فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کو دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے تحریک انصاف کی اس قدر کردار کشی کی جائے گی، اس کے خلاف اتنا جھوٹ پھیلایا جائے گا اورکے پی کے میں اس کی کارکردگی صفر سے بھی نیچے گرا تے ہوئے اس طرح عوام کے سامنے لایا جائے گا کہ اس کے ہمدردوں اور خاموش اکثریت کومایوس کر دیا جائے تاکہ شہروں میں اس کے حق میں اٹھنے والی ہمدردیاں اور آوازیں دیہات اور گوٹھوں کی چوپالوں تک پہنچنے سے پہلے ہی دب کر رہ جائیں۔ آغاز ان سے کرایا گیا ہے جن کی تعریف عمران خان کر چکے تاکہ کسی کو شک نہ ہوکہ یہ سب حکمرانوں کے خفیہ ہاتھ کرا رہے ہیں۔
چند سال ہوئے ایک قلم کار کو حکومت وقت نے درخواست کی کہ ہمارا ساتھ دیں، اس پر وہ حیران ہو کر کہنے لگا، ساری زندگی تو ہر تحریر میں آپ کو رگڑتا چلا آ رہا ہوں، اب آپ کو نیک پاک کیسے لکھ سکتا ہوں، تو حکومت وقت کے عہدیدار نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، ہم نے کب کہا ہے کہ ہمارے حق میں لکھو، ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کی خوب خبر لو، پانچ ہمیں اور پانچ عمران خان کو بھی سنائو، ا س کے لیے آپ کی وہ خدمت کی جائے گی جس کا آپ کو تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ بات ظاہر نہیں ہونی تھی، بھانڈا بیچ چوراہے میں نہیں پھوڑنا تھا، لیکن برا ہوکیلنڈرکا جو دیوار پہ لٹکا صاف دکھائی دے رہا تھا۔ خیبر پختونخوا کے ایک ہسپتال کی حالت زار دکھاتے ہوئے کسی کی نظرکیلنڈر پر نہ پڑی جو 2013ء کا تھا۔ ایک پرانی ویڈیو آج کے خیبر پختونخوا کے ہسپتال کی بری حالت دکھانے کے لیے استعمال کی گئی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ نقل کے لیے بھی عقل کا ہونا ضروری ہے۔ اس مہم کا مقصد یہ ہے کہ اب عوام کہاں جائیں،کیا کریں؟ تحریک انصاف تبدیلی کا جو نعرہ لے کر اٹھی تھی اس نے تو سب کو مایوس کر دیا ہے۔
یہ سلسلہ اس وقت کم و بیش پانچ نجی چینلز پر بھر پور طریقے سے جاری ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میثاق جمہوریت نے مل کر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اس''گھس بیٹھیے‘‘ کو مل کر باہر نکالا جائے، جو نہ جانے کہاں سے آکر ان کے کباب میں ہڈی بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ منصوبہ سازوں کی فہم و فراست کو داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے اپنے اور اپنے دوست کے پہلو میں چبھنے والے کانٹے کو نکالنے کے لیے کیا زبردست پلاننگ کی ہے۔ ایک طرف تحریک انصاف کو اندر سے کمزور کیا جائے اور دوسری جانب ہر دیکھتی آنکھ اور سنتے کان کو ازبرکرایا جائے کہ کپتان کو اب ریٹائر ہی سمجھو، اس کی پارٹی اب دوبارہ واپس 1997ء کی سطح پر جا چکی۔ البتہ منصوبہ ساز پچھتا رہے ہیں کہ مقبولیت کا سروے کرانے میں ان سے جلدی ہوئی، چاہیے تھا کہ سروے اب کرایا جاتا اور اس میں عمران خان کی مقبولیت کو اکتوبر میں دیے گئے گر اف سے بھی نصف ظاہر کیا جاتا، اس طرح یہ تنقید کی زد سے بچ جاتا۔ اگر یہ کام اب کیا جاتا تو ایک طرف طلاق اور دوسری جانب ضمنی انتخاب میں کامیاب ہونے والے ''منتخب نمائندے‘‘ میڈیا پر عمران خان کو صفر سے بھی کم درجے پر پھینکنے میں اہم کردار ادا کرتے۔
