ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والی ہدایات پر ''بلیک آئوٹ‘‘ پر عمل شروع ہو گیا۔ حالات کے پیش نظر سرحدی علاقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی مجاہد فورس بنائی گئی تھی‘ اس میں شامل ہونے کی وجہ سے میں نے بھی ذمہ داری سنبھال لی۔ ہمیں اسٹین گن، گرینیڈ اور تھری نا ٹ تھری رائفل کے ا ستعمال کی تربیت پہلے ہی دے دی گئی تھی۔ ہمارے فرائض میں بلیک آئوٹ پر سختی سے عمل کرا نا ، دشمن کے ایجنٹوں پر نظر رکھنا‘ پلوں اور دوسری اہم تنصیبات کی حفاظت شامل تھی۔ ہمارے قصبہ سے ملحقہ سیکٹر خاموش تھا۔ صرف تین چار دفعہ بھارتی طیاروں نے گولیاںبرسائیں جس سے میرے قصبہ کا ایک شہری جلو ارائیں شہید ہوگیا۔ چند میل دور قصور کا محاذ بہت گرم تھا‘ جہاں بھارت نے اپنی چوتھی مائونٹین ڈویژن، اکتالیسویں مائونٹین بریگیڈ اور دو انڈی پینڈنٹ آرمرڈ بریگیڈ وںسے قصور کے راستے لاہور کی طرف بڑھنے کیلئے کھیم کرن کے مقابل روہی وال، بلانوالہ اور پنواںکی سرحدی پوسٹوں پر بھر پور حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں بھارتی فوج کی ڈوگرہ رجمنٹ روہی وال کے جنوبی علاقہ سے آگے بڑھ گئی لیکن ہمارے توپخانے نے دشمن کی اس رجمنٹ کو ادھیڑ کر رکھ دیا اور میجر ملکیت سنگھ سمیت دشمن کے چودہ سپاہیوں کو گرفتار کرلیا۔ دشمن کی بھا ری نفری کے مقابلہ میں ہمارے پاس ایک نا مکمل ڈویژن تھا۔ سات ستمبر کو بریگیڈیئر صاحب داد خان کا بریگیڈ بھی کھیم سیکٹر پہنچ گیا۔ اٹھائیس میل لمبے اس محاذ پر پاک فوج کی کل نفری صرف پانچ پلٹنوں پر مشتمل تھی۔ 8 ستمبر کو بریگیڈیئر صاحب داد کے بریگیڈ اور پاکستان کی ٹینک رجمنٹ کے کرنل صاحبزاد گل نے، پنجاب رجمنٹ اور ایف ایف کی ایک پلٹن سے کھیم کرن پر اپنا دبا ئو بڑھا دیا۔ دشمن نے اتنی خوفناک گولہ با ری کی کہ زمین اور آسمان آگ اور دھویں کے بادلوں میں گم ہو گئے‘ لیکن 8 ستمبر کو کرنل صاحبزاد گل شہید کی ٹینک رجمنٹ نے دشمن کے دونوں فلینک بے بس کر دیے۔ قصور کے محاذ پر پاکستانی فوج نے جنگی تاریخ کانا قابل یقین رسک لیتے ہوئے دشمن کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بڑی بڑی اور دور تک مار کرنے والی توپیں دشمن کے منہ کے عین سامنے کھڑی کر دیں۔ ان گنوں نے فیروز پور میں نصب دشمن کے ریڈار ، آرڈی ننس فیکٹری، ریلوے اسٹیشن اور فوجی تنصیبات کو تہس نہس کر دیا۔1965ء کی جنگ میں کھڈیاں اور عثمان والا سیکٹر کی جنگ میں خاموشی کی ایک وجہ ہمارے اس توپ خانے کی ٹھیک ٹھیک گولہ باری بھی تھی۔ چونکہ یہ گولہ با ری رات کو ہو تی تھی اس لیے بھا رتی یہ سمجھتے تھے کہ ہوائی جہازوں سے گولہ با ری کی جا رہی ہے۔ میرے سمیت کچھ اور ساتھیوں کی ڈیوٹی قصور کے محاذ پر تھی تاکہ فوجی کانوائے اور دوسرا سامان گزارا جا سکے۔ اور پھر وہ دن بھی آ گیا جب ہما ری فوجیں کھیم کرن سے بھی آ گے نکل گئیں۔ ہم چونکہ محاذ کے قریب تھے اس لیے ہمیں فوری اطلاع ہو گئی‘ لیکن پاک فوج کا اصول یہ تھا کہ کسی جگہ پر قبضہ کرتے‘ پھر اسے مستحکم کرکے اس سے آگے پیش قدمی کر نے کے بعد ریڈیو اور ٹی وی پر اعلان کرا یا جاتا۔ اس کے برعکس بھارتی ابھی کسی جگہ سے دومیل پیچھے ہی ہوتے‘ لیکن ساری دنیامیں وہاں قبضے کا شور مچا دیتے تھے۔ 11 ستمبر کو پاک فوج نے کھیم کرن پر قبضہ کر لیا۔ بھارت کایہ بڑا تجارتی قصبہ ہندوستانی سرحد کے چار میل اندر اس ریلوے لائن پر واقع ہے جو کبھی قصور کو ترن تارن اور امرتسر سے ملا تی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب ہندوستان نے چونڈہ کا محاذ کھول دیا اور ہمارے کچھ ٹینکوں اور توپخانے کو فوری پر اُدھر بھیجنا پڑا‘ ورنہ کھیم کرن سیکٹر پر ہمارے جوان ولٹوہا، آصل اتر اور امرتسر 32 میل کے سنگ میل تک پہنچ چکے تھے۔ 11 ستمبر کو دکن
