"MABC" (space) message & send to 7575

ایک تھا کمیشن

قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے (لقمان نے کہا) ''اے بیٹا! اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور وہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں کہیں چھپا ہوا ہو، اﷲ اسے نکال کر لے ہی آئے گا، بے شک اﷲ بڑا باریک بیں ہے اور بڑا با خبر ہے‘‘۔ (سورہ لقمان آیت نمبر 16) قرآن مقدس نے کھل کر صاف اور شفاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ کوئی چیز کبھی بھی کسی بھی طرح سے چھپائے نہیں چھپے گی۔ سپریم کورٹ کے معزز چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم کئے جانے والے تین رکنی جوڈیشل کمیشن نے تحریک انصاف کی جانب سے وسیع پیمانے پر انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی تحقیقات کرنے کے بعد متفقہ طور پر فیصلہ دیا ہے کہ ان انتخابات میں کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی اور یہ انتخابات مکمل صاف اور شفاف تھے۔ یہ فیصلہ آنے کے بعد وزیر اعظم پاکستان نے اپنی نشری تقریر میں دوسری باتوں کے علا وہ بڑے دکھی دل سے کہا کہ2013 ء کے انتخابات کی شفافیت کے بارے میں جھوٹ بول بول کر دنیا بھر میں پاکستان کو رسوا کیا گیا، جس کا انہیں ہمیشہ افسوس رہے گا۔انہوں نے یہ دکھ بھرا شکوہ اس لئے کیا ہوگا کیونکہ انہیں دنیا بھر کے سربراہان اور ان کے میڈیا سے کہیں نہ کہیں ملنا پڑتا تھا اور وہاں کا میڈیا یہ سوال لازمی اٹھاتا ہو گا؟۔لیکن یہ شکوہ کرتے ہوئے ہمارے وزیر اعظم شاید بھول گئے کہ جب وہ اسلامی جمہوری اتحاد کے سائے تلے پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے،تب تو ان کی اس پہلی وزارت عظمیٰ کے خلاف ایئر مارشل(ر) اصغر خان نے ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مہران بینک کے یونس حبیب اور کچھ حکومتی ایجنسیوں کی جانب سے جناب نواز شریف اور ان کے ساتھیوں جن میں جاوید ہاشمی بھی شامل تھے، کو انتخابات کیلئے بھاری رقوم بطور نذرانہ عطا کی گئی تھیں، جس کے بارے میں بھی سپریم کورٹ نے 2012 ء میں ایف آئی اے کو حکم دیتے ہوئے ایک فیصلہ جاری کیا ہوا ہے جو ابھی تک ادھر ادھر کہیں گھوم پھر رہا ہے... اورمروجہ قانون کی شق173 کے تحت ایف آئی اے جسے یہ فرض سونپا گیا تھا، تین برسوں سے اس کیس کے سلسلے میں سیدہ عابدہ حسین ،کھر صاحب اور دوسرے لوگوں کے بیانات لینے کیلئے دھکے کھا رہی ہے لیکن کوئی بھی ان کے ہاتھ نہیں آ رہا؟۔ جناب وزیر اعظم، کیا ائر مارشل اصغر خان کی اس پٹیشن اور سپریم کورٹ کے دیئے جانے والے فیصلے سے آپ کی پہلی وزارت عظمیٰ کی شفافیت پر لگنے والا داغ مٹ چکا ہے؟ جس میں کہا گیا تھا کہ آپ کو کامیاب بنانے کیلئے ملک کی حساس ایجنسیوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کی۔کیا اس پٹیشن اور اس پر دیئے جانے والے سپریم کورٹ کے فیصلے سے دنیا میں ابھی تک آپ کی اور پاکستان کی جگ ہنسائی نہیں ہورہی؟ سپریم کورٹ کے اس تین رکنی معزز جو ڈیشل کمیشن کا تاریخی فیصلہ آنے کے بعد 1997 ء میں ایئر مارشل(ر) اصغر خان کی دائر کردہ اس پٹیشن کے پس منظر کو جانے بغیر آج کی نئی پرانی نسل اور میڈیا پر یک زبان ہو کر جھومنے والے چند دانشور حضرات کیسے جان سکیں گے کہ ٹی وی کی سکرینوں پر آج کے اس نئے فیصلے کے بارے میں بولا اوردکھایا جانے والا سچ، 1990ء کے اس سچ سے کس قدر مماثلت رکھتا ہے۔