اگر عمران خان کو وقت ملے اور وہ اپنی جماعت کی خاطر آخری گیند تک لڑنے کے لیے تیار ہوں تو انہیں دیکھنا ہوگا کہ ان کے اردگرد کون لوگ موجود ہیں؟ پارٹی کے اندرکی دھڑے بندیاں اتنی خطرناک نہیں ہوتیں جتنے پارٹی کے اندر گھسے ہوئے منافقین ہوتے ہیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی تو انہیں بھی اسی طرح کی صورت حال کا سامنا تھا۔ کوئی ایک سال بعد اس میں دھڑے بندی شروع ہوگئی تھی۔ ایک طرف ملک غلام مصطفیٰ کھر اور غلام مصطفیٰ جتوئی تھے تو دوسری جانب ڈاکٹر مبشر حسن، شیخ رشید اور ملک معراج خالد کا گروپ تھا، لیکن بھٹو نے اپنی سحر انگیز شخصیت اور مضبوط قوت ارادی سے ان سب کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ کسی جماعت میں دھڑے بندی اس وقت تک خطرناک نہیں ہوتی جب تک لیڈر کمزور نہ پڑ جائے۔ اگرلیڈر مضبوط اور باخبر ہو تو پارٹی کو سنبھالا جا سکتا ہے۔
اگر اب بھی عمران خان اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کا مصمم ارادہ کر لیں تو ڈھلوانیں کوئی شے نہیں ہوتیں۔ ریلوے کے لیے لکھنے والے ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے اپنی تحریر کے عنوان میں تحریک انصاف کو ڈھلوان کے سفر پر تو قرار دے دیا ہے، لیکن یہ لکھتے ہوئے وہ اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ ہر ڈھلوان کو طے کرنے کے بعد اونچائی کا ہی سفر شروع ہو تا ہے۔ عمران خان کے لیے اب موقع ہے کہ وہ ایسے ساتھیوں سے پیچھا چھڑانے میں ذرا سی بھی تاخیر نہ کریں۔
عمران خان نے 30 اکتوبر2011ء کو مینار پاکستان پر تحریک انصاف کا جلسہ کیا تو اس میں دو لاکھ سے زیادہ لوگوں کوکون لے کر آیا تھا؟ کوئی جاگیردار یا سابق بیوروکریٹ؟ وہ خواتین، بچے، بوڑھے اور نوجوان جنہیں آسمان نے کبھی جلسوں اور جلوسوں میں دیکھا نہ ریلیوں میں مارچ کرتے ہوئے پایا، ان سب کو کون سی چیز اس جلسے میں کھینچ لائی تھی؟یہ لوگ کئی گھنٹے اس عظیم الشان ہجوم
میںکیوں پھنسے رہے؟ عمران خان! صرف آپ کی ایمانداری پر اعتماد کرکے، وطن کے لیے آپ کی بے لوث محبت کی قدر کرتے ہوئے! ان لوگوں کے پاس خدا کا دیا سب کچھ تھا، بیشتر کا دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی وقت جانا ایک معمول تھا، لیکن وہ چاہتے تھے کہ اپنے ملک کو حقیقی معنوں میں آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے دیکھیں، ان کے ملک کا نام بھی دنیا کی باعزت قوموں میںعزت و احترام سے پکارا جائے۔ یہی لوگ تھے جو مئی کی تپتی دھوپ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ کئی کئی گھنٹے قطاروں میں کھڑے رہے۔ خان صاحب! آپ کو ایک بار پھر کمر باندھنا ہو گی، منزل آپ کے قریب ہے، رستہ آپ کے سامنے ہے، اس ملک کے مزدور، کسان ، طالب علم ، وکلاء اور نوجوان اب بھی آپ کے لیے اپنی آنکھیں بچھائے کھڑے ہیں اور آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں۔ یہی اصل پاکستانی ہیں، یہ کبھی اپنے ملک کو اس طرح گرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے جس طرح کل دبئی میں آئی ایم ایف کے سامنے گرتا ہوا دیکھا۔ دنیا تو اس پر قہقہے لگا رہی ہے لیکن پاکستانیوں کے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ کہیں ان کے ملک کو بیچا تو نہیں جا رہا۔ آخر ملک کو اتنا مقروض کیوں بنایا جا رہا ہے کہ کل کو سب کچھ بیچ کر بھی یہ قرضہ اتارا نہ جا سکے۔ گوئبلزکل بھی شکست خوردہ تھا، آج بھی شکست خوردہ رہے گا کیونکہ جو وہ کہہ رہا ہے وہ۔۔۔۔۔ فقط ہے شاہ کا فرماں، یہ اذاں تھوڑی ہے!