ہارس کی ٹینک رجمنٹ اور سکھ رجمنٹ نے طو فانی حملہ کیا اور ایک لمحے ایسا لگا کہ سکھ رجمنٹ آگے بڑھ جائے گی‘ لیکن اﷲ کے شیروں نے قدم جما تے ہوئے انہیں ناکام بنا دیا اور اس رجمنٹ کے کرنل اننت سنگھ اور اس کے جوانوں کو قید کر لیا۔ گیارہ ستمبر کو کھیم کرن اور اس کا وسیع علا قہ مکمل طور پر پاکستان کے قبضے میں آ گیا۔ جس جگہ پاکستانی فوج اپنا قبضہ مستحکم کر لیتی‘ وہاں ریزرو کے کچھ جوان اور مجاہد فورس کے لوگ دیکھ بھال کے فرائض انجام دیتے تھے۔ 11 سے 23 ستمبر تک کھیم کرن سیکٹر میں حالات قیامت خیز رہے کیونکہ بھارت دنیا بھر میں یہی پروپیگنڈا کر رہا تھا کہ کھیم کرن بھا رتی فوج کے قبضہ میں ہے‘ وہ چا ہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح یہ علاقہ واپس لے لیا جائے۔ میں نے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو قریب سے دشمن سے لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ دشمن کی توپوں اور ٹینکوں کی گولہ با ری، آر آر گنوں کی فائرنگ اور آسمان پر دشمن کے چیختے چنگھاڑتے‘ گرجتے جنگی طیاروں کی ہولناک بمباری آنکھوں سے دیکھی اور کانوں سے سنی ہے۔ لاہور کے جن شہریوں نے6 ستمبر کی صبح ہما رے ایک فائٹر کی سپیڈ توڑنے کی آ واز سنی تھی‘ وہ اس چنگھاڑ کو اپنے تصور میں لائیں اور پھر سوچیں کہ میدان جنگ میں کیا حالت ہوتی ہوگی۔ 23ستمبر‘ فائر
بندی کی صبح کھیم کرن کے چا روں طرف جلے ہوئے بھارتی ٹینک اور سینکڑوں بھا رتیوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ بھارتی فوجی اس طرح ننگے پائوں بھاگے تھے کہ اپنے بوٹ مورچوں میں ہی چھوڑ گئے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے بھارتی فوج کے مورچوں میں فوجی لانگ بوٹ مع جرابوں کے پڑے ہوئے دیکھے تھے۔ ایسے ہی ایک مورچے سے مجھے پنجابی گانوں کاایک ریکارڈ '' لیاندا دیور میرے مکلا وہ تے اج مینوں نچ لین دے‘‘ بھی ملا۔ کھیم کرن ریلوے اسٹیشن کا وہ ریسٹ ہائوس‘ جہاں بیٹھ کر بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے 6 ستمبر سے پہلے صحافیوں سے با تیں کرتے ہوئے پاکستان کو اپنی پسند کا محاذ کھولنے کی دھمکی دی تھی‘ میرے وطن کے شیر جوانوں کی قربانیوں کے نتیجہ میںمیرے قدموں کے نیچے تھا۔ ہم نے کھیم کرن کی گلیوں با زاروں میں گھومتے پھرتے کئی بوڑھے ہندو اور سکھ مردوں اور عورتوں کی دیکھ بھال کی۔ انہیں باقاعدہ خوراک مہیا کی جا تی رہی۔ وہ بار بار ہم سے یہی پوچھتے کہ کھیم کرن کے بعد امرتسر بھی پاکستان بن گیا ہے؟ 1965ء میں کھیم کرن کا قصبہ جہاں ختم ہوتا تھا‘ وہاں ولٹوہا کو جانے والی سڑک کے بائیںطرف ایک سگریٹ ساز کمپنی کا اشتہاری بورڈ لگا ہوا تھا۔ افسوس کے اس وقت میرے پاس کیمرہ نہیں تھا‘ ورنہ میں ایک یاد گار تصویر اتار لیتا۔ پچاس سال گزرنے کے با وجود وہ اشتہاری بورڈ آج بھی مجھے اپنی نظروں کے سامنے محسوس ہوتا ہے‘ جس پر لکھا ہوا تھا: ''لیمپ کہو یا تار سگریٹ ہے بہت مزے دار‘‘۔