کسی بھی ملک میں عوامی مفاد کے تعین کیلئے یا کسی بھی تصفیہ طلب معاملے پر حکومت وقت یا ان کے اداروں کی جانب سے مختلف قسم کے کمیشن بنتے ہی رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک کمیشن جناب نواز شریف ہی کی وزارت عظمیٰ کے پہلے دورمیں بھی بنایا گیا تھا۔ اس کمیشن کا تعلق بھی جناب نواز شریف کے دور حکومت سے ہے لیکن ایک بات ذہن میں رکھیے کہ خدا نخواستہ یہ کسی موٹر وے یا میٹروبس کے کمیشن کے بارے میںنہیں ہے بلکہ آج کی طرح کے ایک سچ مچ کے تحقیقاتی کمیشن کی بات ہے جو اس وقت قائم کیا گیا تھا جب ملک بھر میںفنانس کارپوریشنیں اور سینکڑوں مختلف ناموں سے کھمبیوں کی طرح ہر گلی اور ہر چوک میں بینک قائم ہو گئے تھے۔ جن میں ملک بھر کے لوگ اپنی عمر بھر کی جمع پونجیاں بہترین نفع کے لالچ میں جمع کروا نا شروع ہو گئے تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں بیروز گار نوجوان اپنی نوکریاں پکی کرانے کیلئے اپنے دوستوں، عزیزوں اور ملنے جلنے والوں سے کہیں 
ہزاروں تو کہیں لاکھوں روپے لے کر ان فنانس بینکوں میں جمع کرا رہے تھے اور پھر ایک دن ایسا طوفان آیا کہ سب کچھ دھڑام سے گر گیا ۔یہ تمام فنانس کمپنیاں اور بینک ایک ایک کر کے دیوالیہ ہوتے گئے اور 25 لاکھ سے بھی زائد لوگوں کا اربوں روپیہ ڈوب گیا۔ گھروں کے گھر کنگال ہو کر گلیوں اور سڑکوں پر دھکے کھانے لگے۔ لوگوں نے فنانس کمپنیوں اور نام نہاد بینکوں کے سازو سامان کو لوٹنا شروع کر دیا اور ان لوگوں کے گھروں پر حملے شروع کر دیئے جن کے کہنے اور مجبور کرنے پر انہوں نے اپنی اپنی رقوم ان فنا نس کمپنیوں میں جمع کروائی تھیں ۔ان متاثرہ لوگوں کی جانب سے الزام لگنا شروع ہو گیا کہ یہ سب بینک حکومتی ملی بھگت سے تباہ کئے گئے کیونکہ ان کی اطلاعات کے مطا بق حکمران جماعت مسلم لیگ کے بڑے بڑے لیڈروں نے اپنی اپنی صنعتی ایمپائرز کیلئے ان فنانس کمپنیوں اور بینکوں سے کروڑوں روپے نکلوا لئے تھے ۔اس وقت کی واحد اپو زیشن جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے اس وقت کی مسلم لیگ کی نواز حکومت پر یہ الزامات اس شدت سے لگنا شروع ہو گئے کہ مسلم لیگ نواز کیلئے حالات کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا کیونکہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی ہر گلی سے کوئی نہ کوئی گھر ان بینکوں اور فنانس کارپوریشنوں کا ڈسا ہوا تھا، چنانچہ یہ ایسا عوامی مسئلہ بن گیا کہ بہت سی انگلیاں ایک اہم خاندان کی جانب اٹھنا شروع ہو گئیں اور جب یہ شور شرابہ بہت بڑھ گیا اور لوگ مرنے مارنے 
کیلئے سڑکوں پر آ گئے تو اس وقت جسٹس افضل لون کی سربراہی میںایک ''لون کمیشن‘‘ قائم کیا گیا جس نے جو ڈیشل کمیشن کی طرح کئی کئی دن تک اپنی کارروائی جاری رکھتے ہوئے لوگوں کے بیانات لئے۔ بہت سے شکایت کنندگان کی باتیں سنیں اور پھر اس خاندان کو ''لون کمیشن ‘‘ نے تمام الزامات سے با عزت طور پر بری کر دیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد یہی جسٹس افضل لون ایک انڈسٹری کے ایڈوائزر مقرر ہوئے۔ تحریک انصاف کے مطالبے پر ویسے تو جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کا ہر لفظ موتیوں میں تولنے کے برابر ہے لیکن اس تین رکنی معزز کمیشن کی جانب سے دیا جانے والے یہ ریمارکس اپنے اندر بہت سے معنی لئے ہوئے ہیںکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے مہیا کئے جانے والے فارم15 کا ہونا یا نہ ہونا کسی بھی انتخابی نتیجے پر اثر انداز نہیں ہوتا۔اب ظاہر ہے کہ یہ الفاظ تین رکنی معزز جو ڈیشل کمیشن کے لکھے ہوئے ہیں ا س لئے اس فضول قسم کے فارم کی آئندہ کسی بھی قسم کے انتخابات کیلئے ضرورت نہیں ہونی چاہئے اور اس فارم کی چھپائی اور پھر اس میں ووٹوں کے بارے میں کئے جانے والے اندراج کی بھی کوئی لازمی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو اس فارم کو ترک کر دینا چاہئے۔ ساتھ ہی کمیشن نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ کسی بھی نشست کیلئے اضافی بیلٹ پیپرز چھپوانے سے بھی دھاندلی نہیں ہوتی،اس لئے اب جس حد تک بھی کوئی چاہے بیلٹ پیپرزچھپوائے، ان کی تعداد پر بھی کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔ تاہم اس دنیا میں آنے والے ہر ذی روح کو یاد رکھنا ہو گا کہ ... آج جو کچھ بوئے گا، کاٹے گا کل۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں