت سے محروم رہ جاتے ہیں اور بصیرت سے محرومی ان میں بدترین غلامی پیدا کرتی ہے۔ وہ وڈیرے کی چوکھٹ پر اپنی عزت اور سوچ کو قربان کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور وڈیرے کا اشارہ ان کیلئے کسی حکم سے کم نہیں ہوتا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا لیکن یہ سچ ہے کہ چند سال قبل سکھر کے ایک زمیندار نے ایک ہاری کو بلوا بھیجا ،اس نے تھوڑی سی تاخیر کی تو اسے اس قدر مارا گیا کہ اس کے جسم کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئی ۔۔۔۔سندھ کا مظلوم ہاری کسی ایسے معجزے کا منتظر ہے جو وقوع پذیر ہو اور اسے اس ظلم سے نجات دلا دے ...گو کہ یہ بہت ہی مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں...!! ‘‘