اس کے ہاتھ اچانک سن ہونا شروع ہو گئے اور ٹانگیں اس طرح شل ہونے لگیں کہ لگتا تھا کوئی سوکھی لکڑی ہے جو کسی بھی وقت چٹخ جائے گی لیکن بھاری بھر کم سواری کو چونکہ اس کی منزل تک پہنچانا ضروری تھا اس لئے فانگلی جیسے تیسے سائیکل رکشا کے پیڈل گھماتا جا رہا تھا۔ پیڈل مارتے ہوئے اس نے حتمی فیصلہ کر لیا تھا کہ اب اس کی عمر اور صحت اس قابل ہی نہیں رہ گئی کہ وہ سارا دن سائیکل رکشا پر سواریوں کو کھینچتا رہے۔ سواریاں بھی اب اس کی حالت دیکھ کر اس کے رکشے میں بیٹھنے سے اجتناب کرنے لگی تھیں اس لئے اپنی پھولتی ہوئی سانسوں اور ٹوٹتے ہوئے جسم کے ساتھ آج دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ قبل ا س کے کہ وہ کمزوری اور تھکاوٹ کی وجہ سے کسی سڑک پر سائیکل رکشا اور اس میں بیٹھی ہوئی سواری سمیت گر جائے‘ اب اسے یہ سب چھوڑ کر اپنے گائوں واپس لوٹنا ہو گا تاکہ اب تک جو اس نے کمایا ہے اس سے اپنی باقی ماندہ زندگی آسانی سے گزار سکے جہاں اس کا اپنا ایک کھلا کھلا سا جھونپڑا نہ جانے کب سے ا س کی راہ تک رہا تھا۔جیسے ہی ا س نے سواری کو ا س کی منزل پر پہنچایا وہ خالی سائیکل رکشا لئے سیدھا ٹھیکیدار کے پاس پہنچا اور سائیکل رکشا اس کے حوالے کرتے ہوئے آئندہ کام کرنے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے اپنے گائوں واپس جانے کی اجا زت مانگی۔
74 سالہ سائیکل رکشا کھینچنے والا بائی فانگلی ٹرین میں بیٹھا ہوا اپنے گائوں کی فضائوں کا منظر سامنے لا کر پرانی یادوں کو کریدتے ہوئے سوچنے لگا کہ اب1984ء کا سال شروع ہو چکا ہے۔ اتنے برسوں بعد وہ اپنے گائوں جا رہا ہے نہ جانے اس کے گائوں کے وہ سب ساتھی اب کیسے ہوں گے؟ گائوں کا موجو دہ منظر کیسا ہو گا وہ اپنے خیالوں میں اپنی نئی زندگی کے منصوبوں بارے سوچتا ہوا جب اپنے گائوں کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کے گائوں کے بہت سے بچے کھیتوں میں کام کر رہے ہیں۔ اسے بڑی حیرانگی ہوئی کہ یہ بچے اس وقت اپنے سکول میں کیوں نہیں ہیں۔ اس نے ان کے پاس رک کر پوچھا کہ تم سب اس وقت کھیتوں میں کیوں کام کر رہے ہو؟ سکول کیوں نہیں گئے؟ تو بچوں نے اس بوڑھے اور کمزور سے شخص کی جانب دیکھتے ہوئے پہلے تو اسے پہچاننے کی کوشش کی لیکن جب ناکام رہے تو دوبارہ اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔ بوڑھے بائی فانگلی نے دوبارہ ان سے جب یہی سوال پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ ہمارے والدین جو ہمیں ایک وقت کی روٹی بڑی مشکل سے کھلا سکتے ہیں ہمارے سکول کی فیسیں اور دوسرے اخراجات کہاں سے ادا کریں گے؟۔یہ جو ہم کھیتوں میں کام کر رہے ہیں اس سے تو ہم اپنے لئے ایک وقت کی خوراک بھی بمشکل حاصل کر پاتے ہیں۔۔۔۔فانگلی کچھ دیر وہاں کھڑا سوچتا رہا اور پھر زمین پر رکھی ہوئی اپنی گٹھڑی اٹھا کر کمر پر لادی اور سیدھا سکول کے ہیڈ ٹیچر کے پاس پہنچ گیا۔ اسے سلام کرنے کے بعد اس نے ایک بچے کے کل ماہانہ تعلیمی اخراجات کے بارے میں پوچھا۔ پہلے تو وہ سمجھا شائد یہ اپنے بچے کو سکول میں داخل کرانے آیا ہے لیکن جب اسے بتایا کہ وہ تو اکیلا ہے لیکن چاہتا ہے کہ گائوں کے بچے جو کھیتوں میں کام کرتے ہیں ان کو تعلیم دلوائی جا سکے تو سکول کے ہیڈ ٹیچر نے اسے ایک بچے کے کل ماہانہ تعلیمی اخراجات بارے تفصیل سے بتایا۔ یہ معلومات لینے کے بعد اس نے اپنے پاس جمع پونجی سکول کی انتظامیہ کے حوالے کرتے ہوئے درخواست کی کہ اس سے کھیتوں میں کام کرنے والے سب بچوں اور ان کے والدین کو بلا کر کہا جائے کہ ان کے بچے تعلیم حاصل کریں اوران کے جو بھی اخراجات ہیں وہ میں ادا کیا کروں گا۔ اس وقت ان سب کی ایک سال کی سکول فیسیں اور کتابوں سمیت دوسرے اخراجات کی رقم میں ایڈوانس ادا کر رہا ہوں۔
تیانجن واپس پہنچ کر فانگلی سیدھا سائیکل رکشا ٹھیکیدار کے پاس گیا اور اس سے دوبارہ کام کرنے کی درخواست کی۔ اس کی ایمانداری اور اچھے اخلاق کی وجہ سے ٹھیکیدار نے اسے دوبارہ سائیکل رکشا کرائے پر دے دیا۔ اب کی بار فانگلی نے ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی کمرہ کرائے پر لے لیا اور دن رات رکشاکھینچنا شروع ہو گیا ۔۔۔۔اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنے گائوں کے بچوں کو مزدوری نہیں کرنے دے گا بلکہ ان سب کو تعلیم دلوائے گا اور اس کیلئے ان کے تمام اخراجات خود برداشت کرے گا۔ اس نے پہلے کی نسبت سادہ غذا کھانی شروع کر
دی اور بارہ گھنٹے کی بجائے بیس گھنٹے کام شروع کر دیا۔ لباس اس نے شوخ پہننا شروع کر دیا تاکہ سواریاں اسے بوڑھا سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔ روزانہ سائیکل رکشاکھینچتے ہوئے جو کماتا اس سے وہ اپنے گائوں کے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرتا۔ یہ سلسلہ کئی سالوں تک چلتا رہا حتیٰ کہ سولا برس گذر گئے اور جب وہ نوے سال کی عمر کو پہنچا تو اس کے جسم پر سوائے ہڈیوں کے کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ سائیکل رکشا چلانا تو بہت دور بات اس سے اب سانس لینا بھی دشوار ہوتا جا رہا تھا۔ تیانجن کے یائو وا مڈل سکول پہنچ کر وہ سیدھا ہیڈ ٹیچر کے پاس گیا اور ان بچوں کے سکول کی فائنل فیس ادا کرنے کے بعد اس نے ہاتھ جوڑ کر سب سے معافی مانگتے ہوئے کہ چلنا تو بہت دور کی بات ہے اب پائوں پر کھڑا بھی نہیں ہوا جاتا۔ اس لیے میری طرف سے یہ سکول کی آپ سب کی آخری فیس ہے جو میں ادا کر رہا ہوں امید ہے کہ آپ سب مجھے معاف کر دیں گے۔ یہ کہتے ہوئے وہ پائوں پر کھڑا نہ رہ سکا اور گر گیا۔ سکول کے اساتذہ نے بڑھ کر اسے اٹھایا۔ بچے بائی فانگلی کی یہ حالت دیکھ کر رونے لگے۔
فانگلی نے1987ء سے2001 ء تک تیانجن کے تین سو بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کیلئے پندرہ سالوں میں کل تین لاکھ پچاس ہزار ین سکول فیس اور کتابوں کیلئے ادا کئے2005....ء میں فانگلی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تین سو بچوں کی صورت میں ایک شاندار اور با وقار میراث چھوڑتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔۔۔۔میں جب فانگلی کے بارے میں یہ سب پڑھ رہا تھا تو رہ رہ کر یہی خیال آتا کہ ایک سائیکل رکشا ڈرائیور جو خود بالکل ان پڑھ تھا‘ جسے نئے اور اچھے کپڑوں کی ضرورت تھی‘ جسے اپنی بہتر زندگی گزارنے کیلئے اچھی خوراک چاہئے تھی اس نے اپنے جسم اور اپنی خواہشات کی قربانی دیتے ہوئے سائیکل رکشا کھینچنے جیسی سخت محنت مزدوری کرتے ہوئے اگر پندرہ سال تک مسلسل 300 بچوں کے سکول کی فیسوں اور ان کی کتابوں سمیت تمام اخراجات ادا کئے تو میں اور آپ اور وہ سب جن کے پاس فانگلی سے کئی گنا زیا دہ بہتر وسائل ہیں اگر ایک ایک بچے کے تعلیمی اخراجات پورا کرنے کا ارادہ کر لیں تو اس کیلئے ہمیں مہینے میں سگریٹ کے دس پیکٹ، کسی ریستوران میں دوستوں کے ساتھ دو وقت کا کھانا‘ ایک اچھے لباس کی قربانی‘گاڑی میں بے مقصد گھومنے پھرنے کیلئے روزانہ کا ایک لیٹر پٹرول ضائع کرنے سے اجتناب کرنا پڑے گا۔ اگر ہم اپنا اور بائی فانگلی کا موازنہ کریں تو اس کے سکے مقابلے میں اﷲ نے ہمیں وہ کون سی نعمت ہے جو نہیں دی باری تعالیٰ نے تو ہم پر بہت کرم کیا ہوا ہے۔ ہم فانگلی کی طرح کوئی سائیکل رکشا تو کھینچ نہیں رہے۔ کسی جھونپڑے میں بھی نہیں رہ رہے ہمارے جسم پر پرانے کپڑے بھی نہیں ہیں بلکہ ہم کسی نہ کسی اچھی دکان پر یا کسی بینک اور کسی نہ کسی سرکاری یا پرائیویٹ ادارے کے دفتر میں کام کر رہے ہیں۔ ہم میں سے اکثر کا چھوٹا بڑا کاروبار ہے جہاں سے ہمیں معقول ماہانہ وصول ہوتا ہے ۔۔۔ ہم فانگلی کی طرح بوڑھے کمزور اور ضعیف بھی نہیں۔۔۔۔۔کیا ہم ایک بچہ... صرف ایک بچہ بھی نہیں پڑھا سکتے!!